چلیں ہم امریکا سے شروع کرتے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے موجودہ صدر ہیں انھوں نے صدر منتخب ہونے سے پہلے ایک امریکی ٹی- وی کو انٹرویو دیا اور اپنی بیٹی کے حسن پر تبصرہ کرتے ہوئے بولے ” اگر یہ میری بیٹی نہ ہوتی تو میں ضرور اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا‘‘ اور ساری محفل گویا زعفران بن گئی۔ امریکا اس وقت ”ریپ زدہ‘‘ ممالک میں سر فہرست ہے۔ نیشنل وائلنس کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں ہر چھ میں سے ایک عورت اور ہر تینتیس میں سے ایک مرد جنسی زیادتی کا شکار ہے اور یہ درج ہونے والے مقدموں کا سولہ فیصد ہے۔ جنوبی افریقا کو دنیا میں ”ریپ کا دار الحکومت‘‘ کہا جاتا ہے۔ صرف 2012 میں 65000 سے زیادہ جنسی تشدد کے واقعات پیش آئے۔ میڈیکل ریسرچ کونسل کی تحقیقات کے مطابق دنیا میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا سب سے زیادہ اوسط جنوبی افریقا میں ہی ہے آپ جنت نظیر اور دنیا کی ہر عیاشی سے مالا مال سوئیڈن کو لے لیں جہاں ہر چوتھی خاتون یا لڑکی ”ریپ شدہ‘‘ ہے۔ صرف 2009 میں 15700 خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہ تعداد 2008 کے مقابلے میں آٹھ فیصد زیادہ ہے۔ پچھلے دس سالوں میں سوئیڈن میں جنسی تشدد کے واقعات میں 58 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ آپ نام نہاد اور سیکولر ریاست کا راگ الاپنے والے بھارت کی بات کرلیں جہاں ہر بائیس منٹ پر ایک عورت جنسی تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہے اور کبھی اپنے بھائی، باپ یا رشتے داروں کے ہاتھوں ہی یہ کارنامہ سر انجام پاتا ہے۔ نیشنل کرائم رپورٹ بیورو کی رپورٹ کے مطابق صرف 2012 میں 24923 خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی جن میں سے 24470 کو ان کے اپنے ہی رشتے داروں یا پڑوسیوں نے نشانہ بنایا، یاد رہے بھارت دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں مردوں کی تعداد خواتین سے زیادہ ہے کیونکہ روزانہ سینکڑوں بچیاں دوران حمل یا پیدائش کے فوراََ بعد مار دی جاتی ہیں۔ برطانیہ اور جرمنی جنسی زیادتیوں کے حوالے سے سخت پریشان ہیں کیونکہ برطانیہ کی ہی وزارت انصاف کے مطابق 2013 میں 85000 خواتین کی عصمتیں زبردستی پامال کی گئیں۔ برطانیہ میں ہر پانچویں عورت اپنی عزت سے ہاتھ دھو چکی ہے اس معاشرے میں خواتین کی کتنی ”عزت‘‘ ہے اس کے لئے آپ یو آن ریڈلے کی کتاب ”ان دی ہینڈز آف طالبان‘‘ پڑھ لیں۔ فرانس میں صرف 10 فیصد شکایتوں کے مطابق ایک سال میں 75000 خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کیونکہ ہم بھی ان ہی تمام اقوام کی ذہنی اور عملی غلامی کا شکار ہیں اس لیے پچھلے سال سات سو سے زیادہ واقعات پاکستان میں بھی ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جانوروں سے زیادہ جنسی خواہشات کی آذادی دئے جانے کے باوجود یہ سب کیوں؟ آپ ”نچ پنجابن نچ‘‘، منی کی بدنامی، شیلا کی جوانی، کیرکٹر ڈھیلا اور ”اچھی باتیں کرلیں بہت اب کرونگا گندی بات تیرے ساتھ‘‘ کرتے رہیں، ” ساری نائیٹ بے شرمی اپنی ہائیٹ کو چھوتی رہے‘‘ ۔ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر رات تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر ٹی – وی چینل پر سوائے بے ہودگی اور بدمعاشی کے اور کونسا ڈھنکا کام وقوع پذیر ہو رہا ہے؟ پہلے آپ معصوم بچیوں کو قندیل بلوچ بنائیں پھر اسکا قتل کروائیں، اس پر ماتم کریں اور پھر ڈرامے بنا کر اس کو ”مادر ملت‘‘ بنا دیں۔ تمام کے تمام ٹی – وی چینلز سوائے عاشقی معشوقی، اس کی لڑکی اس کے ساتھ اور اس کی بیوی فلاں کے ساتھ بھاگنے کے ڈرامے دکھائیں۔ لباس کو تنگ سے تنگ اور چھوٹے سے چھوٹا کر کے ملک کے نوجوانوں کو ہوس زدہ اور حواس باختہ کردیں۔ اس کے بعد 4 روپے 99 پیسے میں لگے رہو ساری رات کے اشتہارات چلائیں۔ ایسے شاندار اور اخلاق یافتہ اشتہارات جس میں فون پر بات کر کر کے لڑکے کے کان تک پر نشان پڑ جائے۔ اور پھر شادی کو مشکل ترین کر کے ”گرل فرینڈ‘‘ کو آسان بنادیں۔ میرے ایک دوست ترکی گئے اور آکر بتانے لگے ترکی میں سم پاکستانی چار ہزار روپے کی ہے۔ بے حیا بنانے اور اخلاق باختہ کرنے کے لئے آپ کو میرے ملک کے ہی نوجوان ملے تھے؟ آپ ساحر لودھی، شائستہ واحدی اور وینا ملک سے ”رمضان ٹرانسمیشن‘‘ کروائیں۔ فہد مصطفی سے شرم اور حیا کا جنازہ نکلوائیں۔ خواتین اور بچیوں سے ہر بے شرمی کا کام کروانے والے وقار زکا کو سر پر بٹھائیں، لفظ مولوی کو گالی بنا کر دین، اسلام، مذہب اور قرآن کو اپنے میڈیا، شوبز حتی کے تعلیمی اداروں تک سے نکال کر باہر پھینک دیں اور پھر انتظار کریں کوئی حسن بصری اور امام بخاری پیدا ہوجائیں۔ ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، ہم پاگلوں کے دیس کے باسی ہیں۔ یاد رکھیں جب تک آپ زنا کی سزا ”رجم‘‘ اور 100 کوڑے نہیں رکھتے ہیں، شادی کو آسان اور زنا کو مشکل نہیں کرتے ہیں، حلال کو آرام دہ اور حرام کو دشوار نہیں کریں گے یہ واقعات مسلسل ہوتے رہیں گے۔ قرآن کے نظام میں برکت ہے، شریعت میں عزت ہے، آپ ہر چوک اور چوراہے پر بھی کیمرہ لگادیں تب بھی یہ سلسلہ نہیں رُکے گا۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ سوائے اسلامی نظام کے نفاذ کے اور کوئی دوسرا راستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اب یہ طے کرنا قوم کا کام ہے کہ قرآن کی برکتیں درکار ہیں یا پھر کوئی اور زینب۔ اور ہاں زینب ہمیں تنگ مت کرو! ہم مردہ قوم ہیں، بے ضمیر اور بے حمیت معاشرے کے لوگ ہیں۔ اور ہاں ابھی میرے ملک کے نوجوانوں کو نجانے کتنی لڑکیوں کی فوٹوز کو فیوی کول سے سینے سے چپکانا بھی ہوگا۔ اس لیے خدارا تم ہمیں معاف کردو۔
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا