میرا بیٹا جو یونیورسٹی کا طالب علم ہے، اپنے دوستوں کے ہمراہ کسی ہوٹل کے باہر چائے پینے کے لیے رک گیا۔ میز کرسیوں سے کچھ فاصلے پر ایک تھڑے پر دو فقیر محوِ گفتگو تھے۔ اس نے ان فقیروں کی گفتگو سنی اور میرے گوش گزار کی کہ وہ اپنی آمدنی بڑھانے کے طریقوں پر بات کررہے تھے، وہ اپنے ’’اڈوں‘‘ سے نالاں تھے اور جگہ بدلنے کی سوچ رہے تھے۔ وہ خواجہ سرائوں سے بے زار تھے جو اچانک نمودار ہوکر ان کے دھندے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جو بات اس کے لیے غیر معمولی دلچسپی کا باعث بنی وہ یہ تھی کہ ایک فقیر نے دوسرے سے کہا ’’تیرا جو ایک ٹانگ سے معذور بیٹا ہے اُس کو کیوں نہیں لاتا صبح اپنے ساتھ؟‘‘ وہ بولا ’’اس کو لانے کے لیے وہیل چیئر کا بندوبست میں نہیں کرسکتا‘‘۔ پہلا بولا ’’ارے بچے کو ٹھیلے پر ڈال کر نکال لایا کر، کہیں سائے میں ٹھیلا کھڑا کرکے خود بھی ٹھیلے پر سستا لیا‘‘۔ دوسرا بولا ’’مجھے شرم آتی ہے معذور بچے سے بھیک منگوائوں‘‘۔ پہلا ہٹ دھرمی سے بولا ’’ارے وہ تو قدرت کا تحفہ ہے تیرے لیے ناقدرے، چار چاند لگ جائیںگے تیرے دھندے کو جب معذور بچہ تیرے ساتھ ہوگا۔ میں تو کبھی ضائع نہ کرتا قدرت کے اس تحفے کو‘‘۔
میرا بیٹا اتنا سن کر وہاں سے اٹھ گیا، مگر بہت تکلیف محسوس کررہا تھا کہ انسان کی بے بسی اُس کو انسانیت کی کتنی نچلی سطح پر لے آتی ہے، اور تکلیف تو ہم سب بھی محسوس کرتے ہیں جب گاڑی سگنل پر رکتی ہے اور دو ننھے ننھے ہاتھ وائپر تھامے ونڈ اسکرین پر تیزی سے گردش کرنے لگتے ہیں، اتنی ہی تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے فرد کے منہ سے مغلظات نکلنے لگتی ہیں۔ بچوں پر ڈانٹ ڈپٹ، ان کو جھڑکنا، دھمکیاں دینا… کیونکہ خیال یہی ہے کہ یہ بچے صفائی کے نام پر گاڑی گندی کردیتے ہیں۔ اتنی جھڑکیاں سن کر بھی ننھے معصوم لڑکے اور لڑکیاں برابر سڑکوں، چوراہوں، سگنلوں پر موجود ہیں۔
دائیں یا بائیں گاڑی کی کھڑکی کو کوئی ضرب لگاتا ہے، آپ موبائل فون کی اسکرین سے نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو دس بارہ برس کا بچہ تولیہ ہاتھ میں لیے کھڑا ہوگا۔ کبھی پین، کبھی قرآنی سورتیں، کبھی بچوں کے کھلونے، کبھی پلاسٹک کوٹڈ دوا کا نسخہ کہ میرا باپ یا میری ماں بیمار ہے، دوا کے پیسے نہیں ہیں۔ جتنے بھکاری ہیں اتنے ہی بھیک مانگنے کے طریقے۔ سب سے زیادہ دکھ ان بچوں کے پھیلے ہوئے ہاتھوں پر ہوتا ہے جن ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونی چاہیے تھی۔
ہمارے معاشرے میں نہ مخیر افراد کی کمی ہے، نہ چیریٹی کے اداروں کی۔ یوں بھی ماہِ رمضان میں مواسات یعنی بھائی چارگی کے مناظر جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ جو دینے والے ہاتھ ہیں وہ کہاں دیتے ہیں! ہم لوگ عموماً خدمت گاروں یعنی ماسیوں، ڈرائیوروں وغیرہ کی مدد اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں، یا جو سفید پوش ہمارے درمیان ہیں اور واقعی ضرورت مند ہیں ان کی مدد کردی جاتی ہے۔
جن کو اللہ نے کچھ زیادہ دیا ہے وہ خیراتی اداروں کی مدد کردیتے ہیں، مثلاً خیراتی اسپتال یا جگہ جگہ بچھے ہوئے دسترخوان جو مستحقین کو بلا معاوضہ کھانا فراہم کرتے ہیں۔ ہم تیسری دنیا کے ایک غریب ملک میں رہتے ہیں۔ ملک کی بیشتر آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ملک کے 95 فیصد وسائل پر پانچ فیصد اشرافیہ قابض ہے، باقی 5 فیصد وسائل کے لیے 95 فیصد لوگ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔
ہر گلی محلے میں بھی آپ دسترخوان بچھوا دیں تو پیٹ ایسی ضرورت ہے جو ہر چند گھنٹے بعد نیا تقاضا رکھتا ہے۔ آپ لاکھ اسپتال بنوادیں، جب پینے کو صاف پانی ہی نہیں ہوگا، لوگ حفظانِ صحت کے بنیادی اصولوں سے بھی آگہی نہیں رکھتے ہوں گے تو اسپتال بھرے ہی رہیں گے۔
اس معاشرے میں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہمارے وسائل کا بہترین مصرف یہ ہے کہ کسی ناخواندہ کو تعلیم دلادی جائے۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ ضروری نہیں کہ غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کا مالک ہو، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کند ذہن ہو۔ ذہین بچے غریب گھرانوں میں بھی پیدا ہوتے ہیں اور کند ذہن بچے اکثر رئیس گھرانوں میں بھی پیدا ہوجاتے ہیں، مگر ہمارا یعنی تیسری دنیا کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے غریب بچوں کی ذہانتوں کو پھپھوند لگ جاتی ہے، یا وہ جرائم کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ۔ مغرب اور یورپی ممالک میں چونکہ ابتدائی تعلیم مفت ہے، وہ ذہین بچوں کو اسکالرشپ وغیرہ دیتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں نہ معلوم کتنے پوزیشن ہولڈرز یا گولڈ میڈلسٹ اِس وقت ٹھیلوں پر سبزی بیچنے یا گاڑیوں کے نیچے نٹ کھولنے اور ورکشاپوں پر اپنی خدمات کو بیچنے پر مجبور ہیں۔
حالات کا نوحہ ہم سب ہی کرتے ہیں، اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر گھر آئے مہمانوں سے پاکستان کی زبوں حالی پر نرم صوفوں پر پہلو بدل بدل کر بات کرتے ہیں، مگر جو کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں وہ پیاس کی دہائی دینے کے بجائے پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
ناخواندگی ہر مسئلے کی جڑ ہے۔ حلقۂ خواتین جماعت اسلامی نے اپنے محدود وسائل میں خواندگی عام کرنے اور گھر کے ایک کمرے کو اسکول کے لیے مختص کرنے کی مہم چلائی، جس کو ’’بیٹھک اسکول‘‘ کا نام دیاگیا۔ 1996ء میں پہلا بیٹھک اسکول قائم ہوا، تب سے آج تک ایک لاکھ بچے ان اسکولوں سے تعلیم کے روشن چراغ لے کر نکل چکے ہیں۔ یہاں پرائمری تعلیم دی جاتی ہے، چونکہ بچے کا رشتہ قلم اور کتاب سے قائم ہوجاتا ہے، وہ علم کی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے، تو اکثر بچے محنت مزدوری کرکے بھی اپنی تعلیم کے سلسلے کو آگے جاری رکھتے ہیں۔ ملک کے چاروں صوبوں کی انتہائی پسماندہ آبادیوں میں قائم ان 138 اسکولوں میں 60 فیصد لڑکیاں اور 40 فیصد لڑکے زیرتعلیم ہیں۔ بچوں اور والدین میں خودداری کی خو باقی رہے اس لیے اسکول کی فیس سو روپے رکھی گئی ہے، مگر دوسرے بہن یا بھائی کے داخلے پر یہ فیس بھی معاف کردی جاتی ہے۔ جن آبادیوں میں یہ اسکول قائم ہیں وہاں غربت کے ساتھ ساتھ ذہنی پسماندگی اور دین سے حد درجہ دوری بھی ہے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ اُن کی مائوں پر کام کیا جاتا ہے۔ ہفتہ وار، پندرہ روزہ اور ماہانہ پروگرام رکھ کر انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات، صحت و صفائی کے اصولوں سے آگہی دی جاتی ہے۔
قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ ہر اسکول میں لائبریری لازماً ہوتی ہے۔ صرف نمائشی کتابوں کی الماری نہیں بلکہ بچوں کو کتابیں پڑھنے کو دی جاتی ہیں۔ ان کتابوں پر ڈسکس کیا جاتا ہے، کتاب اور حرف سے ان کا رشتہ جو اساتذہ قائم کررہے ہیں اُن کی اکثریت بلا معاوضہ یہ خدمات انجام دے رہی ہے۔
SEW سوسائٹی فار ایجوکیشن ویلفیئر کی چیئرپرسن نگہت ملک نے ہم سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے لوگ اتنے عظیم ہیں کہ وہ ملک کی محبت کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں اگر ہم ان کے جذبوں کو مہمیز دیں، صحیح رخ پر لگادیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک بچے کا سالانہ تعلیمی خرچ 12 ہزار روپے ہے، ہمارے اکثر اساتذہ اور ڈرائیور حضرات نے ایک ایک بچے کا خرچ اٹھایا ہوا ہے۔ جن کے عزیز واقارب مخیر ہیں انہوں نے کئی بچے بھی اسپانسر کرائے ہوئے ہیں۔ یہ پورا نظام اپنی مدد آپ کے تحت قائم ہے۔ ننانوے فیصد مدد مقامی لوگ کرتے ہیں۔ اس کے لیے انتظامیہ ڈونرز تلاش کرتی ہے کہ تعلیم کے اس سلسلے کو مزید پھیلایا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے سو بچوں کے ایک اسکول کا خرچ 14 لاکھ 40 ہزار روپے سالانہ ہے۔ پچھلے دنوں ان کی ایک تقریب میں گورنر سندھ مدعو تھے جن کے سامنے سوسائٹی کی کارکردگی رپورٹ پیش کی گئی تو بہت متاثر ہوئے کہ معاشرے میں اصل کرنے کا کام آپ لوگ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ اس کے لیے گورنمنٹ کو 800 ارب روپے کا بجٹ درکار ہے۔ سوسائٹی کی انتظامیہ نے پیشکش کی کہ اگر صرف 300 ارب روپے اس کام کے لیے مختص کرکے یہ پراجیکٹ سوسائٹی فار ایجوکیشنل ویلفیئر کے حوالے کردیا جائے تو وہ ملک میں سو فیصد خواندگی کی شرح پیدا کرسکتی ہے، اس لیے کہ وہ لوگ فیلڈ میں ہیں اور جانتے ہیں کہ کام سرمائے سے نہیں اخلاص سے ہوتا ہے۔ جہاں حکومتی عہدیداروں پر اربوں روپے کی کرپشن کا الزام ہو وہاں دو تین افراد سے کرپشن کی دولت واپس لے کر ملک کو سو فیصد خواندگی کی شرح سے مالا مال کیا جاسکتا ہے۔
SEW کی چیئرپرسن نگہت ملک کا کہنا تھا کہ پسماندہ آبادیوں کے بچے بہت ذہین ہوتے ہیں، ہمارے فارغ التحصیل بچوں میں سے ایک لاہور گورنمنٹ کالج میں لیکچرار ہیں۔ اکثر بچے یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ پنجاب میں پانچویں جماعت کے امتحانات بورڈ سے ہوتے ہیں۔ بیٹھک اسکول کے بچے اکثر پہلی، دوسری یا تیسری پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں بحریہ یونیورسٹی میں سائنسی نمائش ہوئی جہاں اسکولوں، کالجوں کے طلبہ و طالبات نے اپنی تخلیقات پیش کیں۔ بیٹھک اسکول کے بچے نے اس نمائش میں اپنے بنائے ہوئے ماڈل پر دوسرا انعام حاصل کیا، جبکہ وہاں اکثریت اُن شرکاء کی تھی جن کے والد یا بھائی خود سافٹ ویئر انجینئر تھے۔
اس وقت ملک کے 23 شہروں میں 138 بیٹھک اسکول قائم ہیں جن میں 18 ہزار بچے زیر تعلیم ہیں۔ تعلیم کی پیاس اس قدر ہے کہ جیسے ہی داخلوںکا اعلان ہوتا ہے چند گھنٹوں میں اسکول کی گنجائش کے مطابق داخلے ہوجاتے ہیں۔ باقی رابطہ کرنے والوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ سو بچوں کی گنجائش والے اسکول کے لیے سینکڑوں والدین پورے سال رابطہ کرتے ہیں۔
بیٹھک اسکول کے تحت علم کے چراغ روشن ہورہے ہیں، ایک ہزار اساتذہ (جن کی اکثریت خود ان پسماندہ بستیوں سے تعلق نہیں رکھتی) اپنی تمام صلاحیتیں ملک کا قرض اتارنے میں لگارہے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ ایک بچے کے ہاتھ میں قلم اور کتاب آگئی، بلکہ کتنی مثالیں ایسی قائم ہورہی ہیں کہ ان آبادیوں سے جرائم کا خاتمہ ہورہا ہے۔ انتظامیہ فارغ التحصیل بچوں سے رابطے میں رہتی ہے۔ بچے بیٹھک اسکول کا قرض اس طرح اتار رہے ہیں کہ خود اس علم کی مشعل لے کر اپنی آبادیوں میں کھڑے ہیں۔ وہ ہزاروں بچے مزید لاکھوں بچوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال رہے ہیں، اور ایسا کیوں نہ کریں کہ ہم جس دین کے پیروکار ہیں اس کی تو بنیاد ہی ’’اقراء‘‘ پر رکھی گئی تھی۔
گورنمنٹ چاہے SEW کو 300 ارب روپے دے یا نہ دے گھر گھر تعلیم کی روشنی پھیلانے کے لیے، مگر ہم اور آپ تو ایک دیا جلاسکتے ہیں۔ کتنی پیاری ہے وہ زندگی جس کا مشن یہ ہو کہ ’’دیے کرتی رہوں روشن اِدھر رکھ دوں اُدھر رکھ دوں‘‘
سو آپ بھی اپنے حصے کا ایک دیا ضرور جلائیے کہ ہمارے جانے کے بعد تیرگی نہیں روشنی ہو اس پیارے دیس میں۔
سوسائٹی کی مدد ان اکائونٹس کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔
0103-0100019289۔ میزان بینک
IBN#PK03MEZN0001030100019289۔
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا