اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ احکام حجاب صرف چہرے یا جسم کو ڈھانپنے کے لیے نہیں بلکہ مکمل تہذیب کا تصور دیتے ہیں جس کی جڑیں معاشرت اور سماجی رویوں ،رہن سہن میں گہری ہوتی ہیں۔
یہ غلط فہمی ہی تو ہے کہ ہم نے حجاب کا مطلب ایک رومال یا کپڑے کا ٹکڑا لے لیا ہے۔ جس سے ایک مسلم عورت اپنے سر کو ڈھانپ لیتی ہے۔ حالانکہ یہ تو ایک علامت ہے، لیکن اس کے مفہوم کی گہرائی کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ حجاب اصل میں شرم و حیا کا ایک جزو ہے اور ہم اسی کو ہی اصل مان لیا ہے۔
آج مسلم معاشرے میں حجاب کا طریقہ کار دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کیونکہ لڑکیاں سروں کو تو اچھی طرح ڈھانپ لیتی ہیں لیکن جب لباس پر نظر ٹھہرتی ہے تو تنگ پینٹس یا ٹاںٔٹس کے ساتھ چھوٹی شرٹ حجاب کا مذاق اڑا رہی ہوتی ہے۔ سینوں کو ڈھانپنا بھی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جب شرم و حیا کے پہلو کو ہی نظر انداز کر دیا جائے گا تو پھر حجاب کی یہی شکل دکھائی دے گی۔ ہمارے بزرگ بے شک دینی و دنیاوی تعلیم سے اس حد تک بہرہ مند نہ تھے کہ جتنا دین کا شعور آج مسلمان کو ہے۔ لیکن وہ پھر بھی شرم و حیا کے اصولوں کی پوری طرح پاسداری کرتے تھے۔ لیکن آج کی نوجوان نسل کے نزدیک وہ تمام رویے فرسودہ ٹھہرے۔ حالانکہ مسلمان کے اندر اللّٰہ تعالی نے فطرتاً حیا کا مادہ رکھا ہے اور وہ کوئی بھی غلط کام کرنے سے پہلے سوچتا ضرور ہے۔ لیکن اللّٰہ سے تعلق کی کمزوری کی وجہ سے شیطان کے نرغے میں فوراً آ جاتا ہے۔ اور پھر ایسے ایسے شیطانی عمل بھی کر گزرتا ہے کہ زمین بھی کانپ اٹھتی ہے۔ اصل میں جنہیں اللہ سے حیا نہیں آتی وہ بندوں سے کیا حیا کرے گا۔
دوپٹے کا سروں سے اترنا تو دور کی بات تھی، ماں باپ اور بڑے بھائیوں کے سامنے آنکھ اٹھا کر بات کرنا بھی محال ہوتا تھا۔ اگر کسی لڑکی کا سر سے دوپٹہ اتر بھی جاتا تھا تو والدہ فوراً نوٹس لیتی تھیں اور پھر والدین نے ذمہ داریوں سے غفلت اختیار کرنا شروع کی جس کی وجہ سے آج کی ماؤں کی اکثریت خود ہی دوپٹوں سے بے نیاز دکھائی دیتی ہے۔ دوپٹہ تو ایک کی زینت تھا لیکن زمانے کے نشیب و فراز میں دوپٹہ سر سے آہستہ آہستہ سرکتے ہوئے پہلے گلے کے گرد رسی کی مانند اور پھر آدھا کندھوں پر اور آدھا زمین پر بل کھاتا دکھائی دیا اور پھر ایک وقت آیا کہ زمین پر گھسٹتے گھسٹتے کہیں نظروں سے ہی اوجھل ہو گیا اور پھر عورتوں نے بھی اس کی پرواہ کرنا چھوڑ دی۔ اور رہ گئی شلوار قمیض تو اس کو بھی جتنا مختصر کیا جا سکتا تھا کر لیا گیا۔ قمیض کے بازو پہلے آدھے ہوئے اور پھر بالکل غائب ہو گئے۔ ٹراؤزر کی لمبائی بھی چھوٹی سے چھوٹی ہوتی گئی۔ چلو درزی کی بھی سہولت ہو گئی، سلائی بھی پوری اور باقی ماندہ کپڑا بھی اس کی ملکیت ٹھہرا۔
شرم و حیا تو مسلم معاشرے میں وقار کی علامت ہوتی ہے۔ جسے دھیرے دھیرے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ ہم ہر بات پر مغرب کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں لیکن مغرب نے تو مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب نہیں دی تھی کہ وہ اپنا لباس مختصر کر دیں یا اس سے بے نیاز ہی ہو جائیں۔ لباس پر حملہ تو شیطان کرتا ہے جس کا پہلا وار ہی انسان کے لباس پر ہوتا ہے اور اس کے بعد حجاب کے اصول بے وقعت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں اس وقار کے دھجیاں بکھیرنے میں سب سے بڑا رول ہمارے تعلیم اداروں نے ادا کیا ہے کہ جن اداروں میں والدین نے اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ راستہ کرنے بھیجا، انہی اداروں نے ہمارے بچوں کے ذہنوں کو لبرلزم اور جدت پسندی کی نظریات سے پراگندہ کیا۔ ہمارے بچے دین سے تو دور تھے ہی خاندانی روایات سے بھی بیزار دکھائی دینے لگے۔ اسکول، کالج اور خاص طور پر یونیورسٹیاں تعلیمی ادارے کم اور فیشن انڈسٹری زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔
نفسیاتی پہلو کو نظر میں رکھیں تو ہمارے معاشرے میں خاندانی سسٹم میں بھی بہت سی خرابیاں ہیں۔ کئی گھرانے جو اپنے آپ کو دین دار گھرانے کہلاتے ہیں وہاں بچیوں پر بے جا پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ اور دوسری طرف لڑکوں کو والد یا دادا کے رعب و دبدبے کے زیرِ اثر اتنا ڈرا کر رکھا جاتا ہے کہ جب بچوں کو موقع ملتا ہے وہ کسی بھی قسم کی آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے راستے گم کر بیٹھے ہیں۔ اس دور میں تو ٹک ٹاک اور بے مقصد ڈراموں اور سوشل میڈیا پر عجیب و غریب قسم کی ریلز نے بچوں کو بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اصل میں والدین زیادہ قصوروار ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتی۔ آج یونیورسٹیوں میں جشنِ ازادی کے نام پر جو بیہودگیاں ہوئیں یا پھر شیطان کے پیروکاروں کی جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں کیا والدین اس سے بے خبر ہیں؟ اور آفرین ہے ان اساتذہ پر کہ جو اتنے مردہ ضمیر ہو چکے ہیں کہ مستقبل کے معماروں کو تیار کرنے کی ذمہ داری تو ان کو سونپی گئی تھی انہیں تھوڑا سا بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ ملک کی نوجوان نسل کو بے مقصد زندگی کا عادی بنانے میں کیا کردار ادا کرتے رہے ہیں؟ جس طرح کی تعلیم کا سلسلہ پاکستان میں جاری و ساری رہا ہے وہ دین کی آمیزش کے بغیر کاروبار تو ہو سکتی تھی، لیکن وہ اعلی مقاصد کہ جن کے حصول کی خاطر ایک آزار ملک ناگزیر ٹھہرا، حاصل نہ ہوئے اسی لیے عریانی و فحاشی کا سیلاب روز بروز بڑھتا ہی گیا اور معاشرہ امن و سکون سے عاری ہوتا چلا گیا۔
جو قومیں ایسی نادانی کا سودا کریں ان کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ:
“حقیقت یہ ہے کہ انکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں” (سورۃ الحج آیت 46)
بشکریہ جسارت
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا