April 18th, 2024 (1445شوال10)

عہدِ حاضر میں ماؤں کی ذمہ داری



عہدِ حاضر میں ماؤں کی ذمہ داری

بواسطة Admin / 0 Comment

بچے قدرت کاانمول تحفہ ہیں بہت معصوم، سادہ اور موم کی طرح نازک انہیں جس سانچے میں چاہے ڈھالا جا سکتا ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔” ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

یوں تو اولاد کی پرورش کی ذمہ داری باپ اور ماں دونوں پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن فی زمانہ اولاد کی تربیت کی ساری ذمہ داری ماں کے کاندھوں پر آ گئی ہے کیونکہ ظاہر ہے باپ سارا دن کسب معاش کے سلسلے میں گھر سے باہر ہوتا ہے جب وہ گھر سے نکلتا ہے تو بچے اسکول جانےکی تیاری کر رہے ہوتے ہیں اور جب گھر واپس آتا ہے تو بچوں کے سونے کا وقت ہوجاتا ہے جبکہ دوسری جانب اکثر مرد حضرات اولاد کے بہتر مستقبل کی خاطر دیار غیر میں ملازمت کرتے ہیں ایسی صورت میں ماں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت میں کوئی کمی نہ رہنے دے جو مائیں اپنی یہ ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کرتی ہیں ان کو سعادت مند اور خوشحال اولاد کا سکھ دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔

عہد حاضر میں تو ماؤں کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں کیونکہ ٹیکنالوجی کے انقلاب نے زندگی کے ہر میدان میں حشر برپا کر دیا ہے کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے خواہ وہ “ماں” جیسی ہستی ہی کیوں نہ ہو اب تو عام مشاہدے میں یہ بات آرہی ہے کہ زیادہ تر مائیں دن کا بیشتر حصہ کمپیوٹر ،لیپ ٹاپ اور موبائل سے جڑی رہنے میں گزار دیتی ہیں ان کی زندگی میں فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، ٹویٹر، یوٹیوب اور دیگر ایکٹیویٹیز کو priority حاصل ہے جبکہ بچوں پر توجہ کم ہی ہوتی ہے۔ بچے جنہوں نے ابھی بیٹھنا بھی نہیں سیکھا ہوتا وہ بھی موبائل اسکرین کو دیکھ کر ایسے respond کرتے ہیں جیسے کہ یہ کوئی کھلونا ہو اور جب یہ بچے تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو مائیں خود اپنی جان چھڑانے کے لیے بچوں کو tab اورموبائل پکڑا دیتی ہیں اور فخریہ انداز میں خاندان بھر میں بتاتی پھرتی ہیں کہ ابھی تو میرا بچہ دو سال کا ہے لیکن tab چلاتا ہے وغیرہ وغیرہ-

یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ ہر بچے کے لیے اس کے ماں باپ آئیڈیل ہوتے وہ انہیں جو کچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں خواہ وہ لوگوں کے ساتھ تعلقات ہوں یا معاملات غیر محسوس طریقے سے سے وہ تمام عادات و اطوار اپنے اندر absorb کرتے چلے جاتے ہیں لہذا جب وہ دیکھیں گے کہ ان کی ماں دن میں کئی بار selfie لے کر فیس بک یا یا انسٹا پر پر اپلوڈ کر رہی ہےتو وہ بھی یہی کچھ کریں گے۔

یاد رکھیں کوئی بھی ایجاد بذات خود بری نہیں ہوتی depend کرتا ہے کہ آپ اسے کیسے استعمال کر رہے ہیں ہیں اس سلسلے میں ماؤں کو اس بات کی آگاہی بہت ضروری ہے کہ موبائل کا استعمال کب اور کیسے کرنا ہے اس میں بچوں کو کیا دکھانا ہے اور ان پر چیک اینڈ بیلنس کیسے رکھنا ہے۔

ماؤں کو چاہیے کہ چار، پانچ سال کی عمر سے ہی بچوں کو عقائد، عبادات اور معاملات کے بارے میں نہایت ہلکے پھلکے انداز میں بتانا شروع کر دیں ان کو اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ اٹیچ رکھیں ان کے ساتھ کھیلیں، انھیں سبق آموز اسلامی کہانیاں سنائیں خصوصاً رات کو سونے سے پہلے نبیوں کے قصے اور صحابہ کرام کے واقعات کو دلچسپ انداز میں بچے کو سنائیں اورکوشش کریں کہ نئی کہانی یا قصہ شروع کرنے سے پہلے بچے سے پوچھیں، ” بیٹا کل آپ نے کون سی کہانی سنی تھی یا کس نبی کا قصہ سنا تھا ،” اس سے بچے کے دماغ میں ساری کہانی recall ہو جائے گی بچوں کو اپنے بچپن کے واقعات سنائیں، بچوں کا اسکرین ٹائم کم سے کم رکھیں، ان کا روٹین ایسے سیٹ کریں کہ بچے آپ کی نظروں کے سامنے زیادہ سے زیادہ رہیں۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے،،،،” باپ کا اپنی اولاد کو بہترین تحفہ اس کی بہترین تربیت ہے۔  اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا،،،،”بندہ جب مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب برابر ملتا رہتا ہے۔

1_صدقہ

2_وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے

3_صالح اور نیک اولاد جو ان کے لئے دعا گو رہے

یاد رکھیں آج کے دور میں صرف ماں بچے کی تربیت نہیں کر رہی ہے بلکہ باہر کا معاشرہ،میڈیا، اسکول اور دوست احباب بھی بچے کی تربیت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں لہذا بارہ سال کی عمر کو پہنچنے تک بچوں کو صحیح غلط اور حرام و حلال کی تمیز سکھانا ماں کی ذمہ داری ہے اگر آپ یہ سوچیں گی کہ ابھی تو بچے چھوٹے ہیں ابھی سے ان کے ساتھ بلوغت کے مسائل یا ایسی باتوں کو ڈسکس نہ کیا جائے جب وقت آئے گا تو خود سیکھ جائیں گے تو یہ آپ کی بھول ہے اس سے پہلے کہ دوست احباب اس کو زمانے کی اونچ نیچ سکھائیں آپ اپنے بچوں کی بہترین دوست خود بن جائیں تاکہ وہ اپنی ہر الجھن، ہر پریشانی، ہر مسئلہ آپ کے علم میں لائے اور آپ حکمت سے کام لیتے ہوئے اس کے مسائل حل کرنے میں اس کی مدد کریں اگر آپ نے بچےکے اندر اس عمر میں ایمان کی حرارت پیدا کر دی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار ان کے اندر منتقل کر دیا تو یقین رکھیے فتنے اور حوادث ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور جب یہ نیک اور صالح بچے معاشرے کا بہترین فرد بن کر سامنے آئیں گے تو دین و دنیا دونوں کی بھلائیاں ان کے قدم چومیں گی اور یہی بچے آپ کے لئے صدقہ جاریہ بن جائیں گے

آخر میں سب سے اہم بات کہ نماز میں بچوں کے لئے خصوصی دعائیں مانگنا نہ بھولیں کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے لہذا ہر نماز کے بعد لازمی یہ دعا ضرور مانگا کریں،رَبَّنَا ھَب لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّۃَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا،،،،”اے ہمارے رب!ہمیں ہمارے ازواج اور ہماری اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور  ہمیں متقیوں کا امام بنا۔۔آمین۔۔۔روزینہ خالد


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا