بات تو ٹھہر کر سوچے جانے کی ہے کہ ایک تیسرے درجے کی گلوکارہ کو‘ جو دو بچوں کی ماں اور درمیانی عمر کی خاتون ہیں‘ اتنی شہرت مل گئی کہ سوشل میڈیا‘ الیکٹرانک میڈیا‘ پرنٹ میڈیا انہی کی خبروں کے گرد گھومتے رہے۔ تبصرہ نگار اس خبر پر تبصروں میں مصروف اور لکھنے والوں کے لیے یہ اہم ترین موضوع۔
بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ تواتر کے ساتھ معاشرے کو ایک خاص نفسیاتی سانچے میں ڈھالا جارہا ہے۔ چاہے وہ گلالئی کا واقعہ ہو کہ جس کی کوئی سچائی سامنے نہ آسکی۔ ایک عرصے خبروں پر گلالئی چھائی رہیں لیکن پتا نہ چل سکا کہ معاملے کی حقیقت کیا تھی؟ پھر زینب کا لرزہ خیز قتل۔ کئی ہفتوں میڈیا پر ہاٹ ایشو رہا نہ ملزم کو سرعام پھانسی ہوئی نہ مزید کیس کی پیش رفت سامنے آئی اور پس منظر میں چلا گیا وہ واقعہ ہاں اس واقعہ کا ایک نتیجہ یہ ضرور مرتب ہوا کہ معاشرے کے آزاد فکر طبقے کی جانب سے یہ مطالبہ پوری قوت سے سامنے آیا کہ نصاب میں جنسی تعلیم کو شامل کیا جائے۔ درمیان میں ’’ہیش ٹیگ می ٹو‘‘ کا غلغلہ اٹھا جو ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں تو خاصا خبروں کا موضوع رہا لیکن پاکستانی معاشرے میںیہ جگہ نہ پاسکا اگرچہ کچھ دوسرے درجے کی اداکاراؤں نے خود کو اس مہم میں پیش پیش رکھا‘ کچھ اخبارات نے بھی اس کو شہ سرخیوں میں جگہ مگر لاکھ گیا گزرا سہی معاشرہ پاکستانی سوسائٹی کی اخلاقی اقدار میں ابھی اتنا دم خم باقی ہے کہ اس مہم کو پاکستان میں پذیرائی نہ مل سکی۔
اب میشا شفیع منظر عام پر آئی ہیں جن کے بارے میں اتنا جاننا کافی ہے کہ ان کی والدہ صبا حمید صرف اداکارہ نہیں ہیں بلکہ پاکستانی معاشرے میں عورتوں کی آزادی کے حق میں جو آوازیں اٹھائی جاتی ہیں وہ بھی اسی لبرل طبقے کی پروردہ ہیں۔
چاہے بات مختاراں مائی سے شروع کریں یہ ملالہ یوسف زئی سے‘ عائشہ گلالئی کی حرکت کو زیر بحث لائیں یا میشیا شفیع کی سستی شہرت کے لیے کیے گئے اس اقدام کو‘ مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستانی عورت اپنے سماج میں شدید گھٹن کا شکار ہے۔ وہ مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے سے معذور ہے اس لیے کہ معاشرہ اس کو تحفظ دینے میں ناکام ہے۔ پھر دو قدم آگے بڑھ کر شرِمین عبید جیسی خواتین سامنے آجاتی ہیں جو بتاتی ہیں کہ گلی محلوں میں عورتیں تیزاب سے جھلسائی جارہی ہیں‘ پاکستانی عورت کا جھلسا ہو اچہرہ دنیا کو دکھانے پر انہیں آسکر ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔
اب میشا شفیع دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ پاکستانی عورت میدان جنگ میں کس مشکل سے دوچار ہے‘ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میں بے چاری پاکستانی عورت اس مظلومیت اور غلامی سے چھٹکارا اور آزاد فًضا میں سانس لینا چاہتی ہے۔ میشا شفیع دراصل ’’می ٹو‘‘ کا ہی بلند آہنگ ہیں۔
بات یہ ہے کہ اس وقت ہم ’’گلوبلائزیشن‘‘ کی تحریک کا حصہ ہیں۔ گلوبلائزیشن میں ذرائع ابلاغ کو اس طرح استعمال کیا جارہا ہے کہ ساری دنیا کا ذوق اور ذائقہ ایک جیسا بنا دیا جائے۔ اگر یورپ اور امریکا میں ’’ہیش ٹیگ می ٹو‘‘ کامیاب ہوئی تو اسے انڈیا اور پاکستان میں بھی کامیاب ہونا چاہیے۔ اگر مغربی دنیا ہم جنس پرستی کے قانون کو منظور کررہی ہے اور زنا بالرضا کو قانوناً جرم نہیں سمجھا جاتا تو ساری دنیا کے معیارات اب ایک جیسے ہونا چاہئیں اس لیے کہ اب فاصلے مٹانے کا وقت ہے‘ دنیا ایک چھوٹے سے گاؤں میں بدلتی جارہی ہے۔ وہ پاپ کلچر ہو‘ جین کلچر ہو یا کوک اور زنگر برگر کلچر‘ ساری دنیا ایک ہی رنگ میں رنگنے جا رہی ہے۔ ساری دنیا بالخصوص تیسری دنیا کی ترجیحات اور انتخاب کو بدلنا اب مغربی میڈیا کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ ہم محسوس ہی نہیں کر رہے کہ کس قدر تیزی سے اور مسلسل ہمارے ذوق کو تبدیل کیا جارہا ہے۔چاہے چیزوں کی ’’برانڈ‘‘ کے بارے میں ہمارا حساس ہونا ہو یا تیزی سے بڑھتا ہوا اسٹریٹ فوڈ کلچر‘ خواتین میں جینز کا مقبول ہونا ہو یا نوجوانوں میں پاپ اسٹارز کی مقبولیت۔ یہ سب ایک ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
