December 1st, 2025 (1447جمادى الثانية10)

تحریک کا نقطہ آغاز!



تحریک کا نقطہ آغاز!

بواسطة Admin / 0 Comment

"باجی آپ مجھے ملی نہیں اجتماع عام میں۔ نیٹ کا بھی مسئلہ تھا"۔ میں نے کہا: "یوں ہی رہا کسی کو ہم نہ ملے کوئی ہمیں نہ ملا ،آپ بتائیے خیریت سے واپس پہنچ گئیں؟" 
بولی:"میرا جی چاہتا تھا آپ کو ملواؤں، میرے ساتھ چالیس عورتیں گئی تھیں قرب و جوار کی"۔ (اس کا تعلق اندرون سندھ کے ایک دور افتادہ گاؤں سے ہے) میں نے پوچھا "وہ سب سفر کے اخراجات وغیرہ اٹھانے کے متحمل تھیں؟"بولی" ہم نے اپنی کوچ بک کرائی، دس ہزار فی کس کرایہ بنتا تھا لیکن یہاں غربت بہت ہے تو کچھ لوگوں نے جزوی ادائیگی کی۔ کچھ ہم نے فنڈنگ کی اپنے مخیر جاننے والوں سے۔۔کچھ قرض لیے جو ہم بی سی ڈال کر اتار دیں گے ان شاءاللہ ۔ اجتماع میں جانا ضروری تھا ورنہ کیسے کچھ بدلے گا۔یہاں تو سڑکیں ہیں نا ہسپتال،مدرسے ہیں مگر اسکول نہیں۔۔سڑک ہی نہیں  چنگچی کے لیے بھی اتنی دور جانا پڑتا ہے کوئی سننے والا نہیں"۔
مجھے دور افتادہ رہائشی سندھ کی اس بیٹی پر بہت رشک آیا۔بولی" میرا سات برس کا بچہ بیمار تھا باجی۔میاں بولے بیمار بچے کو میں کیسے رکھوں گا؟ چار بچوں کو تو مجھے ساتھ لے کے جانا ہی تھا جس میں ایک سال کی گود کی بیٹی بھی شامل تھی۔ میں نے کہا اللہ مالک ہے۔ خدا کی شان دیکھیں جس دن ہمیں گاڑی پر سوار ہونا تھا لاہور جانے کے لیے صبح میرے بیٹے کا بخار اتر گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ نارمل ہو گیا۔
 میں پریشان تھی ایک سال کی بچی کے لیے۔سنا تھا لاہور میں سردی بھی ہے،پھر ٹینٹ میں رہائش۔۔لیکن میری بچی کو ساتھ جانے والوں نے ایسے سنبھالا کہ مجھے پتہ ہی نہ چلا تین دن میری بچی کس کے پاس ہے؟"
  میں نے پوچھا "کھانے پینے کی پریشانی تو نہیں ہوئی؟" بولی:"باجی کبھی کھانا نہیں بھی ملتا تھا، ہم اپنے ساتھ چنے اور بسکٹ وغیرہ لے کر گئے تھے۔ میں نے سب کو بس میں یہ ہدایت کر دی تھی کہ ہم  کھانے پینے آرام کرنے نہیں جا رہے ایک بہت بڑے مقصد کے لیے جا رہے ہیں۔ آپ یقین کیجیے باجی چالیس خواتین میں کسی نے مجھ سے شکایت نہیں کی کہ ان کو کھانا نہیں ملا یا بے آرام  ہوئیں۔کچھ لوگ کھو بھی جاتے تھے تو چند گھنٹوں بعد مل جاتے تھے کھو تو حج پہ بھی جاتے ہیں۔ اتنے بڑے مجمعے میں یہ معمول کی بات ہے۔
 باجی لوگ تو بازار اور ادھر ادھر بھی نکل جاتے تھے اپنے عزیزوں سے ملنے جلنے۔ میں تو تینوں دن کیمپ یا پنڈال  ہی میں رہی کہ پتہ نہیں اب کبھی اجتماع نصیب ہوگا۔ مجھے اتنا اچھا لگتا تھا اجتماع گاہ میں۔۔۔
  میں نے کہا" تم کتنا تھک گئی ہو گی"؟ بولی" نہیں باجی! ادھر تو تھکن اتر گئی۔عزم لے کر آئی ہوں کہ اب ہم چالیس عورتوں نے آگے کتنے لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا ہے۔ 
جب بارش ہوتی یا سردی آتی ہے۔ بدلتے موسم کتنی پریشانی لاتے ہیں ہمارے لیے جہاں علاج معالجے کی بھی سہولت نا ہو۔ میں نے ایک ایک گلی میں جا کر بتایا تھا کہ اب ہمیں اٹھنا ہے۔۔جب نظام بدلے گا تو سب پریشانیاں دور ہو جائیں گی"۔ 
میں سوچ رہی تھی یہ دیگ کا ایک چاول ہے۔یہ لاکھوں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ایک رسمی سرگرمی نہیں تھی کہ "اجتماع عام ہو گیا"۔ یہ ان شاءاللہ نظام بدلنے کی تحریک کا نقطہ اغاز ہے۔۔ جس قوم کی عورت اتنی پرعزم ہو وہاں سب کچھ بدلا جا سکتا ہے۔۔۔
افشاں نوید۔ 


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا