کورونا کی وجہ سے مسلسل دو سال پابندیوں کے بعد ہر کام اپنے معمول پر آ رہا ہے۔ زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہو چکی ہے۔ ابتلا کے بعد جب شادمانی و فرحانی کا دور آتا ہے تو اس خوشی کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہوتا ہے۔ کورونا کی وبا سے جان چھوٹی تو لوگوں کی چہل پہل اور بازاروں کی رونقیں بحال ہو گئیں۔ ملک بھر میں مختلف نمائشوں کا انعقاد ہونے لگا لیکن جب ایکسپو سینٹر لاہور میں 13 مئی کو کتب میلے کے انعقاد کا سنا تو دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ اچھی کتابیں پڑھنے والوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ انہیں کتب بازار میں جانا ہی سب سے اچھا لگتا ہے۔ کتابوں سے گہرا تعلق رکھنے والی لڑکی جب شادی کے بندھن میں بندھتی ہے تو شوہر کے گھر میں سب سے زیادہ خوشی سٹڈی روم دیکھ کر ہوتی ہے۔ دوسری طرف حریم ادب کی طرف سے بھی حریمِ ادب کے اسٹال پر آنے کا دعوت نامہ موصول ہو گیا پھر جانا تو بنتا تھا نا۔ ہال میں داخل ہوتے ہی ہر طرف کتابیں ہی کتابیں دیکھ کر دل کو جو سرور حاصل ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔ اچھی کتاب اچھی دوست اور تنہائی کی بہترین ساتھی ہے اور پھر اصلاحی ادب تو ہماری اخلاقی اور معاشرتی تربیت کرتا ہے۔ کتاب بہترین ساتھی ہی نہیں بل کہ استاد بھی ہے۔ اصلاحی ادب کی بات کی جاۓ تو اس سلسلے میں اگر حریمِ ادب کی کوششوں کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ نا انصافی ہے۔
حریم ادب خواتین لکھاریوں کی ایک ادبی انجمن ہے جو رضائے الہی کے لیے قلم کے محاذ پر کھڑی ہیں۔ جن کی اصلاحی تحریریں ناصرف گھریلو معاملات چلانے میں مدد گار ثابت ہوتیں ہیں بل کہ معاشرتی اور بعض اوقات ریاستی اصلاح کا احاطہ بھی کرتی ہیں۔ حریم ادب کا نظریہِ ادب ادب برائے زندگی، زندگی برائے بندگی، زندگی بے بندگی شرمندگی، ہے۔ حریم ادب کے مقاصد، معاشرے کی مثبت اہل قلم عناصر کو مربوط اور متحرک کر کے ادب میں مثالی اقدار اور تہذیب کو متعارف کروانا ہے۔ ادبی تخلیقی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں صحت مند مزاج کو فروغ دینا ہے۔ ادبی نگارشات کے ذریعے مثالی معاشرے کی صورت گری کرنا، معاشرتی اقدار، روایات اور تصورات کو درست سمت میں گامزن کروانے کے ساتھ ساتھ لکھاریوں سے با مقصد ادب تخلیق کروانا نیز معدوم ہونے والے اصلاحی اور مثبت ادب کی تشہیر کرنا اس کے اہداف میں شامل ہے۔حریم ادب کے تحت ادبی نشستوں اور کنونشنز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مختلف تحریری مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ لکھاریوں کے لیے ورکشاپس اور تربیتی لیکچر دیئے جاتے ہیں۔ نئے لکھنے والوں کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ ان کی نگارشات کی اشاعت اخبارات اور مختلف سائٹس پر کروائی جاتی ہے۔ نیز اہم ایام کے لحاظ سے لکھنے کے لیے موضوعات بھی دیے جاتے ہیں۔
حریم ادب کا اسٹال اپنے تھیم کلر، ہلکا گلابی اور سفید رنگ کے غباروں سے سجا ہوا تھا جن پر مزے مزے کی کتابیں جلوہ افروز تھیں۔ فلاح خاندان سے متعلق اور کئی دوسرے اصلاحی کتابچے موجود تھے جن میں لوگ دل چسپی کا اظہار کر رہے تھے۔ ۔ کتابوں کا خوبصورت گلشن چھوڑنے کو دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن واپس تو آنا ہی تھا۔ یہ خوش گوار وقت گزارنے کے بعد واپسی کا راستہ لیا اور دل سے دعاگو تھی کہ" یا اللہ ایسے اصلاحی، ادبی اداروں کو پاکستان کی سدا زینت بنائے رکھنا۔ اس سر زمین پر اس طرح کے کتب میلے سجائے رکھنا۔ موبائل کی چکاچوند میں نوجوان نسل کا کتا ب سے کمزور پڑتے رشتے کو پھر سے طاقت ور بنا دے اور وہ کتب بینی کی فروغ کے لیے خود سے اٹھ کھڑے ہوں۔ کیوں کہ زندہ قومیں علم و کتاب کو ہمیشہ مقدم رکھتی ہیں۔
نبیلہ شہزاد
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا