اس جماعت کانام”جماعت اسلامی پاکستان“اور اس دستور کانام ”دستور جماعت اسلامی پاکستان“ہوگا۔
(تاریخ نفاذ)
یہ دستور یکم جون 1957ءبمطابق2ذی القعدہ1376ھ سے نافذ العمل ہوگا۔
جماعت اسلامی پاکستان کا بنیادی عقیدہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہوگا۔ یعنی یہ کہ صرف اللہ ہی ایک الٰہ ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔
تشریح: اس عقیدے کے پہلے جزو یعنی اللہ کے واحد الٰہ ہونے اور کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، سب کا خالق، پروردگار،مالک اور تکوینی و تشریعی حاکم صرف اللہ ہے، ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔
اس حقیقت کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ :
1۔ انسان اللہ کے سوا کسی کو ولی و کار ساز، حاجت روا اور مشکل کشا، فریاد رس اور حامی و ناصر نہ سمجھے، کیونکہ کسی دوسرے کے پاس کوئی اقتدا ر ہی نہیں ہے۔
2-۔اللہ کے سوا کسی کو نفع و نقصان پہنچانے والا نہ سمجھے، کسی سے تقویٰ اور خوف نہ کرے، کسی پر توکل نہ کرے، کسی سے امیدیں وابستہ نہ کرے کیونکہ تمام اختیارات کامالک وہی اکیلا ہے۔
3۔ اللہ کے سوا کسی سے دعا نہ مانگے، کسی کی پناہ نہ ڈھونڈے، کسی کو مدد کے لیے نہ پکارے ، کسی کو خدائی انتظامات میں ایسا دخیل اور زور آور بھی نہ سمجھے کہ اس کی سفارش قضائے الٰہی کوٹال سکتی ہو، کیونکہ خدا کی سلطنت میں سب بے اختیار رعیت ہیں ،خواہ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء،
4۔ اللہ کے سوا کسی کے آگے سر نہ جھکائے، کسی کی پرستش نہ کرے، کسی کو نذر نہ دے اور کسی کے ساتھ وہ معاملہ نہ کرے جو مشرکین اپنے معبودوں کے ساتھ کرتے رہے ہیں، کیونکہ تنہا ایک اللہ ہی عبادت کا مستحق ہے۔
5۔ اللہ کے سوا کسی کو بادشاہ ، مالک الملک اور مقتدرِ اعلیٰ تسلیم نہ کرے، کسی بااختیارِ خود حکم دینے اور منع کرنے کا مجاز نہ سمجھے، کسی کو مستقل بالذات شارع اور قانون ساز نہ مانے اور ان تمام اطاعتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردے جو اللہ کی اطاعت کے تحت اور اس کے قانون کی پابندی میں نہ ہوں، کیونکہ اپنے ملک کاایک ہی جائز مالک اور اپنی خلق کا ایک ہی جائز حاکم اللہ ہے۔ اس کے سوا کسی کو مالکیت اور حاکمیت کا حق نہیں پہنچتا۔ نیزاس عقیدے کو قبول کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ:
6۔ انسان اپنی آزادی و خود مختاری سے دست بردار ہوجائے، اپنی خواہشاتِ نفس کی بندگی چھوڑ دے اور اللہ کا بندہ بن کررہے جس کو اس نے الٰہ تسلیم کیا ہے۔
7۔ اپنے آپ کو کسی چیز کا مالکِ مختار نہ سمجھے، بلکہ ہر چیز حتی کہ اپنی جان ، اپنے اعضاءاور اپنی ذہنی و جسمانی قوتوں کوبھی اللہ کی مِلک اور اس کی طرف سے امانت سمجھے۔
8۔ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے ذمہ دار اور جواب دہ سمجھے اور اپنی قوتوں کے استعمال اور اپنے برتاؤ اور تصرفات میں ہمیشہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھے کہ اسے قیامت کے روز اللہ کو ان سب چیزوں کا حساب دینا ہے۔
9۔ اپنی پسند کا معیاراللہ کی پسند کو اور اپنی ناپسندیدگی کا معیار اللہ کی ناپسندیدگی کو بنائے۔
10۔ اللہ کی رضا اور اس کے قرب کو اپنی تمام سعی وجہد کا مقصود اور اپنی پوری زندگی کا محور ٹھہرائے۔
11۔اپنے لیے اخلاق میں، برتاؤمیں، معاشرت اور تمدن میں، معیشت اور سیاست میں، غرض زندگی کے ہر معاملے میں صرف اللہ کی ہدایت تسلیم کرے اور ہر اس طریقے اور ضابطے کو رد کردے جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو۔
12۔اس عقیدے کے دوسرے جز یعنی محمدﷺ کے رسول اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سلطانِ کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کو جس آخری نبی کے ذریعہ سے مستند ہدایت نامہ اور ضابطہِ قانون بھیجا گیا اور جس کواس ضابطہ کے مطابق کام کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کردینے پر مامور کیا گیا، وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اس امر واقعی کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ:
1۔ انسان ہر اس تعلیم اور ہر اس ہدایت کو بے چون و چرا قبول کرے جو محمد سے ثابت ہو۔
2۔ اس کوکسی حکم کی تعمیل پرآمادہ کرنے کے لیے اور کسی طریقہ کی پیروی سے روک دینے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہو کہ اس چیز کا حکم یااس چیز کی ممانعت رسولِ خدا سے ثابت ہے۔اس کے سوا کسی دوسری دلیل پر اس کی اطاعت موقوف نہ ہو۔
3۔ رسول خدا کے سواکسی کی مستقل بالذات پیشوائی اور رہنمائی تسلیم نہ کرے۔ دوسرے انسانوں کی پیروی کتاب اللہ اور سنت رسول کے تحت ہو، نہ کہ ان سے آزاد۔
4۔ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو حجت اور سند اور مرجع قرار دے، جوخیال یا عقیدہ یا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہواسے اختیار کرے۔
5۔ تمام عصبیتیں اپنے دل سے نکال دے خواہ وہ شخصی ہوں یا خاندانی، یا قبائلی ونسلی، یا قومی و وطنی، فرقی و گروہی۔ کسی کی محبت یا عقیدت میں ایسا گرفتارنہ ہو کہ رسولِ خدا کے لائے ہوئے حق کی محبت و عقیدت پر وہ غالب آجائے یا اس کی مدِ مقابل بن جائے۔
6۔ رسولِ خدا کے سوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو، ہر ایک کو خدا کے بنائے ہوئے اسی معیار کامل پر جانچے اور پرکھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہو، اس کو اسی درجے میں رکھے۔
7۔ محمد ﷺ کے بعد پیداہونے والے کسی دوسرے انسان کا یہ منصب تسلیم نہ کرے کہ اس کوماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفروایمان کا فیصلہ ہو.