سیانوں کی پیش گوئیاں درست ثابت ہو رہی ہیں کہ اب دنیا کمرشل ازم سے نکل کر کنزیومرازم کے کلچر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اب ہماری حیثیت دنیا میں صرف ایک صارف کی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا عوام کے ٹیکسوں سے چلتا ہے‘ اس کو اشتہارات کے حصول کے لیے سنسنی خیز خبریں درکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں پر جو افتاد ٹوٹ رہی ہیں وہ سوشل میڈیا پر تو کہرام مچاتی ہیں مگر ٹی وی چینلز کے لیے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ ان ذرائع ابلاغ کا کنٹرول کسی اور کے پاس ہے اور ان کو کسی عقیدے‘ نظریے سے کوئی غرض نہیں ان کو اپنی منڈی کے لیے صارف درکار ہیں چینلز کو ریٹنگ بنانے اور بڑھانے کے لیے شعیب اور ثانیہ کے ہاں مہمان کی آمد کی خبر تو بریکنگ نیوز کے طور پر دینے کی عجلت ہوتی ہے یا سری دیوی کی آخری رسومات کو تو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی جدائی سے دنیا رنج و الم میں مبتلا ہے لیکن شام‘ افغانستان‘ فلسطین‘ مقبوضہ کشمیر اور دیگر مسلم ممالک میں جس طرح خون مسلم بہہ رہا ہے وہ کسی چینل کی بریکنگ نیوز میں جگہ اس طرح نہیں پاتا جس طرح انڈین فلم اسٹار سلمان خان کی گرفتاری کی خبریں۔
کارپوریٹ کریسی اپنی مارکیٹنگ کے لیے عورت کو زیادہ استعمال کر رہی ہے چاہے اشتہارات میں اس کا بے حجابانہ استعمال ہو یا ٹی وی اسکرین پر اس کا بے وقار حلیہ۔
جو بریکنگ نیوز عورت سے متعلق ہو اس سے چینلز کی ریٹنگ بڑھتی ہے۔ پورا ہفتہ عشرہ میڈیا پر میشا شفیع اور علی ظفر کی خبریں ٹاپ پر رہیں۔ معاشرے کا ٹیسٹ تبدیل کیا جارہا ہے۔ جنسی ہراسگی کی خبروں کو ضرورت سے زیادہ نمایاں کرنا کہ یہ موضوعات عوامی دلچسپی کے موضوعات بن جائیں انہی موضوعات پر ڈرامے بنانا جس میں انتہائی شرمناک اسٹوری کو اس سماج کا حصہ دکھایا جائے اور یہ باور کرایا جائے کہ اب معاشرے کا چلن یہ ہے۔
میشا کی جو تصاویر اخبارات اور چینلز کی زینت بنیں وہ انتہائی معیوب ہیں۔ جب عورت اور مرد اپنے بیچ سے حیا کے تعلق کو ہی ختم کردیں اور دوستی کے نام پر سب کچھ جائز ہو مگر جہاں ’’دوست‘‘ سے ان بن ہوئی تو اس پر ہراسمنٹ کا الزام لگا کر قانونی چارہ جوئی کرکے اس کی عزت کو بھی نقصان پہنچایا اور اپنا مالی مفاد بھی حاصل کرلیا۔ یہ امریکا اور یورپ کا کلچر ہے۔ جب صنفِ مخالف سے دل بھر جاتا ہے یا کوئی نیا دوست مل جاتا ہے تو لڑکی اس لڑکے پر ہراسمنٹ کا الزام لگانے عدالت پہنچ جاتی ہے جس کے ساتھ ایک فلیٹ میں دوست کی حیثیت سے کئی سال سے رہ رہی تھی۔ اس کے تشدد یا نامناسب رویے پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر جرمانہ عائد کراکے اپنے ’’تعلق‘‘ کی قیمت وصول کرلیتی ہے۔ یہ ان معاشروں کا منافع بخش ’’کاروبار‘‘ ہے۔ آپ مذکورہ کیس میں فریقین کی تصاویر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ تو قریبی تعلق رکھتے تھے پھر ان پر ہراسگی کا الزام لگا دیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سستی شہرت کا طریقہ ہے۔ اس کیس کے بعد دونوں کے سوشل میڈیا پر فالوورز کی تعداد میں ہزاروں کا اضافہ ہو گیا کچھ کا کہنا ہے کہ نئی آنے والی فلم کی پبلسٹی کے لیے کیا گیا ہے جس میں صاحب بہادر ہیرون کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
غرض اس کہانی کی وجہ جو بھی مگر یہ سب ہماری نہ مذہبی اقدار سے میل کھاتا ہے نہ سماجی اقدار سے۔ ہمیں سماجی اقدار کو بدلنے کی ان سازشوں میں محض تماشائی کا کردار ادا نہیں کرنا۔ ان سازشوں کو سمجھیں اور اس آگہی کو عام کریں کہ اپنے ایمان کو بچانا اور معاشرے میں شر کی قوتوں کو غلبے سے بچانا ہی اس وقت کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
افشاں نوید
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا