مجھے ایک واقعہ یاد ہے جب ہم کراچی ایک علاقے میں رہایش پذیر تھے۔ہمارے علاقے کے گرلز اسکول کا واقعہ ہے۔ایک روز ایک طالبہ اسکول گئی لیکن اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد کافی دیر تک اہل خانہ منتظر رہے لیکن بچی واپس نہیں آئی۔والدین کو تشویش ہوئی۔انھوں نے طالبہ کی کلاس فیلوز سے تفصیلات معلوم کیں تو معلوم ہوا کہ وہ تو اسکو ل ہی نہیں گئی۔یہ لمحات تشویشناک تھے۔ایسے میں والدین نے سر توڑ کوشش کی۔بالآخر انتظامیہ کے تعاون سے اس طالبہ کی جھاڑیوں سے لاش ملتی ہے۔گھر میں صف ماتم بچھ جاتاہے۔بچی کی موت کے محرکات کا نتیجہ جو نکلاپڑھ کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔یہ بچی بے چین تھی۔یہ اَن ہونے اندیشوں کا شکار تھی۔اسے امتحان میں فیل ہونے کا اندیشہ تھا۔اس خوف نے اسے زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور کردیا۔حالانکہ کہ ابھی امتحان شروع ہی نہ ہوئے تھے۔ابھی دور دور تک نتائج کابھی فیصلہ بھی نہ کیاجاسکتاتھا۔لیکن اپنے دماغ پر چھائے انجام کے خوف ،اضطراب اور ناامیدی نے اس طالبہ کو اس انجام تک پہنچادیا۔
اپنے اردگر د ماحول پر نظر دوڑائیں تو ہمیں بھی ایک ہیجانی اور ایک بے اطمینانی کی فضا محسوس ہوتی ہے۔غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ عام طور پر گھبراہٹ، بے چینی یا نروس ہونے کے سبب انسان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں کہ یہ کیا افتادآن پڑی، اب کیا کروں، کہاں جاؤں اور کس سے مدد مانگوں وغیرہ۔ خیالات دماغ میں ہتھوڑے کی طرح ضربیں لگاتے ہیں اور کمزور دل افراد پسینے میں شرابور ہو جاتے ہیں۔ کئی لوگ تمباکو نوشی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں توکچھ خوف اور غصے میں آ کر دیگر انسانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں جو اچھا عمل نہیں ہے۔
یاد رکھئے ! نروس ہونا یا بے چینی کوئی بیماری نہیں بلکہ اچانک رونما ہونے والے واقعات وحادثات کے علاوہ امتحان یا انٹرویو دیتے ہوئے اکثرلوگ اس کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں جو ایک عام سی بات ہے۔ہوتا کچھ اس طرح ہے کہ انسان ان دیکھے دشمن اور آنکھوں کے سامنے ہونے والے واقعات کے بارے میں سوچتا ہے اور بے چین ہوجاتا ہے اور نتائج برآمد ہونے تک اسی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگوں کی زندگی بھی مستقبل کے فرضی اندیشوں سے لرزاں رہتی ہے۔جبکہ تجربہ و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے اکثر اندیشے محض مفروضے ثابت ہوتے اور کبھی حقیقت نہیں بن پاتے ہیں۔ ماضی کے پچھتاؤوں اور ناخوشگوار یادوں میں جینے والا شخص ایک قنوطی، مایوس اور نفسیاتی مریض کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اسی طرح مستقبل کی حد سے زیادہ فکر کرنے والا فرد ایک وہمی اور خوف زدہ اور مخبوط الحواس شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔ہماری زندگی میں ہرمعاملے کے ساتھ ان گنت اندیشے جڑے ہوئے ہیں۔ اس بات کوآپ ایسے سمجھیں چنانچہ ایک حساس شخص کو یہ خیال تنگ کرتا ہے کہ اگر اس کی بیٹی بن بیاہی رہ گئی تو کیا ہوگا؟، اگر نوکری نہ ملی تو گذارا کیسے ہوگا؟، بچے نافرمان نکل گئے تو کیا کریں گے ، بڑھاپاآگیا تو صحت کیونکر برقرا ر رہے گی وغیرہ وغیرہ۔
مطالعہ اور مشاہدات سے معلوم ہوتاہے کہ : ہم سب خطرات میں رہ کر ہی اپنے آپ پر قابو پاتے ہیں اور آنے والے خطرات سے مقابلہ کرنے کی تیاری کرتے ہیں جو ایک مثبت عمل ہوتا ہے جبکہ ان حالات میں غلط حکمت عملی کی وجہ سے اکثر لوگ یا تو خود اپنا شدید نقصان کر بیٹھتے ہیں یا پھر برداشت کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور منفی سوچ سے دیگر افراد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ماہرین نے اس کے حل کے لئے کئی تجاویز پیش کی ہیں مثلاً:
*۔۔۔ سب سے پہلے انسان کو سوچنا چاہیے کہ ان حالات میں میری کیا پوزیشن ہے اور کیا میں ان معاملات میں دخل اندازی کا حق رکھتا ہوں ان باتوں کا جواب انسان کا ذہن اور شعور خود دے گا۔
*۔۔۔ باریک بینی سے یہ بھی سوچا جائے کیا یہ سب کچھ میری مرضی سے ہو رہا ہے یا میں حالات سے مجبور ہوکر اور دوسرے لوگوں کے دباؤ میں آکر اپنا کردار ادا کر رہا ہوں ضروری اور غیر ضروری نکات کی فہرست بنانا لازمی ہے تاکہ موازنہ کیا جائے کہ کیا سود مند ہے۔ خود اعتمادی سے کام لیا جائے۔ اس کے علاوہ باقاعدہ منصوبہ بندی، حقیقت پسندی اور تخلیقی صلاحیتیں انسان میں مثبت سوچ پیدا کرتے ہیں۔
انسان کے ساتھ کچھ ایسی قوتیں ہیں کہ اگر ان میں اعتدال اور توازن برقرار رہے تو انسان میں مثبت خصوصیات پیدا ہوتی ہیں مثلاً عقل، غصہ، شہوت، دولت، لیکن اگر یہ قوتیں افراط اور تفریط کا شکار ہوجائیں تو انسان میں اخلاقی امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔وہ اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوکر تقویٰ کی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔
انسان کی زندگی میں حقیقی خوشی اور اطمینان نہ ہونے اور اور بے سکون، بے چین اور بے قرار ہونے کی ایک وجہ انسانی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے انسان نے نظراندازکردیا ہے۔وہ پہلو ہے ’’روحانی پہلو‘‘یہ انسانی شخصیت کا وہ پہلو ہے جسے انسان کی اصل شخصیت قرار دے سکتے ہیں۔ جب ’’میں‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے انسان کی باطنی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے یہ باطنی شخصیت ہی انسان کا روحانی وجود ہے جو ظاہری وجود سے جڑا ہوا ہے۔
جب انسان جسمانی وجود کے تقاضے پورے کرتا ہے اور روحانی پہلو کو نظر انداز کردیتا ہے تو اس کی زندگی میں بے سکونی، بے قراری، بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ روحانی وجود کا ایک ہی تقاضا ہے کہ بندے کا اپنے رب سے تعلق استوار ہوجائے۔اس کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے تقویٰ کا راستہ۔ یہ تقویٰ کا راستہ کیسے حاصل ہوتا ہے؟ یہ معرفت الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔اس بے چینی کے سحر کے نکلنے کے لیے دین فطرت نے قدم بہ قدم ہمارے راہنمائی فرمائی ہے۔
ہیجان و بے چینی کی کیفیت سے نکلنے کے لیے چند نسخے ہیں جن پر عمل ان شاء اللہ عزوجل زندگی میں سکوں و چین کا باعث بنے گا۔
*۔۔۔ تو بہ واستغفار
کاروباری پریشانی ہو یا خاندانی لڑائی جھگڑوں کا دکھ اور صدمہ ہویا پھر کوئی اور بے چینی لاحق ہو۔کثرت استغفار کو معمول بنالیجئے !!
*۔۔۔ دعا:
اللہ تعالیٰ سے خوشحالی کااور مشکلات ،غموں اور صدموں سے نجات پانے کا سوال کرنا۔ کیونکہ خوشحالی کے تمام خزانوں کی چابیاں اللہ رب العزت ہی کے پاس ہیں اور مصائب وآلام سے نجات دینے والا تمام بے چینیوں و الجھنوں کو وہی دور کرنے والا ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک اللہ تعالیٰ حیا کرنے والا اور نہایت مہربان ہے اور کوئی آدمی جب اس کی طرف ہاتھ بلند کرتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ وہ انہیں خالی واپس لوٹا دے۔‘‘ [ ترمذی : ۶۵۵۳ ، ابو داؤد : ۸۸۴۱ ، ابن ماجہ : ۵۶۸۳۔ وصححہ الالبانی ]
*۔۔۔ اللہ عزوجل کا ذکر :
جو لوگ دنیاوی تکالیف ومصائب کی وجہ سے ہر وقت غمگین رہتے ہوں اور غموں اور صدموں نے ان کی خوشیاں چھین لی ہوں ، ان کی طبیعت کی بحالی اور اطمینانِ قلب کیلئے’ ذکر الٰہی ‘مجرب نسخہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
ترجمہ :وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللّٰہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللّٰہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے
*۔۔۔ شکر ادا کرنے کی عادت :
کامیاب وخوشحال زندگی کے حصول اور پریشانیوں سے نجات کا نسخہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر انسان اللہ تعالیٰ کی بے شمار و ان گنت نعمتوں پر شکر گزار ہوکیونکہ جب ہم اس کی نعمتوں پر شکریہ بجا لائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اور زیادہ نعمتوں سے نوازے گا۔
فرمان الٰہی ہے :
ترجمہ:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا ،اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔
*۔۔۔صبر کرنا:
دنیا میں سعادت مندی اور خوشحالی کا ایک نسخہ ’صبر‘ ہے۔یعنی کسی بندۂ مومن کو جب کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچے تو وہ اسے برداشت کرے ، اس پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے اور اسے اللہ تعالیٰ کی تقدیر سمجھ کر اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کرے۔اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کا طالب ہو ، یوں اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گااور اس کو اطمینانِ قلب نصیب کرے گا۔
*۔۔۔توکل علی اللہ:
وہ لوگ جن پر دشمن کی شرارتوں ، سازشوں اور ان کے ہتھکنڈوں کا خوف طاری رہتا ہو اور اس کی وجہ سے وہ سخت بے چین رہتے ہوں ، خصوصاً ان کی خوشحالی اور عموماً باقی تمام لوگوں کی خوشحالی کے لیے ایک بہترین نسخہ یہ ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر توکل (بھروسہ) کریں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر شر سے بچانے والا ہے اور اس کے حکم کے بغیر کوئی طاقتور کسی کو کوئی نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہے،اور فرمان الٰہی ہے :
ترجمہ: اور جو اللّٰہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بیشک اللّٰہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے
*۔۔۔ قناعت کرنا:
کامیاب وخوشگوار زندگی کاایک نسخہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو جتنا رزق عطا کیا ہو وہ اس پر قناعت کرے اور ہرحال میں اس کا شکر ادا کرتا رہے اور بڑے بڑے مالداروں کو اپنے مدِ نظر رکھنے کی بجائے اپنے سے کم مال والے لوگوں کو اپنے مد نظر رکھے اس طرح اللہ تعالیٰ اسے حقیقی چین وسکون نصیب کرے گااور اگر وہ کسی جسمانی بیماری کی وجہ سے پریشان رہتا ہو تو بھی اسے ان لوگوں کی طرف دیکھنا چاہیے جو اس سے زیادہ مریض ہوں اور وہ یا ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہوں یا اپنے گھروں میں صاحبِ فراش ہوں ، جب وہ اپنے سے کم مال والے لوگوں کی حالت اور اسی طرح اپنے سے بڑے مریضوں کی حالت کو دیکھے گا تو یقیناً وہ اپنی حالت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے گا۔اس طرح اللہ تعالیٰ اسے سکونِ قلب جیسی عظیم دولت سے نوازے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’ تم اس شحص کی طرف دیکھو جو ( دنیاوی اعتبار سے ) تم سے کم تر ہواور اس شخص کی طرف مت دیکھو جو ( دنیاوی اعتبار سے ) تم سے بڑا ہو ، کیونکہ اس طرح تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھو گے۔‘‘ [مسلم : الزہد والرقائق : ۳۶۹۲ ]
*۔۔۔ اپنے وقت کی قدر:
ناخوشگوار اور دکھ بھری زندگی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب زندگی کے فارغ اوقات کو بے مقصد بلکہ نقصان دہ چیزوں میں ضائع کرنا ہے۔ فضولیات میں وقت ضائع کرنے سے یقینی طور پر دل مردہ ہوتا ہے اور ناخوشگواری میں اور اضافہ ہوتا ہے ، اس لئے اس کی بجائے مفید کتابوں ، مثلا تفسیرِ قرآن ، کتبِ حدیث ، کتبِ سیرت نبویہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم وغیرہ کا مطالعہ کیا جائے اورصحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم وتابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کی سوانح حیات کے سچے واقعات کو پڑھا جائے اور قرآن مجید کی تلاوت اورفائدہ مند سنتوں بھرے بیانات سنا جائے تو اس سے یقیناًاللہ تعالیٰ بندۂ مومن کی زندگی کو بابرکت بنادیتا ہے اور اسے پریشانیوں سے نجات دیتا ہے۔
*۔۔۔ خیر خواہی:
دنیا میں دکھوں اور پریشانیوں سے نجات پانے کیلئے ایک نسخہ یہ ہے آپ اپنے مسلمان بھائیوں کی پریشانیاں دور کرنے میں ان کی مدد کریں۔اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیاں دور کرے گا اور آپ کو خوشحالی وسعادت مندی نصیب کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور اس کی پریشانی دور کی جائے ، تو و ہ تنگ دست کی پریشانی کو دور کرے۔‘‘[ احمد : ج ۲ ص ۳۲ ، وذکرہ الٰہی ثمی فی مجمع الزوائد ج ۴ ص ۳۳۱ وقال :رواہ احمد وابو یعلی ورجال احمد ثقات ]
مشاہد ے سے یہ بات گزرتی ہے کہ ان اندیشوں سے نبٹنے کے لئے عام طور پر لوگ یا تو لا پرواہی کا رویہ اختیار کرتے یا پھر نیند کی گولیوں سے احساس کو فنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن یہ اس کا حل نہیں۔اس کا حل جاننے کے لئے پہلی اصولی بات تو یہ سمجھ لینی چاہئے کہ کل کی فکر کرنا کوئی بری بات نہیں۔ یہی کل کا احساس انسان کی بقا اور ارتقا کا ضامن ہے۔ لیکن جب یہ فکر فردا اندیشوں کے ختم نہ ہونے والے سلسلے میں تبدیل ہوجائے اور زندگی ایک بوجھ معلوم ہونے لگے تو رک کر ایک لمحے کے لئے جائزہ لیں کہ مستقبل کے اس اندیشے کو دور کرنے کے لئے آپ آج کیا کرسکتے ہیں۔ آپ کے بس میں اگر کچھ ہے تو کر ڈالئے اور جو بس سے باہر ہے اس پر سوچنا چھوڑ دیں اور اللہ پر بھروسہ کریں کیونکہ آپ سب کچھ نہیں کرسکتے لیکن وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔کسی دانا نے بہت خوب بات کہی کہ اندھیروں کو کوسنے سے بہتر ہے کہ اپنے حصے کا چراغ روشن کردیں۔
اندیشے اور مفروضوں بھرے خوف اور ہیجان اور بے چینی سے چھٹکارا حاصل کیجئے۔قناعت کیجئے۔صبر کیجئے ،شکر کیجئے۔توکل کیجئے۔لمبی امیدوں سے اجتناب کیجئے۔ان شاء اللہ عزوجل آپ خود کو تمام تر بے چینیوں اور اضطراب سے آزاد پائیں گے۔
ڈاکٹر ظہور احمد دانش
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا