June 7th, 2025 (1446ذو الحجة10)

فلسفۂ حج و قربانی



فلسفۂ حج و قربانی

بواسطة Admin / 0 Comment

 

 

اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جو انسان کو روحانیت، قربانی، اتحاد اور عدل کا عملی پیغام دیتا ہے۔ اس دین کی عبادات میں سب سے عظیم اجتماعی عبادت ’’حج‘‘ ہے، جو ہر سال مسلمانوں کو ایمان، اخوت، اور قربانی کی حقیقی روح سے آشنا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ’’قربانی‘‘ وہ عظیم شعیرہ ہے جس کے پیچھے ایثار، وفا اور اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ پوشیدہ ہے۔ آج جب ہم فلسفۂ حج و قربانی پر غور کرتے ہیں، تو ہمیں اس کی معنویت صرف عبادتی دائرے تک محدود نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اسے ایک عملی، انقلابی اور انسانی پیغام کے طور پر سمجھنا ہوگا، خاص طور پر جب دنیا کے کئی حصے، بالخصوص’’غ-ز-ہ‘‘ جیسے خطے، ظلم و ستم کی آگ میں جل رہے ہیں۔

حج: اتحاد، مساوات اور مزاحمت کا مظہر

حج وہ عبادت ہے جس میں دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان ایک ہی لباس (احرام) میں، ایک ہی ورد (لبیک) کے ساتھ، ایک ہی سمت میں سجدہ ریز ہو کر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ “ہم صرف اللہ کے بندے ہیں”۔ حج ہمیں سکھاتا ہے کہ:

کوئی نسل، رنگ، زبان یا قوم برتر نہیں؛ صرف تقویٰ اصل قدر ہے۔

ظلم کے خلاف قیام، اور عدل کے قیام کا عہد حج کا پیغام ہے۔

حج ابراہیمی سنت ہے؛ اس میں طاغوت کی نفی، شیطان کو کنکریاں مارنا، اور باطل قوتوں سے لا تعلقی شامل ہے۔*

جب ہم آج غ زہ کی حالتِ زار دیکھتے ہیں جہاں معصوم بچے، عورتیں اور بے گناہ شہری ص ہی ونی بمباری کا شکار ہو رہے ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے: کیا ہم نے واقعی حج کا پیغام سمجھا؟ اگر حج ہمیں توحید، قربانی، وحدت اور مزاحمت سکھاتا ہے، تو کیا ہمارا دل غ زہ کے مظلوموں کے ساتھ دھڑکتا ہے؟ کیا ہم اس ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا اپنی حیثیت کے مطابق کسی بھی سطح پر مزاحمت کر رہے ہیں؟

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا اصل مقصد اللہ کی رضا کے لیے اپنی سب سے عزیز چیز قربان کرنا تھا۔ یہ محض جانور کاٹنے کا عمل نہیں بلکہ ایک ایسا عمل ہے جس کے پیچھے **اخلاص، ایمان، توکل، اور اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے۔

آج ہم جانور تو ذبح کرتے ہیں لیکن کیا ہم اپنی خواہشات، تعصبات، خود غرضی، خاموشی اور بے حسی کو بھی ذبح کرنے کو تیار ہیں؟ اگر نہیں، تو قربانی کی روح فوت ہو چکی ہے۔

غ زہ کی ماں جب اپنے بیٹے کو شہید ہوتے دیکھتی ہے، تو وہ حضرت ہاجرہؓ کی وارث بن جاتی ہے۔

غ زہ کا باپ جب اپنے گھر کو ملبے میں بدلتا دیکھتا ہے، تو وہ حضرت ابراہیمؑ کی سنت پر چلتا ہے۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ:

کیا ہم صرف ’’قربانی کا گوشت‘‘ تقسیم کر کے سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہو گیا؟

یا ہم اس قربانی کی اصل روح کو سمجھ کر، ظالموں کے خلاف زبان، قلم، مال، وقت اور دعا سے جہاد کر رہے ہیں؟

آج عالم اسلام کی زبوں حالی، خاص طور پر غ زہ، شام، یمن، کشمیر اور برما جیسے خطوں کی حالت ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ:

1.باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کرو، چاہے کتنا بڑا نقصان ہو۔

2.اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کرو، حتیٰ کہ اپنی آرام دہ زندگی بھی

3.امت، کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھو۔

اگر غ زہ میں بچے شہید ہو رہے ہیں، تو ہمیں ان کے لیے صرف دعا ہی نہیں، بلکہ عملی طور پر بھی کچھ کرنا چاہیے۔ چاہے وہ:

ظالم ریاستوں کا معاشی بائیکاٹ ہو،

مظلوموں کے لیے مالی امداد ہو،

یا عالمی سطح پر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہو۔

آج اگر ہم حج کے لباس میں صرف ظاہری طہارت رکھتے ہیں، مگر دل میں منافقت، قوم پرستی، اور خود غرضی ہے تو ہم ابراہیمی پیغام سے دور ہو چکے ہیں۔

آج اگر ہم قربانی کے گوشت کی تقسیم کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، اور مظلوموں کی آہیں ہمیں نہ چونکائیں، تو ہماری قربانی محض رسم بن چکی ہے۔

غ زہ کے مظلوموں کے چہرے ہمیں پکار رہے ہیں:

اے امتِ مسلمہ! تم نے حج کیا، مگر ہمیں بھول گئے؟

تم نے قربانی کی، مگر ہمارا خون رائیگاں گیا؟

یہ وقت ہے کہ ہم حج و قربانی کے اصل فلسفے کو زندہ کریں۔ ہمیں ابراہیمی قربانی کو اپنی زندگی کا اصول بنانا ہوگا، اور حج کی وحدت کو عالم اسلام کے اتحاد میں بدلنا ہوگا۔

اللہ ہمیں حج و قربانی کی اصل روح سمجھنے، اس پر عمل کرنے، اور مظلوموں کے لیے عملی قدم اٹھانے کی توفیق دے۔آمین

 

                                                                                                بشکریہ جسارت

 


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا