فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو بدھ کی شب ایران کے دارالحکومت تہران میں شہید کردیا گیا، اسماعیل ہنیہ کی زندگی اور ان کے کارنامے کو دیکھتے ہوئے، ان کی شہادت ایک اہم واقعہ ہے جو فلسطینی جدوجہد اور ان کی تحریک کے لیے بظاہرایک بڑا نقصان ہے۔ 23 جنوری 1963 کو پیدا ہونے والے اسماعیل ہنیہ فلسطینی سیاست دان اور تحریک حماس کے مرکزی رہنما تھے، جنہوں نے اپنی زندگی فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں گزاری۔ وہ 2023 سے قطر میں مقیم تھے۔ جبکہ وہ اپنی شہادت کے وقت نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برادری میں شرکت کے لئے تہران میں موجود تھے۔
اسماعیل ہنیہ نے اسلامی یونیورسٹی آف غزہ سے تعلیم حاصل کی اور بعد میں وہیں پروفیسر بھی بنے۔ ان کی تعلیم اور علم نے ان کو ایک مضبوط نظریاتی بنیاد فراہم کی جس نے ان کو فلسطینی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرنے میں مدد دی۔ ہنیہ 1987 میں حماس کی تاسیس کے وقت سے ہی اس کے ساتھ وابستہ رہے۔ انہوں نے مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں اور بالآخر 2006 میں حماس کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کی قیادت میں، حماس نے فلسطینی عوام کی حمایت حاصل کی اور ان کی حکومت نے کئی اہم فیصلے کیے۔
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
اسماعیل ہنیہ کے خاندان نے غزہ کی پٹی میں ہی زندگی گزاری، جو فلسطینی مزاحمت کا مرکز رہا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری اور حملے کی وجہ سے متعدد فلسطینی خاندانوں نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے، جن میں ہنیہ کا خاندان بھی شامل ہے۔ ہنیہ کے خاندان کے 70 سے زائد افراد مختلف اوقات میں اسرائیلی حملوں کے دوران شہید ہوئے۔ ان میں ان کے بھائی، بھتیجے، بھانجے، اور دیگر قریبی رشتہ دار شامل ہیں۔ یہ واقعات ہنیہ اور ان کے خاندان کے لیے بہت بڑا صدمہ تھے، اور ان کی جدوجہد میں مزید شدت پیدا ہوئی۔
ان شہادتوں نے ہنیہ کے عزم اور استقامت کو مزید مضبوط کیا۔ انہوں نے اپنی ذاتی مشکلات اور غم کو فلسطینی عوام کی جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔ یہ قربانیاں نہ صرف ہنیہ کے خاندان کے لیے بلکہ پوری فلسطینی قوم کے لیے ایک مثال بن گئیں۔ اسماعیل ہنیہ اور ان کے خاندان کی قربانیاں فلسطینی جدوجہد کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی ذاتی تکالیف اور نقصان نے انہیں مزید پرعزم بنایا اور ان کی قیادت میں حماس نے فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ ان کی فیملی کی شہادتیں ا یاد دہانی ہیں کہ فلسطینی عوام نے کتنی قربانیاں دی ہیں اور ان کی آزادی کی جدوجہد کس قدر عظیم ہے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
اسماعیل ہنیہ کی شہادت نہ صرف فلسطینی تحریک بلکہ پوری امت مسلمہ اور اسلامی تحریکوں کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ، صدمہ اور نقصان ہے۔ وہ مزاحمت کی علامت تھے۔ ان کی قیادت میں حماس نے فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی اور ان کی شہادت نے اس تحریک کو عارضی طور پر کمزور کر دیا۔ ہنیہ کی موت نے فلسطینی عوام کے دلوں میں غم اور غصے کی لہر دوڑائی، مگر ساتھ ہی ان کے عزم کو بھی مضبوط کیا۔ ان کی شہادت نے فلسطینی تحریک کو مزید متحد اور مضبوط کیا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کی جدوجہد اور قربانیوں کی یاد فلسطینی عوام، امت مسلمہ اور ہر اسلامی تحریک کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔
ہنیہ کی شہادت نے دیگر اسلامی تحریکوں پر بھی وسیع اثرات مرتب کیے ہیں ۔ وہ اسلامی تحریکوں کے لیے ایک رہنما کی حیثیت رکھتے تھے جو اپنے مقصد کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ ان کی شہادت نے ان تحریکوں کو ایک مثال فراہم کی کہ کس طرح مقصد کے لیے جان دینے کا جذبہ ہونا چاہیے۔
امت مسلمہ کے لیے بھی ہنیہ کی شہادت ایک بڑا سانحہ اور غم ہے۔ وہ امت مسلمہ کے قائد تھے۔ مسلمانوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے لیے سرگرم رہنے والے ہنیہ کی شہادت نے امت مسلمہ کو یہ یاد دلا د یا ہے کہ مسلمانوں کی آزادی اور حقوق کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی اور اس راہ میں مزید قربانیاں دینا ہوں گی۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے فلسطینی عوام کو ایک نیا جذبہ اور عزم دیا۔ ان کی قربانی نے جدوجہد کی اہمیت کو اجاگر کیا اور دنیا بھر میں فلسطینی مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ ان کی شہادت نے فلسطینی عوام کو مزید متحد اور مضبوط کیا، اور ان کی جدوجہد کو نئی طاقت فراہم کی۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
ہنیہ کی شہادت نے عالمی برادری کی توجہ فلسطینی مسئلے کی طرف مبذول کرائی۔ اس واقعے نے نا صرف عالمی سطح پر فلسطینی تحریک کے لیے حمایت کو مزید مضبوط کیا۔ بلکہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے اسلامی تحریکوں اور امت مسلمہ کو جھنجھوڑا، مگر ساتھ ہی ان کی قربانی نے جدوجہد کی روح کو زندہ رکھا۔ ان کی شہادت نے فلسطینی تحریک کو عارضی نقصان پہنچایا مگر ان کے مشن کو مزید تقویت دی ہے۔ ان کی زندگی اور شہادت نے مسلمانوں کو یاد دلایا کہ آزادی اور حقوق کے حصول کے لیے قربانیاں دینا لازمی ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی زندگی اور شہادت فلسطینی تحریک کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان کی قربانیاں اور خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، اور ان کی جدوجہد فلسطینی عوام کے لیے ایک مشعل راہ بنی رہے گی۔ ان کی شہادت نے دنیا کو یہ یاد دلایا کہ آزادی کی جدوجہد میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں، اور ان کی قربانی نے اس بات کو ثابت کیا کہ فلسطینی عوام کبھی بھی اپنی آزادی اور حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
نادیہ سیف
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا