November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

ہمارا میڈیا اور سماجی اقدار



ہمارا میڈیا اور سماجی اقدار

بواسطة Admin / 0 Comment

شہلا خضر

ہمارے معاشرے کے عمومی گھرانوں کی صبح کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ خاتون خانہ جلدی جلدی بچوں کو تیار کروا کر اسکول روانہ کرتی ہیں اور شوہر حضرات کو کام پر بھجوا کر پورا گھر اوندھا پڑا چھوڑ ، چا ئے کی پیالی لئے ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے ۔ اپنے پسندیدہ ” مارننگ شو” دیکھنے بیٹھ جاتی ہیں ۔ جہاں ایک سے بڑھ کر ایک مقابلے کے “مارننگ شوز” کی بھرمار لگی ہے ۔
نت نئے” ڈیزائنر کپڑے” ،میک اپ سے مزین ٹپ ٹاپ میزبان لہک لہک کر اٹھلا اٹھلا کر پروگرام کی Rating بڑھانے میں مشغول نظر آتی ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہماری سادہ لوح گھریلو خواتین متاثر ہو کر ان کی شخصیت کو Ideal شخصیت تصور کر تی ہیں اور دل ہی دل میں رشک سے سوچتی ہیں کہ واہ بھئی زندگی ہو تو ایسی کتنی شاندار زندگی گزارتی ہیں یہ میزبان خواتین روز نئے نئے ڈیزائنر کپڑے ، مہنگے ہینڈ بیگ اور قیمتی زیورات یہ کہنا سو فیصد درست ہوگا کہ یہ مارننگ شوز پورے معاشرے میں مصنوعی لائف اسٹا ئل کو Promote کر رہے ہیں ۔
یہی نہیں ہر تھوڑے عرصے میں مسلسل شادی بیاہ کی تمام ہندوانہ رسومات ، مہندی ، مایوں ، ڈھولکی ، مردوں اور عورتوں کا مخلوط محفلوں میں ہنسی مذاق اور ناچ گانا بار بار دہراتے رہنا ہمارے معاشرے میں پہلے ہی سے سرا ئیت غیر اسلامی اقدار و رسومات کو بڑھاوا دینے کا با عث ہیں ۔
ہماری بھولی اور کم عقل عوام جو کہ ان امیر اور بااثر لوگوں ے بلا وجہ ہی متا ثر و مر عوب رہتے ہیں او جب ان بڑے ادا کاروں اور مشہور شخصیات کو یہ سب رسومات شوق و ذوق سے کرتا دیکھتے ہیں تو وہ بھی ان رسومات کی اندھی تقلید شروع کردیتے ہیں ۔ آپ خود ہی بتا ئیں آج سے پندرہ بیس سال پہلے جب ان درجنوں چینلز کی بھرمار نہ تھی کیا مایوں ، مہندی اس انداز میں ہوتا تھا کہ تمام پردے صوفے ، قالین ، کرسیاں حتیٰ کہ درو دیوار بھی پیلی اور ہرے رنگ کی ہو جائے ۔ نہیں ایسا نہیں تھا ، یہ سب تنزلی ہمارے معاشرے میں اسی لئے ہے کہ جب ایسی نئی نئی خرافات کا آغاز ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے ہو ہم ان کے سنگین نتا ئج کو سمجھ نہیں پاتے اور آہستہ آہستہ یہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہی بن جاتی ہیں ، یہاں تک کہ ہم اپنے اصل اسلامی شعا ئر کو بھول جا تے ہیں ۔ اسلام نے عورت کو اپنی زینت کو چھپانے کا حکم دیا ہے ۔

قر آن پاک میں سورۃ الاحزاب میں آیت نمبر 33ہے۔
“زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھر و”۔
چہ جائیکہ کہ وہ سولہ سنگھار کر کے نا محرم مردوں کے ساتھ ٹھٹھے لگائیں اور چھیڑ چھاڑ کرنے لگیں ۔
اسکے علاوہ ایک نہایت واہیات رواج ڈالنے کی بھی بھرپو ر کوشش کی جارہی ہے “مرد میک اپ آرٹسٹ ” کا آ ن ایئر آ کر بے حجاب ماڈل خواتین کو سجانا ، سنوارنا ، تفصیلی میک اپ اور ہیئر اسٹا ئل بنانا ۔
خدارا کچھ تو حیا ہمارے معاشرے میں رہنے دیں ۔ آپ کو اس معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے کا پورا حساب روز محشر اپنے مالک کو دینا ہو گا ۔ اسی طرح ایسا ملک جہاں بہت بری تعداد میں لوگوں کو دو وقت روٹی بھی پیٹ بھر کر میسر نہ ہو وہاں انٹرنیشنل ، کانٹی نینٹل ، چائنیز ، اٹا لین ، جرمن اور نہ جانے کس کس دیس کے کھانے پکانا سکھا ئے جا رہے ہوں تو کیا یہ بے چاری غریب اور بے کس عوام کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق نہیں تو اور کیا ہے ۔
ہمارے پیارے نبیؐ آقائے دو جہاں کی سیرت دیکھیں کہ وہ نہا یت سادہ غذا لیتے اور کبھی تمام عمر آپؐ نے ایک وقت میں دو سالن نہ کھائے تھے ۔ہمارا دین ہمیں سادگی ، حیا داری اور میانہ روی سکھاتا ہے جبکہ ہما را میڈیا ہمیں اسراف، بے حیائی اور دنیاوی آسائشوں کی حوس سکھا تا ہے ۔
ہمارے ڈراموں کو دیکھیں تو چند ایک کے علاوہ تمام ہی ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کرنے والی لڑکیوں کو بے باک، منہ پھٹ اور بے حجاب دکھایا جاتا ہے ۔ اکثر و بیشتر چینلز”پرائم ٹا ئم” یعنی رات آٹھ سے 10بجے کے درمیان کے اوقات میں ایسے ڈرامے نشر کر رہے ہیں جو کہ انتہائی bold اور حساس موضوعات پر مبنی ہے ۔ پیروں فقیروں کے آستانوں پر جانا ، منتیں مانگنا، جادو تعویز ، مکر و فر یب اور دولت کی حوس کیا یہی سب دکھانے کو رہ گیا ہے ۔
“باغی” جیسے ڈرامے دکھا کر سماجی اقدار سے بغاوت کرنے والی لڑکیوں کو تو تائید کی جا رہی ہے اور ان کے لئے لوگوں کے دل و دماغ میں ہمدردی کا جذبہ پیدا کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس سوچی سمجھی سازش کے تحت باحجاب خواتین اور”درس قرآن” سے منسلک خوا تین کو منافق لالچی اور چالباز دکھا کر ان کی کردار کشی کی جارہی ہے ۔
اسی طرح ٹیلی ویژن کے اشتہارات کا گرتا معیار مہذب شہریوں کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے ۔ تمام شرم و لحا ظ کو بالائے طاق رکھ کر ایسے اشتہارات نشر کیے جا رہے ہیں جس میں لیڈیز نیپکن کے استعمال کے طریقے اور فائدے سکھائے جارہے ہیں ۔
طرح طرح کے صابن اور خوشبو یات کے اشتہارات میں مردوں کو خوشبو کے ذریعے مسحور اور دیوانہ بنانے کا انمول نسخہ دیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے نبی حضرت محمد ؐ نے عورتوں کو تیز خوشبو یات لگانے کی ممانعت فرمائی ہے ۔
ٹا ک شوز کی صورت میں ایک بہت بڑا فتنہ موجود ہے ۔ جس میں حصہ لینے والے بڑے بڑے سیاستدان اپنے مخالفین کے ساتھ نہایت بدتمیزی سے چلا چلا کر گفتگو کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے عیب اور غلطیاں کریدتے ہیں اور تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں اور کردارکشی کرتے دکھا ئی دیتے ہیں ۔ ہمارے نبیؐ نے آواز کو پست اور لہجے کو دھیما رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ پروگرام کے میزبان بھی بڑی ہوشیاری سے معاملات سلجھانے کے بجائے نمک مرچ چھڑک کر مخالفین کو مزید سیخ پا کر دیتے ہیں اور یہی کرنا ان کا پیشہ ہے اسی طرح تو ان کے پروگرام کی مقبولیت بڑھے گی اور Channel کی ریٹنگ میں اضا فہ ہو گا۔
حالانکہ اگر چینل مالکان چاہیں تو تعمیری اور اصلاحی پروگرام بھی نشر کر سکتے ہیں ۔ جن میں طلباء اور خصوصاً ایسے افراد جو وسائل نہ ہونے کے سبب اپنی صلا حیتوں کو اب تک بروئے کار نہ لاپائے ہوں انہیں بلایا جائے اور کار آمد شہری بنایا جا ئے کیونکہ معاشرہ افراد ہی سے بنتا ہے۔ ایک ایک فرد اپنی ذمہ داری کو نبھائے تو یقیناًمعاشرے میں مثبت تبدیلی نظر آئے
میڈیا کا کینوس بہت بڑا ہوتا ہے اور اس کے ا ثرات بھی دیر پا ہوتے ہیں ۔
ہم ایک مسلمان قوم ہیں اور الحمد للہ ہماری رہنمائی کیلئے دنیا کی سب سے عظیم ہستی حضرت محمد ؐ کی سیرت اور لازوال کلام الٰہی قر آن پاک کی صورت میں موجود ہے۔
ہمیں کسی بھی بناوٹی اور مصنوعی گلیمر کی دنیا کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں ایک پاکیزہ معاشرے کی ضرورت ہے جس میں ہم اپنی تمام زندگی احکام شریعہ کے مطابق بسر کر سکیں ۔

 

 


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا