عہد رسالت سے مراد وہ زمانہ یا دور ہے جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ یہ وہ وقت ہے جب آپﷺ نے نبوت اور رسالت کے فرائض سرانجام دیے۔ عہد رسالت سے مراد وہ زمانہ ہے جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی طرف سے پیغامبر بنا کر بھیجا گیا اور آپ نے وہ پیغام لوگوں تک پہنچایا، عہد رسالت مسلمانوں کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اسی دور میں قرآن نازل ہوا اور اسلام کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ وہ دور ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاسلام کی تعلیمات کو عملی طور پر پیش کیا۔
عہدِ رسالت ﷺ کا زمانہ محض تاریخ کا ایک باب نہیں، یہ زندگی کے ہر گوشے کوروشن کرنے والا چراغ ہے۔ یہ وہ دور ہے جس نے انسانیت کو ظلمت سے نکال کر نور کی شاہراہ پر گامزن کیا۔ اس میں وقت کا ہر لمحہ تعلیم، تربیت اور تزکیہ نفس کا گواہ تھا۔ یہ دور کردار کی تعمیر کا ایسا مدرسہ تھا جہاں انسانیت نے اپنی اصل پہچان پائی اور عورت کو عزت، عطا کی۔ یہ دور زندگی کے ہر گوشے کو نور الٰہی سے منور کرنے کا دور رہا جس کا فیضان دلوں کو ایمان کی حرارت اور کردار سے روشناس کر گیا۔ یہی وہ دور ہے جب انسانیت نے بندگی کا اصل مفہوم پایا اور عورت، جو جاہلیت کے اندھیروں میں دبی ہوئی تھی، عزت و وقار کے بلند مقام تک پہنچی۔ وحیِ الٰہی کی روشنی نے عورت کے شعور کو بیدار کیا، اس کی شخصیت کو جلا بخشی اور اسے گھر کے دائرے سے بڑھا کر معاشرت، خدمت اور علم کے میدانوں میں ایک فعال کردار عطا کیا۔
عہد رسالت میں عورت کی تربیت کا اسلوب نہ سختی میں لپٹا تھا نہ جبر میں، بلکہ محبت، حکمت اور عمل کے نور سے لبریز تھا۔ آپ ﷺ کی تربیت کا آغاز دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرنے سے ہوتا اور کردار کو عمل کے زیور سے آراستہ کرنا تھا۔آپ ﷺ نے حکمت کو نصیحت کا جوہر اور محبت کو اصلاح کا وسیلہ بنایا۔ ہر قدم بتدریج، ہر نصیحت موقع و محل، حالات کے مطابق رہنمائی دی ۔ آپ ﷺ کے اسلوب میں شدت نہیں شفقت تھی، جبر نہیں، جذبہ تھااور آپ کی مستقل مزاجی نے صحابہؓ کے دلوں کو یقین میں ڈھالا اور کردار کو فولاد بنایا۔آپ ﷺ کی تربیت محض الفاظ تک محدود نہ تھی بلکہ آپ خود عملی نمونہ بن کر سامنے آئے۔آپ نے بحیثیت ما ں، بہن، بیوی اور بیٹی کے عورت کے کردار کو حیا، صداقت اور ایثار سے مزین کیا اور عورت کے دل کو ایمان کی حرارت، ذہکو علم کی وسعت سے سنوارا۔آپ ﷺ کا اسلوب تربیت محبت و عزت کے لمس، حکمت سے پر تھا۔یہ تربیت جبر سے نہیں، جذبے سے سنوارنے کا نام تھی اور نرمی،حکمت و شفقت کا امتزاج تھا۔ہر نصیحت کے پیچھے آپ ﷺ کی شخصیت کی روشنی تھی، جو الفاظ سے زیادہ اثر کرتی تھی۔ خواہ وہ حضرت اسما کو موٹی وبڑی اوڑھنی اوڑھنے کا حکم دینا ہو یا حضرت عائشہ کو نابینا صحابی حضرت ابن مکتوم کے سامنے آنے سے روکنا ہو. ہر رہنمائی میں پاکیزگی، حیا اور بلند کردار کا درس چھپا ہوتا تھا۔ تربیتی انداز بتدریج تھا، آسان احکام سے آغاز ہوا اور مشکل ذمہ داریوں کی طرف نرمی سے رہنمائی کی۔آپ ﷺ کی ذات وہ آئینہ ہے جس میں اخلاق، حکمت اور استقامت کا کامل عکس دکھائی دیتا ہے۔آپ ﷺ نے صرف الفاظ سے نہیں، اپنے عمل سے تربیت دی اور ہر پہلو میں نمونہ بنے۔
عہد رسالت کے دور میں عورت کو کردار کا زیور پہنایا گیا۔ حیا کو وقار کا حصار بنایا گیا، عفت کو زینت اور صبر کو طاقت کا سمبل دیا۔ امہات المومنینؓ کا طرزِ عمل عملی نصاب تھا ان کے گھر ۔عورت کو علم کا پیاسا بنایا گیا۔ اسے سوال کرنے کا حق ملا، غور و فکر کا موقع ملا۔ حضرت عائشہؓ کی بصیرت، فقہ اور حدیث کا علم اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کو فکری دنیا میں بھی قیادت کے درجے تک پہنچایا گیا۔
عہد رسالت میں اگر عورتوں کے حقوق کی بات کی جائے تو صرف نظام اسلام ہی نے عورت کے شرف و وقار کو بحال کیا ہے، یہودیت اور عیسائیت کے نزدیک عورت گناہ کی جڑ تھی اسی لیے وہ کسی عزت و احترام کی مستحق نہیں بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ مرد کی دلربائی کا فریضہ انجام دے ۔
ہندو مت میں عورت کو پست ذلیل و حقیر سمجھا جاتا رہا او ر شوہر کی چتا کے ساتھ عورت کو بھی جلا دینے کا رواج رہا، ، ہندو معاشرت اور قانون میں عورت کے لیے معاشی و تمدنی میدان میں کوئی حصہ نہیں، معیشیت میں کوئی حصہ نہیں، عمل و فکر کی قطعا آزادی نہیں، اس کے بر عکس جدید مغربی عورت کو آزادی دی گئی، مگر یہ مادر پدر آزادی نے عورت کو محض دل بستگی کا ذریعہ بنا دیا۔
قبل اسلام بیٹیوں کو زندہ جلا دیا جاتا رہا ، لکھنے پڑھنے سے محروم رکھا جاتا رہا، قحبہ خانوں کی زینت بنائی جاتی رہی۔صرف اسلام ہی نے عورت کو انسانی اور سماجی حقوق عطا کیے، اسے وراثت کا حقدار ٹھہرایا، عملا حق مہر دلوایا۔ نازک آبگینے کہہ کر نرمی و در گذر کی تاکید کی، انتخاب رفیق کا حق دیا اور ماں بہن بیوی اور بیٹی کے روپ میں مجموعی طور پر وہ وہ شرف و وقار اور تحفظ عطا کیا جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اصل المیہ یہ کہ اسلام نے عورت کو قرآن و سنت کے جن اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی تھی، دور حاضر کی عورت نے ان کی نفی کر کے بے حجاب ہو کر اپنے آپ کو پھر سے دور جاہلییت کی طرح مظلوم و محروم اور مرد کے لیے کھلونا بنا دیا۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو معظم بنایا لیکن انسانوں نے اس پر ظلم وستم کی انتہا کردی تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتاہے کہ ہر عہد میں عورت کیسے کیسے مصائب ومکروہات جھیلتی رہی اور کتنی بے دردی سے کیسی کیسی پستیوں میں پھینک دی گئی لیکن جب اسلام کا ابرِ رحمت برسا توعورت کی حیثیت یکدم بدل گئی۔مُحسن انسانیت سید محمد رسول اللہ ﷺ نے انسانی سماج پر احسان ِعظیم فرمایا عورتوں کو ظلم، بے حیائی، رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا انہیں تحفظ بخشا ان کے حقوق اجاگر کیے۔اورانہیں شمع خانہ بناکر عزت واحترام کی سب سیاونچی مسند پر فائز کردیا۔ مذہب اسلام نے اس فطرت انسانی کا خاص خیال رکھا ہے۔
عورت کا حقیقی دائرہ کار اس کا گھرہے جہاں وہ بچوں کی نگہداشت،نشوونما اور تعلیم و تربیت کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔عورت کو فکرِ معاش سے آزاد کیا گیاہے۔۔۔اسلام اولین مذہب ہے جس نے حجاب کے ذریعے مسلم عورت کی عزت و وقار کو سر بلند کیا ہے ۔ عہدِ رسالت کا اسلوب یہ تھا کہ عورت کو صرف نظری نہیں، عملی میدانوں میں بھی آزمایا جائے۔ غزوات میں زخمیوں کی مرہم پٹی، مجاہدین کو پانی پلانا، غرباء کی خدمت اور تعلیم و تربیت میں حصہ لینا اس کی شخصیت کا حصہ بنایا گیا۔
مذہب اسلام نے عورت اور مرد کو بحیثیت انسان بنیادی انسانی حقوق میں مساوات اور یک رنگی عطا فرمائی، مرد و خواتین دونوں ہی کے لیے ایک ہی نظام عقائد ہے، دونوں ہی کے جنت میں مقیم رہنے، نونوں کے اکھٹے لغزش کھانے اور دونوں کے زمین پر بھیجے جانے اور دونوں ہی کی جانب سے توبہ قبول کیے جانے کے احوال یکساں ہیں، اخلاقی لحاظ سے دونوں میں مساوات ہے، یعنی فضائل اخلاق اور رذائل اخلاق کی راہیں ایک جیسی ہیں، نیکی اور بدی کا بدلہ یکساں ہے، اور دونوں میں سے جو جتنا تقوی میں بڑھ جائے مرتبہپاسکتا ہے۔ حلال و حرام کی قیو بھی دونوں کے لیے یکساں مقرر ہیں۔ نیز دونوں کے ساتھ عدل و انصاف کے قوانین بھی یکساں ہیں لیکن اللہ کی اس کائناتی تقسیم میں مرد اپنی جگہ ذمہ دار ہیں اور عورت اپنی جگہ ذمہ دار ۔ اسلامی کی خوبی ہی دین فطرت کی بنا پر ہے اور فطری اعتبار سے مرد اور عورت کو جسم و صلاحیت کے مطابق دائرہ کار مقرر کر دیے گئے ۔ مرد کو کسب معاش کا ذمہ دار بنا کر بیرون خانہ کے تمام کام تجارت، زراعت،صنعت و حرفت، معیشیت، فوجی دفاع سونپ دیا گیا تمام سخت بھاری اور مشقت کے کام مرد کے ذمہ ڈالے گئے، عورت کو شمع حرم بنا کر آئیندہ نسل کی تخلیق، پرورش،کفالت تربیت و جملہ خانہ داری کے فرائض سونپے گئے۔عورت کی اصل بنیادی ذمہ داری گھر کی فضاکو سنوارنا ہے، گھر بنانا ہے گھر توڑنا یا بگاڑنا نہیں ہیے، اسلام مین مرد و زن کوئی حریف یا مخالف جنس نہیں،نہ ان میں کوئی معرکہ کار زار گرم ہے، نہ ہی مردوں کی بے جا حمایت ہے اور نہ ہی عورتوں کا استحصا ل ہے بلکہ رب کائنات کے نزدیک تمام عورتیں اور مرد من حیث الانسان برابر ہیں اور مقصد اسلامی و آئیڈیل معاشرے کی تخلیق ہے عورت اصلا گھر کی مالکہ ہے ، ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہے، شوہر کا خیال رکھنا اس کو کسب معاش کے لیے گھر سے سکون و راحت فراہم کرنا بچوں کو اچھے باشعور بنا کر قوم کے مستقبل کو سنوارنا ہی ماں کا اصل ہدف ہے، بڑے بڑے بزرگ ولی اللہ، نبی ولی شھید سب ما ں ہی کی تربیت کا نمونہ بن کر ابھرے، اسلام ماں کے قدموں تلے جنت کہہ کر عورت کو خیر کی بنیاد قرار دیتا ہے،، نکاح کے ذریعے عورت کو محصنات قرار دے کر باعزت مقام عطا کرتا ہے جبکہ مغربی معاشرے سے مستعار لیے گئے مساوات مرد و زن کے پر کشش نعروں اور سرمایہ داروں کی چال نے آج کی عورت کو امن و سلامتی کے حصار سے نکال کر اپنے ہی ملک اپنے ہی شہر اور اپنے ہی محلے میں غیر محفوظ ہے۔
اسلامی انقلاب دین کے صحیح ایمان و شور سے پیدا ہوتا ہے اسلام کے معاشرتی قوانین کا فیض ہے کہ زوجین میں بے حد محبت ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے پر جان دیتے ہیں۔بطور بیوی کے حضرت خدیجہ کا کردار سب خواتین کے لیے مشعل راہ ہے، جنہوں نے نہ صرف قبول اسلام میں سبقت کی بلکہ بار نبوت کو اٹھاتے وقت اانحضور ﷺ کے کانپتے دل کو تسلی دی،ان کی ڈھارس بندھائی،پھر اپنا مال، اپنا دل و دماغ، اپنے غور و فکر کی پوری قوت،،اپنی ہمدردیاں، جانثاریاں سب حضور پاک ﷺ کی محبت میں آپ کی ذات مبارک پر نچھا ور کر دیں۔تمام امہات المومنین تمام صحابیات،راہ حق میں اپنے مردوں کی ڈھارس بندھانے والی،گھریلو پریشانیوں سے ان کو نجات دلا کر فریضہ اقامت دین کے لیے ان کو زیادہ سے زیادہ وقت و سکون اور اطمینان مہیا کرنے والی، ان کو حرام سے بچا کر حلال کمائی پر قناعت کرنے والی، ہر تنگی ترشی میں انہیں اپنی غمگساری،ہمدردی اور تعاون کا یقین دلانے والی اور پورے خلوص و جانثاری سے ان کی اطاعت اور خدمت بجا لانے والی تھیں، سب اپنے شوہر کی خوشنودی پر جان دیتی تھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بغیر محبت و اطاعت کے رشتہ نکاح ایک جسد بے روح ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ روئے زمین پر جتنے بھی مسلمانوں نے کارنامے انجام دیے، ان میں بیویوں کی تر غیب و تحریص کو بہت دخل ہوتاتھا۔ گھر عورت کی واحد پناہ گاہ ہے اور دور جدید کے مساوات مرد و زن اور ترقی نسواں کے نعرے شیطان کے حربے ہیں جن سے بچ کر ہی عورت نہ صرف اپنے حقوق حاصل کر سکتی ہے بلکہ تحفظ و عزت بھی پاہ سکتی ہیے۔۔
آج کی عورت اگر اپنی اصل پہچان چاہتی ہے تو اسے عہدِ رسالت کے اس تربیتی اسلوب سے رہنمائی لینا ہوگی۔ ایمان کو زندگی کا مرکز بنانا، علم کو وقار کا زیور اور کردار کو سب سے بڑی طاقت سمجھنا ہی اس کی اصل تربیت ہے۔ یہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ عورت کو محدود نہیں، مقصدی بنایا جائے۔ اس کے اندر محبت، حکمت اور خدمت کی وہ روح پھونکی جائے جو صحابیاتؓ کے کردار میں نظر آتی ہے۔ یہی وہ چراغ ہے جو آج کے اندھیروں کو روشنی میں بدل سکتا ہے۔
بشکریہ جسارت
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا