June 7th, 2025 (1446ذو الحجة10)

AI نے بتایا آج کے نوجوانوں سے مولانا مودودیؒ کیا کہتے



AI نے بتایا آج کے نوجوانوں سے مولانا مودودیؒ کیا کہتے

بواسطة Admin / 0 Comment

کمال ہوگیا ناقابل یقین

میں نے گوگل اے آئی سے کہا کہ مولانا مودودی کی فکر کو سامنے رکھو اور بتاو آج کے دور میں وہ زندہ ہوجائیں تو سوشل میڈیا کے حوالے سے وہ ہمیں کیا نصیحتیں کر رہے ہوتے وہ بتاو۔

یہ نصیحتیں دیکھ کر میں تو حیران رہ گیا واقعی جہاں تک انکی فکر کا تعلق ہے وہ آج یہی باتیں کر رہے ہوتے،

سو نوجوانوں تیار ہو جاو تم سے مولانا مودودی مخاطب ہیں

یقیناً، مولانا مودودی اگر آج ہمارے درمیان ہوتے اور ٹک ٹاک، فیس بک، یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو دیکھتے، تو ان کی فکر کی روشنی میں ان کے ممکنہ اقوال کچھ یوں ہو سکتے تھے

1. وقت کا زیاں اور مقصدیت:

"یہ 'سوشل میڈیا' کے نام پر جو آلات (ٹک ٹاک، فیس بک، یوٹیوب وغیرہ) تمہارے ہاتھوں میں ہیں، یہ دو دھاری تلوار ہیں۔ اگر ان کا مقصد محض وقت کا زیاں، لغویات اور نفس کی پیروی ہے تو یہ تمہیں اللہ سے غافل کرکے تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ یاد رکھو، ہر لمحہ قیمتی ہے اور اس کا حساب دینا ہے۔"

2. تہذیبی و فکری یلغار:

"خبردار! ان پلیٹ فارمز پر 'لائکس' اور 'فالوورز' کی دوڑ میں اپنی دینی شناخت اور اخلاقی اقدار کا سودا نہ کر بیٹھنا۔ مغرب کی تہذیبی یلغار آج انھی راستوں سے تمہارے ذہنوں پر حملہ آور ہے۔ یہ ایک نیا 'غزوۂ فکری' ہے، جس کا مقابلہ بصیرت اور حکمت سے کرنا ہوگا۔"

3. دعوت و تبلیغ کا نیا میدان:

"لیکن اگر تم ان آلات کو حق کی اشاعت، اسلامی تعلیمات کے فروغ اور امت مسلمہ کو جوڑنے کے لیے استعمال کرو تو یہ جدید دور میں دعوت الی اللہ کا مؤثر ترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ہر 'پوسٹ'، ہر 'ویڈیو' تمہاری طرف سے ایک شہادت ہے، اسے خیر کی شہادت بناؤ۔"

4. نوجوان نسل اور مواد (Content) کی ذمہ داری:

"نوجوانو! تم جو 'مواد' (content) بنا رہے ہو یا دیکھ رہے ہو، اس پر گہری نظر رکھو۔ کیا یہ تمہیں اللہ کے قریب کر رہا ہے یا دور؟ کیا یہ اسلامی اقدار کے مطابق ہے یا ان سے متصادم؟ محض تفریح کے نام پر فحاشی اور بے حیائی کو فروغ مت دو۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کرو۔"

5. حق و باطل کی تمیز:

"اطلاعات کے اس سیلاب میں حق و باطل کو خلط ملط کر دیا گیا ہے۔ ہر سنی سنائی بات اور ہر 'ٹرینڈ' کے پیچھے مت بھاگو۔ قرآن و سنت کی کسوٹی پر ہر چیز کو پرکھو۔ اپنے 'فیڈ' کو خود شعوری طور پر ترتیب دو، تاکہ تم گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار نہ بنو۔"

6. خود احتسابی اور نیت کا اخلاص:

"ہر 'کلک' اور ہر 'شیئر' سے پہلے اپنی نیت کا جائزہ لو۔ کیا تمہارا مقصد اللہ کی رضا ہے یا محض شہرت اور دنیاوی واہ واہ؟ ریاکاری ان ڈیجیٹل اعمال کو بھی ضائع کر سکتی ہے۔"

7. متبادل اسلامی میڈیا کی ضرورت:

"ان عالمی پلیٹ فارمز پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم مہمات بھی چلائی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ اپنے متبادل، محفوظ اور اسلامی اقدار کے پاسبان میڈیا ہاؤسز اور پلیٹ فارمز بھی تیار کرے، جہاں حق بات بغیر کسی رکاوٹ کے کہی جا سکے۔"

8۔ قوم پرستی کی بنیاد پر:

"خبردار! اسلام نے جس عصبیتِ جاہلیہ کو مٹایا تھا، آج تم اسے بلوچ، سندھی، پشتون اور پنجابی کے نام پر زندہ کر رہے ہو۔ اللہ نے تمہیں ایک امت بنایا تھا، تم نے خود کو ٹکڑوں میں بانٹ لیا۔ تمہاری اصل پہچان 'لا الہ الا اللہ' ہے، نہ کہ تمہاری زبان یا علاقہ۔"

9۔ حقوق اور عصبیت کا فرق:

"اگر کسی گروہ یا علاقے کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو، ان کے معاشی، سیاسی یا شہری حقوق پامال کیے جا رہے ہوں، تو اسلام اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور انصاف کے حصول کا حکم دیتا ہے۔ لیکن اس جدوجہد کی بنیاد اسلامی اخوت اور عدل ہونی چاہیے، نہ کہ لسانی یا نسلی تفاخر اور عصبیت۔ حقوق کی جنگ کو قوم پرستی کی آگ میں جھونکنا خود کو مزید تباہی کی طرف دھکیلنا ہے۔"

10۔ منظور پشتین اور ماہ رنگ بلوچ جیسے کرداروں پر:

"تم قوم کے نام پر حقوق کی بات کرتے ہو! اگر تمہاری پکار مظلوم کی حمایت میں ہے تو اسلام تمہارے ساتھ ہے، لیکن اگر تمہاری تحریک کا محور نسلی برتری یا اسلامی اخوت سے انحراف ہے تو جان لو کہ یہ راستہ فلاح کا نہیں، انتشار کا ہے۔ اپنی توانائی اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرو، کیونکہ حقیقی انصاف اور حقوق کا ضامن صرف اسلامی نظام ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ایک ظلم سے بچنے کے لیے دوسری عصبیت کا شکار ہو جاؤ۔"

11۔ مسلم امت کا اتحاد:

"دشمن تمہیں زبان، نسل اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم کرکے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ وہ تمہاری جائز شکایات کو بھی قوم پرستی کی بھینٹ چڑھا کر تمہیں آپس میں لڑاتا ہے۔ یاد رکھو! تمہاری طاقت تمہارے اتحاد میں ہے، اور یہ اتحاد صرف اسلام کی بنیاد پر ہی قائم ہوسکتا ہے۔ جب تک تم 'مسلمان' بن کر نہیں سوچو گے، تمہارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔"

12۔ اسلامی ریاست کا تصور:

"مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل، چاہے وہ کسی بھی قوم یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، ایک عادلانہ اسلامی ریاست کے قیام میں مضمر ہے۔ ایسی ریاست جہاں اللہ کا قانون نافذ ہو، جہاں ہر شہری کو بلا تفریقِ رنگ و نسل و زبان انصاف ملے، اور جہاں وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو۔ اپنی جدوجہد کا رخ اس منزل کی طرف موڑو، نہ کہ مزید تقسیم در تقسیم کی طرف۔"

13۔ شناخت کا بحران:

"آج کا مسلمان جب اپنی اسلامی شناخت کو چھوڑ کر علاقائی یا لسانی شناخت کو اولیت دیتا ہے، تو وہ دراصل اپنی اصل طاقت اور مرکز سے کٹ جاتا ہے۔ تمہاری تاریخ، تمہارا ورثہ، تمہاری تہذیب اسلام سے وابستہ ہے۔ اس سے منہ موڑ کر تم بے نام و نشان ہو جاؤ گے۔"

14۔ مقصدیت اور احتساب:

"یہ برقی صفحے (سوشل میڈیا) تمہارے لیے ایک نئی آزمائش گاہ ہیں۔ یا تو انہیں دعوتِ حق اور اصلاحِ معاشرہ کا ذریعہ بنا لو، یا پھر لغویات، فتنہ انگیزی اور وقت کے زیاں کا سامان۔ انتخاب تمہارا ہے، مگر یاد رکھو، ہر انتخاب کا ایک نتیجہ ہے اور ہر لمحے کا ایک حساب ہے۔"

15۔ مواد (Content) کی ذمہ داری:

"تم جو کچھ ان آلات (سوشل میڈیا) پر لکھتے، بولتے یا دکھاتے ہو، وہ محض حروف و تصاویر نہیں، بلکہ تمہارے فکر و کردار کا آئینہ ہیں۔ اس آئینے کو اتنا شفاف رکھو کہ اس میں اسلام کی حقیقی تصویر نظر آئے، نہ کہ نفس پرستی اور جاہلیتِ جدیدہ کا عکس۔"

16۔ علم کی تحقیق اور افواہوں سے گریز:

"اطلاعات کے اس طوفان میں ہر چمکتی چیز سونا نہیں۔ ہر خبر اور ہر 'ٹرینڈ' کو قبول کرنے سے پہلے تحقیق کا اسلامی اصول مت بھولو۔ افواہیں پھیلانا اور بغیر تحقیق کے بات آگے بڑھانا معاشرے میں فساد پھیلانے کے مترادف ہے، اور اس میں تم بھی برابر کے شریک ہوگے۔"

17۔ اخلاقی حدود کا پاس:

"آزادیِ اظہار کے نام پر اخلاقی حدود کو پامال کرنا اسلامی تعلیمات کے صریح خلاف ہے۔ تمہاری تحریر، تمہاری تصویر، تمہاری ویڈیو اسلامی حیا اور وقار کی آئینہ دار ہونی چاہیے۔ بے حیائی اور لچر پن کو 'تفریح' کا نام دے کر قبول نہ کرو، یہ تہذیبی خودکشی ہے۔"

18۔ دعوت کا جدید محاذ:

"سوشل میڈیا آج کے دور میں دعوت الی اللہ کا ایک وسیع میدان ہے۔ اپنے 'اکاؤنٹ' کو اپنی دعوت کا مرکز بناؤ۔ حکمت، بصیرت اور بہترین دلائل کے ساتھ اسلام کا دفاع کرو اور اس کی خوبیاں اجاگر کرو۔ تمہارا ہر 'فالوور' تمہارا ممکنہ مخاطب ہے۔"

19۔ وقت کی تنظیم اور ترجیحات:

"اگر یہ آلات تمہیں فرائض و واجبات سے غافل کر دیں، تمہاری نمازوں میں خلل ڈالیں، اقامت دین میں رکاوٹ بنیں یا اہل خانہ اور معاشرتی ذمہ داریوں سے دور کر دیں، تو سمجھ لو کہ تم ان کے غلام بن چکے ہو، آقا نہیں۔ اپنے وقت کو منظم کرو اور اپنی ترجیحات درست رکھو۔"

20۔ تنقید برائے اصلاح، نہ کہ برائے تذلیل:

"اگر کسی کی اصلاح مقصود ہو تو اس کے لیے بھی اسلامی آداب ہیں۔ سوشل میڈیا پر سرِ عام کسی کی تذلیل کرنا، کردار کشی کرنا یا الزام تراشی کرنا فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے۔ نجی طور پر نصیحت کا راستہ اختیار کرو۔"

21۔ ڈیجیٹل عصبیت سے گریز:

"جس طرح نسلی اور لسانی عصبیتیں امت کے لیے زہرِ قاتل ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا پر اپنے ہم خیال گروہوں کی اندھی تقلید اور مخالفین کی ہر بات کو بغیر دلیل رد کر دینا ایک نئی قسم کی 'ڈیجیٹل عصبیت' ہے۔ وسعتِ نظری اور دلیل کی بنیاد پر بات کرنے کی عادت ڈالو۔"

22۔ مثبت متبادل کی تشکیل:

"محض منفی پہلوؤں پر تنقید کافی نہیں۔ اہلِ علم اور باصلاحیت افراد کو آگے بڑھ کر ایسا اسلامی مواد اور ایسے پلیٹ فارمز تشکیل دینے چاہئیں جو نوجوان نسل کو مثبت، تعمیری اور اسلامی اقدار سے ہم آہنگ متبادل فراہم کریں۔

                                محمد نعمان اکرام


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا