October 15th, 2024 (1446ربيع الثاني11)

ماہ صفر المظفر اور بدشگونی



ماہ صفر المظفر اور بدشگونی

بواسطة Admin / 0 Comment

اہل بیت سے محبت اور ان پر کربلا کے میدان میں گزرنے والی شام غم بہت دن تک پیغام کو تازہ رکھتی ہے۔ اب تو پوری امت مسلمہ ہی کرب و بلا کا میدان ہے اور صبح الم اور شام غم میں دن بیت رہے ہیں۔ گر صرف ان کے جن پر یہ بلائیں اور آفتیں ٹوٹ رہی ہیں، فلسطین ہو یا شام یمن ہو یا کشمیر۔ جس تن لاگے، سو تن جانے۔ باقی سارے مسلمان معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی زندگی کے روز و شب پر کسی دوسرے مسلمان کے غم کی کوئی پرچائیں نہیں۔ ان کے شوق مشاغل سب سلسلے جاری و ساری ہیں

محرم میں مسلمان احتراماً شادی بیاہ کا کام کر تو لیتے ہیں مگر دھوم دھڑکا کم ہی ہوتا ہے۔ ماہ صفر میں شادی بیاہ کو ویسے ہی منحوس سمجھا جاتا ہے۔ ان سطور کے لکھنے کی ایک وجہ بھی یہی ہے۔ سوال ہیں جو پوچھے جاتے ہیں

ماہ صفر میں شادی کیوں نہیں کرنی چاہیے۔ ماہ محرم الحرام کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر صفر کا سلسلہ سارے مہینوں سے جدا ہے . جتنی بدشگونیاں اور جتنے غلط عقائد اس ماہ سے وابستہ ہیں اتنے اسلامی سال کے گیارہ مہینوں میں کسی ایک سے بھی نہیں۔

ماہ محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جبکہ صفر المظفر دوسرا۔ اس سے نحوست کی جتنی باتیں مشہور ہیں، ان کی اصلیت کا کسی کو بھی علم نہیں مگر اس کو منحوس قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: بے شک اللہ تعالیٰ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ ہی ہے۔ ان بارہ مہینوں میں چار ماہ رجب، ذوالقعدہ، ذوالحج اور محرم حق تعالیٰ نے حرمت کے مہینے قرار دیے۔ ان چار ماہ میں عرب کسی قسم کی لڑائی قتل و غارتگری سے دور رہتے۔ کسی کی گالی کا جواب تک دینا حرام سمجھا جاتا۔ ان چار ماہ کی حرمت کا حکم بھی عجیب شان لیے ہوئے ہے۔

خالق کو اپنی تمام مخلوقات کی عادات کا علم ہے۔ عربوں میں خلوص، ایثار اور سخاوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کی ایک مثال حرمین شریفین کی میزبانی ہے۔ لاکھوں زائرین عمرہ کرتے اور حج کی سعادت حاصل کرتے لیکن پوری خوش دلی کے ساتھ۔ اعزاز سمجھتے ہوئے گھر کی تقریب میں چار مہمان زیادہ آجائیں تو انتظام مشکل ہوجاتا ہے یہ عربوں کی ایثار سخاوت کی صفت ہی ہے جو پوری دنیا کے لوگوں کے یہ دل وسیع کرتے،

بہرحال خلوص کی دولت ان سے بھی گراں قدر تھی جنہوں نے اخلاص کے ساتھ کلمہ پڑھا وہ صحابہ کرامؓ بن گیے۔ ابو بکر، عمر، عثمان اور حیدر کرار بن گیے اور جنہوں نے یہ کلمہ نہیں پڑھا وہ بھی کفر میں مخلص رہے اور ابولہب، ابو جہل ہی رہے ان سب خوبیوں کے ساتھ ان کے اندر بدترین عادت بات بات پر لڑائی جھگڑے کی تھی۔ چھوٹی چھوٹی سی بات پر شروع ہونے والی لڑائیاں نسلوں تک جاتیں اور صدیاں ہضم ہوجاتیں۔ مولانا الطاف حسین حالی نے مسدس میں اس کی بہت ہی شاندار نوشی کشی کی ہے

کبھی پانی پینے پلانے پر جھگڑا
کبھی گھوڑا آگے بڑھانے میں جھگڑا

جنگ بعث کس معمولی سی بات پر شروع ہوئی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والا معمولی طالب علم بھی جانتا ہے تو اتنی بے مثال خوبیاں رکھنے والی قوم کو اگر ان چار ماہ کا اسپیڈ بریکر نہ لگایا جاتا تو یہ قوم بیس تیس سال میں ہی آپس میں مر مرا کے ختم ہوجاتی۔

یہ حرمت کے چار ماہ تو وہ جیسے تیسے گزار لیتے مگر چار ماہ کے بعد جب صفر کا مہینہ شروع ہوتا تو نیام سے تلواریں نکل آتیں اور چار ماہ میں جمع شدہ باتوں کا حساب کتاب پورا کردیا جاتا۔

صفر کی پہلی شام سے پہلے ہی کسی گھر میں شوہر کی لاش آتی تو کہیں قتل غارت گری میں باپ بچوں کو یتیم کر جاتا تو کہیں کڑیل بھائی بہنوں کو روتا چھوڑ جاتے۔ ہر سال صفر کی پہلی تاریخ کو کشتوں کے پشتے لگتے اور یہ کہاوت زبان زد عام ہوگئی کہ صفر کا تو مہینہ ہی منحوس ہے۔ اور جب کوئی چیز منحوس قرار دے دی جائے تو اس میں کون سی خوشی یاد رہتی ہے۔
یہ ہے اصلیت اس غلط العام عقیدے کی، جو عوام الناس میں مشہور ہے۔

ہمارے نبی اکرمؐ زندگی کے ہر مرحلے کی اصلاح کر کے گئے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اس موضوع پر کوئی تعلیم نہ دیتے۔ آپؐ نے فرمایا:کوئی بیماری یا متعدی مرض اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا، نہ ستارہ تقدیر کی خبر دیتا ہے، نہ اُلو منحوس ہے نہ صفر کے مہینے کی کوئی حقیقت ہے اور نہ ہی بدشگونی لینا جائز ہے۔ (مشکوۃ المصابیح)

اور باقی رہی بات تیرہ تاریخ کے منحوس ہونے کی یا اس ماہ کے آخری بدھ کی تو اس میں تو ویسے ہی تضاد ہے۔ ایک طبقہ اس ماہ کی آخری بدھ کو شیرینی تقسیم کرتا ہے اس روز غسل کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور روزہ رکھا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت یہ بتائی جاتی ہے کہ ماہ صفر کی آخری بدھ کو نبی اکرمؐ شفا یاب ہوئے تھے اور انہوں نے غسل صحت فرمایا تھا اسی خوشی میں وہ تبرک تقسیم کرتے ہیں۔ یہ بھی من گھڑت ہے اس کی اصل بھی یہ ہے کہ اس روز نبی اکرمؐ کی بیماری یعنی مرض موت کا آغاز ہوا تھا اور بدبخت یہودیوں نے اگلے سال خوشی میں شیرینی بانٹی۔ جس کو سادہ لوح مسلمانوں نے عبادت کا درجہ دے دیا۔

دوسرا طبقہ بالکل ہٹ کے ہے وہ مہینے کے آخری بدھ کو منحوس سمجھتے ہیں، اس دن سفر پر نہیں جاتے اس روز شادی نہیں کرتے اور کوئی نیا کاروبار شروع نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں چونکہ اس روز رسول اللہؐ کی بیماری کا آغاز ہوا تھا تو یہ دن منحوس ہے۔

یہ سب دور جاہلیت کے رسم و رواج ہیں اگر بالفرض ان میں کوئی حقیقت ہو بھی تو اسلام پچھلے رسم و رواج کی اصلاح کے لیے آیا ہے۔ آپؐ کا اسوہ حسنہ ہمارے لیے قابل تقلید ہے۔ پچھلی چیزوں کی آپ کی تعلیمات کے بعد مکمل نفی ہو جاتی ہے۔ انہی باتوں میں مزید باتیں شامل ہوتی گئیں اور پورے ماہ صفر کو بدشگونی سمجھ لیا گیا عوام الناس اس ماہ میں شادیاں نہیں کرتے۔ قرآن خوانی کرواتے ہیں، بلائیں ٹالنے کے لیے اس کی تیرہ تاریخ کو (تیرہ رازی) آٹے کی تین سو پینسٹھ گولیاں بنا کے تالاب یا نہر میں پھنکواتے ہیں۔ گندم ابال کر محلے میں تقسیم کرتے ہیں۔ حالانکہ نبی اکرمؐ نے اس ماہ کی بدشگونی لینے یا اسے منحوس قرار دینے سے منع کردیا ہے۔

آپؐ نے بہت سے غزوات اس ماہ میں لڑے اور ہجرت جیسا عظیم المرتبت کام بھی اسی ماہ میں ہوا۔ اگر اس ماہ میں سفر منحوس ہوتا تو ہجرت کا سفر کیوں اسی ماہ میں کروایا جاتا۔

ان کے علاوہ بھی جو روایتی کہانیاں اس ماہ سے منسوب کی جاتی ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں۔

اسلام دین فطرت ہے جس چیز یا رسم کو وہ قبل از اسلام سے ہوتے پاتا ہے اور اس میں عوام کے لیے کسی بھی صورت نقصان ہے تو وہ نبی اکرمؐ کے زریعے اس کو ختم کروا دیتا ہے اور جس میں کوئی قباحت نہیں بے ضرر پاتا ہے اس میں ردوبدل نہیں کرتا۔ قبل از اسلام شادی پر دولہا اور دولہن کو بٹھا کر دعا دی جاتی تھی : ’’بیٹے پیدا ہوں اور خوب محبت ہو‘‘۔

بظاہر اس دعائیہ کلمے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن قیامت تک غالب رہنے والے دین برحق نے اس نکتہ برابر رسم کی بھی اصلاح کردی اور آپؐ کے چچا زاد بھائی ابو عقیل بن طالب کا نکاح ہوا تو سب دعا دینے لگے تو آپ نے روک دیا۔ بس بس یوں نہ کہو بلکہ یوں کہو: ’’اللہ تجھے برکت دے اور تیرے لیے تیری بیوی کو بابرکت کرے‘‘۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ شادی کا مقصد قبل از اسلام نسل کی افزائش تھا اسلام نے اسے برکتوں کے حصول کی طرف موڑ دیا

نحوست کا متضاد برکت ہے۔ اسلام نے یہ بات ذہن نشین کروادی کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں برکت اور عدم اطاعت میں نحوست ہے۔ اگر صاحب ایمان ہے تو آزمائش میں ڈال دیا جائے تو بھی راضی برضا اور اگر ایمان نہیں تو روزکے تین سو پینسٹھ آٹے کے پیڑے بھی دریا میں پھینک دو۔ ہونا تو وہی ہے جو رب نے لکھ دیا

تمام محدثین اور ائمہ کرام اس پر متفق ہیں کہ صفر سے متعلق تمام روایات من گھڑت ہیں، اس کے بعد طریقہ صرف آپ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کا رہ جاتا ہے جو عقیدہ، عمل، عبادات، معاملات سب کی درستگی کا ہے۔
شیطان کی پیروی کی بھی بہت سی صورتیں ہیں جن میں سے ایک اس طرح کے عقائد کی تشہیر ہے اللہ سب پر رحم فرمائے۔

                                                                                                                                                    قانتہ رابعہ


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا