بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگی عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
اکبر الٰہی آبادی نے یہ اشعار 19 صدی میں کہے تھے مگر واقعی اب تو یہ ہی لگتا ہے کہ پردہ تو مردوں کی عقل پہ پڑ گیا ہے ان کو کچھ نظر آتا ہی نہیں ہے۔
جس طرف نظر اٹھا کر دیکھیں بے حیائی کا ایک سمندر ہے،بازاروں کو لیں یا کسی شادی کی تقریب کو گھر کے مردوں کے ساتھ چلتی خواتین لڑکیاں اپنا حلیہ آپ بیان کرتی ہیں
باپ یا بھائی بیٹی/ بہن کو گوچنگ ہی چھوڑنے جا رہے ہو ں تو بیٹی گلے میں دوپٹہ ڈالے بال کھولے اونچی قمیض تنگ پاجامہ، بیسیوں نگاہیں اس کا پوسٹ مارٹم کریں مگر باپ کو اس کی کوئی فکر نہیں، فکر ہے تو بس اس کی کہ اعلی تعلیم حاصل کر لے یا پھر کسی اچھے گھرانے میں رشتہ ہوجائے کچھ یہی حال شادی کی تقاریب کا ہے جس میں پورا خاندان شرکت کرتا ہے اور جس حال میں خواتین اور بچیاں شرکت کرتی ہیں وہ مہذب تو نہیں کہلاسکتے۔
ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ یا تو بچے بہت زیادہ ماڈرن ہو گئے ہیں یا پھر باپ دادا بے حیائی کی طرف مڑ گے ہیں کہ ان کو اپنے ساتھ چلتی عورت نظر نہیں آتی وہ کسی بھی حلیے میں چلے اس مرد کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس میں حیا عورت کی نہیں مرد کی ہی ختم ہوگئی ہے ۔عورت تو وہ ہے جس سانچے میں چاہو ڈھل جائے اگر ایک باپ یہ کہے کہ اسکی بیٹی ساتر کپڑے پہنے بغیر اس کے ساتھ نہ چلے گی اگر ایک بھائی یہ منع کر دے کہ جب تک تم اپنے آپ کو عبایا میں نہ لو تو میں تمہیں لے کر نہیں جاؤنگا
اگر ایک شوہر یہ کہہ دے کہ تم اس وقت تک میرے ساتھ باہر نہ نکلو گی جب تک تمھارا چہرا ڈھکا ہوا نہ ہو تو کیا مجال کہ عورت ان کی بات نہ مانے ۔
اللہ نے تو مرد کو قوام بنایا ہے مرد حاکم ہے اور ایک حاکم اپنی رعیت کو اگر اپنی مرضی سے ہی نہ چلائے تو وہ حاکم ہی کیا
سوچیں یہ مقام تو سوچنے کاہے اور مردوں کے وقار کا!!!۔
عائشہ جلال
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا