December 30th, 2024 (1446جمادى الثانية28)

وہی خواب آسماں کے



وہی خواب آسماں کے

بواسطة Admin / 0 Comment

نام کا اثر تھا یا مقدر میں ہی کامیابیاں لکھوا کر لائی تھی کہ سکول کالج کے ہر سطح کے ہر مقابلے میں کوئی نہ کوئی انعام ضرور ملتا کئی مرتبہ تو ارادہ نہ بھی ہوتا لیکن انعام اسے پکارتا ،اس کے پاس چل کر آجاتا ،کبھی پرنسپل کی طرف سے پیغام ملتا فلاں کالج میں ڈیبیٹس ہیں یہ موضوع اور تفصیلات ہیں تم تیار رہنا تو کبھی نوٹس بورڈ پر اسے مقابلے میں شرکت کرنے کی تلقین ہوتی ،
اوپر والے نے کچھ نہ کچھ اس کے اندر ایسا انمول خزانہ دبایا ہوا تھا کہ ہر مرتبہ عزت وقار میں اضافہ بھی ہوتا اور محبتیں بھی خوب سمیٹتی
لیکن یہ تو کلیہ قاعدہ ہے اس دنیا کا دو ہنسانے والے ہوتے ہیں تو سو رلانے والے چار لوگ آپ کی کامیابی پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو چودہ مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں
یہی فائزہ حسان کے ساتھ ہوا،
دبی دبی زبان میں اس کے متعلق گفتگو ،پھر الزامات اور آخر میں تہمتوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔
یہ سب اس کے ساتھ غیروں کی طرف سے نہیں بل کہ اس کے اپنے اردگرد کے پیاروں اس کے ماں اور باپ کے قریبی رشتوں نے کیا
ایک موقع یہ بھی آیا کہ اسے بین الصوبائی قرات کے مقابلے میں رحیم یارخان سے لاہور جانا پڑا، اسلامیات کی مس تسنیم عالم اور عربی کی زہراء قاضی ہمراہ تھیں مردانہ اسٹاف میں سے بھی دو ایک ان سے پہلے ہی رحیم یارخان سے چل پڑے تھے قرات کے مقابلے میں اس کی دوسری پوزیشن تھی سوشل میڈیا پر اس کے ویڈیو کلپ خوب وائرل ہوچکے تھے اس کے رحیم یار خان پہنچنے سے پہلے ہی پینا فلیکس اور بینرز پورے شہر میں آویزاں کیے جا چکے تھے جیت کے نشے میں سرشار وہ شہر میں داخل ہوئی تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسپورٹس کے سر عاطف بیگ کے ساتھ ان کی ویڈیو کلپ کے ان کی برادری میں کیا معنی لیے جا چکے ہوں گے؟ وہی جو کسی بھی پاک باز عورت کو زندہ درگور کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں!
دبی دبی سرگوشیوں میں اس کی کردار کشی کی مہم اب بآواز بلند  بحث کی صورت اختیار کر چکی تھی ماضی میں اگر وہ کسی لڑکے سے چار فٹ دور سے بھی گزری تھی تو اسے اس کا بوائے فرینڈ بنا کر پیش کیا جارہا تھا اور یہ سب مہم اس کے اپنے سگے چلا رہے تھے،جن کے وجود سے اسے نانی دادی کی خوش بو آتی تھی وہی اس پر تہمت لگا کر گٹر کی بدبو بن چکے تھے دکھ کی بات یہ ہوئی کہ دو چار مرتبہ اس کے والدین نے سب کو بیٹی کی حمایت میں کرارا جواب دیا پھر لہجہ بدلتے بدلتے آخر میں پھسپھسا سا اسلوب
دفاع کی پوزیشن تو اب تھی نہیں سارا جتھا دوسری طرف اگر کوئی اس کا طرف دار بھی تھا ببانگ دہل نہیں مجرموں کی طرح 
فائزہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زندگی کا یہ رخ اتنا بدصورت اور مکروہ ہو سکتا ہے تعلیم مکمل ہوئی قدرے معقول رشتہ دیکھ کر ماں باپ نے بھی اسے رخصت کیا ۔
میکہ سے رخصتی اس کے لیے تکلیف دہ نہیں تھی ایک امید بل کہ یقین تھا کہ جن زہریلی باتوں کی سرسراہٹ اسے چوبیس گھنٹے بے سکون رکھتی تھی وہ اب سکینت میں ڈھل جائے گی
سسرال اس کی نارمل سی تھی نہ تو منہ پر تعریفوں کے پل باندھنے والے اور نہ ہی پیٹھ پیچھے بدخوئیاں کرنے والے
پلکوں پر بٹھانے کا دعویٰ کرنے والے نہ پاوں کی جوتی سمجھنے والے ،
اللہ کا کرم ہی تھا کہ اس کو اذیت دینے والی کوئی عادت دو ماہ میں تو اسے نظر نہیں آئی تھی بہرحال وہ ماضی کی تکلیف کو فراموش تو نہیں کرسکی تھی گاہے بگاہے یاد آتا تو گھنٹہ بھر گم سم رہتی اسے اچھی طرح سے یاد تھا کہ عام سے دنوں جیسا دن تھا جب اس کی ساس نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر کے ہاتھ میں ڈائری اور قلم پکڑے کہیں جانے کی تیاری میں تھیں اسے بھی دعوت دی بے سوچے سمجھے اس نے جانے کی حامی بھر لی دو گلیاں چھوڑ کر وہ ایک بڑے سے گھر میں ساس کے ساتھ داخل ہوئی تو اسے معلوم نہیں تھا کہ اندر کی دنیا باہر کی دنیا سے کتنی مختلف ہوگی!
سفید چاندنیاں بچھائی گئی تھیں بہت مودب انداز سے تذکیری گفتگو سن رہی تھیں وہ دونوں ساس بہو بھی جگہ بنا کر خاموشی سے بیٹھ گئیں چند منٹوں میں فائزہ پوری طرح سے متوجہ تھی درس دینے والی کے لفظوں میں تاثیر تھی یا بتائی جانے والی آیات میں جادو اس کا دل پانی بن گیا تھا پسلیوں سے بے قابو ہوتا دل بس یہی شور مچا رہا تھا ،یہی حق ہے یہی سچ ہے ،
اس پروگرام کو قرآن کلاسز کا نام دیا گیا بعد میں شرکائے مجلس سے سوال جواب بھی ہوئے جو ظاہر ہے کہ اس کے سر سے گزر گئے البتہ اس کی ساس پورے ذوق و شوق سے جواب دیتی رہیں توسیع منصوبہ ،افرادی قوت جیسے الفاظ بھی کثرت سے استعمال ہوئے کچھ اعداوشمار بھی جمع کیے گئے جس کا اس کے ناقص ذہن میں کوئی جواب نہ تھا بہرحال اس کا تعارف ہوا سب نے بہت ،اس کی توقع سے کہیں زیادہ اچھے انداز میں استقبال ہوا اسے شاید کسی کا متعین بھی بنانے کا مشورہ دیا جا رہا تھا چائے اور سموسوں کے ساتھ اس کی ساس کی لائی ہوئی مٹھائی بھی سب کو پیش کی گئی
اس کے بعد بہت جلد اسے پتہ چلا وہ اس کائنات کا معمولی یا حقیر ذرہ نہیں بلکہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے سب سے قیمتی وجود ہے اسے اس عارضی زندگی کے ہر کام اور ہر سانس کا جواب دینا ہےاور یہ کہ دنیا دارلجزاء نہیں دارالعمل   ہے
تھوڑے سے عرصے میں اس کی نشرو اشاعت کے لیے صلاحیتوں کا کھوج لکھا کر اسے نگرانی کا کام دیا جاچکا تھا
چند مہینوں میں وہ بہت مطالعہ کے لیے وقف رہی ایک کے بعد دوسری کتاب ترجمہ تفسیر
کائنات کے اسرار و رموز اسے سمجھ آنے لگے تھے،
کارکن امیدوار رکن سے رکنیت کا حلف اٹھانے کا مرحلہ اس کی زندگی کا مشکل ترین مرحلہ تھا پورے گیارہ منٹ اور تیس سیکنڈ میں اس نے حلف کی عبارت آنسوؤں سے تر حلق کی پھنسی آواز میں مکمل کی ،اتنا تو وہ تہمت لگنے پر بھی نہیں روئی تھی !
اس کا بخت کتنا بلند ہوگیا تھا وہ چن لی گئی تھی !
وہ دین کے کام کے لیے وقف ہوگئی تھی اپنے رب کے لیے اس کی مخلوق کی اصلاح کے لیے!
اس نے علاقے کی نظامت بھی نبھائی اور نشرواشاعت کے شعبہ میں بھی بہت فعال تھی کوئی دن ایسا اس کی زندگی میں اس کے بعد نہیں ایا تھا جب اس نے حق کی صدا کو بلند کرنے کے لیے قلم کو استعمال نہ کیا ہو
اس کا نام اس کا کام اب اس کی شناخت تھا اس نے ماضی کی تلخیوں کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا اور نہ ہی اس کے پاس اسکا وقت تھا!
کبھی چھوٹی بہن یا سہیلی اس سے تزکرہ بھی کرتی تو ہاتھ کے اشارے سے روک دیتی
،،نہیں دور جاہلیت کی یاد مت دلاو قصور تو میرا تھا سپورٹس کے سر کے ساتھ کیوں وڈیو بنوائی لاحول ولا قوہ الا باللہ
اللہ مجھے معاف کرے، اچھا وہ تم نے فلاں اخبار میں فلاں کالم پڑھا ؟ وہ گفتگو کا موضوع بدل دیتی
وہ دل سے احسان مند تھی شکر گزار تھی اپنے رب کی اپنی جماعت کی جنہوں نے اسے ضائع ہونے سے بچا لیا تھا !
اسے جنت کمانے اور جہنم سے دور رہنے کے راستے پر ڈال دیا تھا کہ انبیاء نے ورثہ میں یہی دیا تھا- کیااس فانی دنیا میں کوئی اور چیز تھی چھوڑے جانے کے قابل ؟ جو مخلوق  خدا کو عرشوں تک لے کے جائے !! فی الوقت تو قرار ،سکینت اور محبت کا جائے مرکز بس منصورہ ہی تھی جس نے ماں کی محبت باپ کی شفقت دی اور میرے پیاروں سے بڑھ کرمجھے تھام لیا اور میری بے مقصد زندگی کا راستہ متعین کردیا  

                                                                                                 قانتہ رابعہ


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا