ہوا میں ہلکی سی خوشبو گھلی ہوئی تھی… شاید گلاب کی پتیوں کی یا پھر ایمان کی مہک تھی جو دلوں تک اتر رہی تھی۔ گوشۂ عافیت کا ہال اس دن کسی اور ہی رنگ میں نظر آ رہا تھا۔ نرم روشنیوں میں نہائے چہرے، بچیوں کی ہلکی ہلکی سرگوشیاں، اور دور کہیں قرآن کی آیات کی گونج… ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت رک سا گیا ہو۔ آج کا دن خاص تھا۔ ثمرین کے ختم ِ قرآن کا دن۔
ثمرین… وہ بچی جس کی آنکھوں میں ایک عزم کی روشنی اور دل میں قرآن کی محبت موجزن تھی۔ اس کے لب خاموش تھے مگر چہرے کی مسکراہٹ کہہ رہی تھی کہ یہ سفر آسان نہیں تھا، مگر میٹھا ضرور تھا۔ یہ وہی گوشۂ عافیت ہے جو بے سہارا اور ضرورت مند بچیوں کے لیے نہ صرف پناہ گاہ ہے، بلکہ ایک ایسا مسکن ہے جہاں محبت، عزت اور تربیت کا سایہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ نگران محترمہ جہاں آراء مظفر اور ان کی معاون محترمہ طلعت نصراللہ اس تقریب کے ہر گوشے کا خاموشی سے خیال رکھ رہی تھیں، جیسے کوئی ماں اپنی بیٹی کی خوشی کو بے داغ رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ تقریب کا آغاز ایک پرنور لمحے سے ہوا۔ مہمانِ خصوصی محترمہ مسرت جنید صاحبہ نے سورۂ یونس کی چند آیات نہایت پراثر انداز میں تلاوت کی۔ تلاوت مکمل ہوئی تو ان کی آواز ایک نرم مگر گہری تاثیر کے
ساتھ ہال میں پھیل گئی: ’’قرآن کی دعوت کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہماری ذمے داری ہے۔ یاد رکھیں! قرآن پڑھ کر بھول جانا کبیرہ گناہ ہے، اور جو شخص ایسا کرے گا وہ قیامت کے دن نابینا اٹھایا جائے گا۔ قرآن دلوں کو نرم کرنے آیا ہے، یہ زندگیوں کو بدل دیتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی بدلنی ہے، اور اس روشنی کو دوسروں تک بھی پہنچانا ہے‘‘۔ ان کے الفاظ دلوں میں بیج کی طرح اترتے گئے۔ ہال میں بیٹھے لوگ جیسے اپنے اندر کچھ ہلتا ہوا محسوس کر رہے تھے۔
پھر ایک خاموش سا لمحہ آیا… ثمرین اپنی معلمہ شازیہ عادل کے ساتھ بیٹھی تھی۔ شازیہ عادل نے اسے قرآن کی آخری سورتوں کے بعد ختمِ قرآن کی دعا پڑھائی۔ جوں ہی دعا شروع ہوئی، درجنوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھ گئے۔ ہر ہونٹ پر التجا تھی، ہر آنکھ میں نمی… یہ شکر کے آنسو تھے، جن میں قربتِ الٰہی کا سکون گھلا ہوا تھا۔ اس کے بعد نادیہ سیف نے نہایت محبت سے ثمرین کی حوصلہ افزائی کی اور ایک پْراثر دعا کروائی۔ اس دعا کی لہر جیسے ہر دل کو چھو کر گزر رہی تھی۔ تقریب کے اختتام پر شاندار ریفریشمنٹ کا اہتمام تھا۔ ہال اتنا بھرا ہوا تھا کہ بیٹھنے کی جگہ کم پڑ گئی۔ لیکن چہروں کی چمک، قہقہوں کی ہلکی آوازیں، اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے انداز سے لگ رہا تھا جیسے یہ خوشی سب کی مشترکہ ہو۔
یہ ختمِ قرآن صرف ایک تعلیمی مرحلہ نہیں تھا… یہ اعلان تھا کہ جب قرآن کا نور دل میں اترتا ہے تو زندگی جگمگا اٹھتی ہے، اور یہ روشنی دوسروں تک ضرور پہنچتی ہے۔ اس بابرکت موقع پر محترمہ امین بیگ، زینب کلیم، یاسمین رضی سمیت گوشۂ عافیت کی دیگر ذمے داران بھی موجود تھیں، جن کے دلوں میں بھی یہی دعا تھی: ’’اے اللہ! اس بیٹی کو قرآن کا سچا ماننے والا اور اس پر عمل کرنے والا بنا دے‘
بشکریہ جسارت‘۔
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا