اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو فضیلت بخشی اور اشرف المخلوقات کے درجے سے نوازا۔ اسے عقل وشعور کی دولت دی، اچھے برے کی تمیز سکھائی اور دنیا میں رہنے کا ایک مکمل نظام بھی عطا فرمادیا۔ اس کے مقابلے میں دیگر مخلوقات کو دیکھیں تو ہمیں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ یہ انسان ہی ہے جس کو خالق نے اتنے بڑے رتبے سے نوازا ہے۔ انسان کے اسی مرتبے اور مقام کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر خالق نے کئی ذمے داریاں بھی عائد کی ہیں۔ اگر ان ذمے داریوں کو مختصر بیان کیا جائے تو یہ دو طرح کی ذمے داریاں ہیں، ایک وہ جن کا تعلق براہِ راست خالق سے ہے، دوسری وہ جن کا تعلق مخلوق سے ہے۔ اول الذکر کو حقوق اللہ اور ثانی الذکر کو حقوق العباد کہتے ہیں۔ اس تقسیم کے بعد خالق نے خود ہی فرمادیا کہ میں اپنے حقوق تو اپنی قدرت اور احسان سے معاف کرسکتا ہوں لیکن مخلوق کے حقوق کی معافی کا اختیار میں نے اسے ہی دیا ہے، وہ چاہے تو معاف کرے، چاہے تو نہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ خالق نے مخلوق پر ایک اور مہربانی کرتے ہوئے اسے معاف کرنے کی رغبت دلائی اور فرمایا کہ چونکہ میں بھی معاف کرنے والا ہوں، اس لیے مجھے معاف کرنے والے بندے پسند ہیں۔ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کو معاف کرے گا اس کے لیے اجرِ عظیم کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ یہ اللہ کا انسان پر رحم وکرم ہی ہے کہ خطا کار کو معاف کرنے سے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، وہیں معاف کرنے والے کے اجر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ یعنی فائدہ بہرصورت انسان کا ہی ہے۔ اور اگر کوئی بدلہ لینے پر بضد ہو تو اس کو فرمایا کہ اتنا ہی بدلہ لیا جائے جتنا سامنے والے نے کیا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ طاقت یا غصے کی وجہ سے تم زیادتی کر بیٹھو۔ پھر زیادتی کرنے والے کو بھی سخت تنبیہ فرمائی کہ اگر اس معاملے میں زیادتی کی تو تمہیں بھی اس کا حساب دینا ہوگا اور اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی خدمت کو اعلیٰ وصف قرار دیا۔ قرآن مجید میں جنتیوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’(جنتی لوگ)اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور اُن سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کِھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔‘‘ (الدھر 8۔9)
یقینا کھانا کھلانا ایک اہم اور بنیادی خدمت ہے۔ لیکن یہاں صرف کھانا کھلانا مقصود نہیں، بلکہ انسان کی تمام بنیادی ضروریات کی تکمیل ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیت کا وسیع مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اگرچہ بجائے خود کسی غریب کو کھانا کھلانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے، لیکن کسی حاجت مند کی دوسری حاجتیں پوری کرنا بھی ویسا ہی نیک کام ہے جیسا بھوکے کو کھانا کھلانا۔ مثلاً کوئی کپڑے کا محتاج ہے، یا کوئی بیمار ہے اور علاج کا محتاج ہے، یا کوئی قرض دار ہے اور قرض خواہ اسے پریشان کررہا ہے، تو اس کی مدد کرنا کھانا کھلانے سے کم درجے کی نیکی نہیں ہے۔ اس لیے اس آیت میں نیکی کی ایک خاص صورت کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے بطور مثال پیش کیا گیا ہے، ورنہ اصل مقصود حاجت مندوں کی مدد کرنا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن)
اسی لیے انسان کو اس بات کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے حقوق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کرے، کہیں ایسا نہ ہو کہ خالق کے حقوق کی ادائیگی میں مخلوق کو یکسر بھول جائے۔ آخرت میں انسان کی کامیابی صرف حقوق اللہ کی ادائیگی پر ممکن نہیں، وہاں تو انسان کی پوری زندگی کا سوال ہوگا۔ اور اس سوال جواب میں حقوق اللہ کے ذریعے کمائی گئی نیکیوں میں کمی کا سبب بھی یہی حقوق العباد ہوں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی پیسہ اور دنیا کا سامان نہ ہو‘‘۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا، تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حق داروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے، اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ (مسلم)
اشفاق احمد (بابا جی) نے اپنے سفرنامے ’’سفر در سفر‘‘ میں اپنا ایک واقعہ لکھا ہے:
’’لاہور میں جب میں نے ایک بابا سے کہا کہ میں صوفی بننا چاہتا ہوں، تو انہوں نے پوچھا کس لیے؟ میں نے کہا: اس لیے کہ یہ مجھے پسند ہے۔ آپ نے کہا: مشکل کام ہے سوچ لو۔
میں نے عرض کیا: اب مشکل نہیں رہا کیوں کہ اس کی پرائمری اور مڈل پاس کرچکا ہوں۔
٭پاس انفاس (سانسوں کی آمد و رفت) میں نفی اثبات کا ورد کرلیتا ہوں۔
٭اسم ذات ( اللہ ہُو) کے محل کی بھی پریکٹس ہے۔
آگے کے راستے معلوم نہیں وہ آپ سے پوچھنے آیا ہوں اور آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔
بابا نے ہنس کر کہا: تو پھر تم روحانی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہو، صوفی بننا نہیں چاہتے ہو۔
میں نے کہا کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟
کہنے لگے: روحانی طاقت حاصل کرنے کا مقصد صرف خرق عادات یعنی کرامات کا حصول ہے۔ اور یہ طاقت چند مشقوں اور ریاضتوں سے پیدا ہوسکتی ہے، لیکن تصوف کا مقصد کچھ اور ہے۔
وہ کیا؟ میں نے پوچھا تو بابا نے کہا: تصوف کا مقصد خدمتِ خلق اور مخلوقِ خدا کی بہتری میں لگے رہنا ہے۔ مخلوقِ اللہ سے دور رہنا رہبانیت ہے، اور اللہ کی مخلوق میں اللہ کے لیے رہنا یہ پاکی ہے اور دین ہے۔
مجھے اس بابا کی یہ بات اچھی نہ لگی۔ بے چارہ پینڈو بابا تھا اور اس کا علم محدود تھا۔
میں اٹھ کر آنے لگا تو کہنے لگا: روٹی کھا کر جانا۔
میں نے کہا: جی کوئی بات نہیں، میں ساہیوال پہنچ کر کھا لوں گا۔
کہنے لگا: خدمت سعادت ہے، ہمیں اس سے محروم نہ کرو۔
میں طوعاً و کرہاً بیٹھ گیا۔ بابا اندر سے رکابی اور پیالی لے آیا۔ پھر اس نے دیگچے سے شوربہ نکال کر پیالی میں ڈالا اور دال رکابی میں، چنگیر سے مجھے ایک روٹی نکال کر دی جسے میں ہاتھ میں پکڑ کر کھانے لگا۔ وہاں مکھیاں کافی تھیں۔ بار بار ڈائیو لگا کر حملے کرتی تھیں۔
بابا میرے سامنے بیٹھ کر مکھیاں اڑانے کے لیے کندوری ہلانے لگا اور میں روٹی کھاتا رہا۔ اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی۔ کونے میں اس کے مریدوں اور چیلوں نے تھوڑی سی جگہ لیپ پوت کرکے ایک مسجد سی بنا رکھی تھی۔ وہاں دس بارہ آدمیوں کی جماعت کھڑی ہوگئی۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی ندامت ہوئی کہ میں روٹی کھا رہا ہوں اور پیر مکھیاں جھل رہا ہے۔ میں نے کہا: بابا جی آپ نماز پڑھیں۔ کہنے لگے: آپ کھائیں۔
میں نے کہا: جی مجھے بڑی شرمندگی ہورہی ہے، آپ جا کر نماز پڑھیں۔
مسکرا کر بولے: کوئی بات نہیں، آپ کھانا کھائیں۔
تھوڑی دیر بعد میں نے پھر کہا: جناب عالی، انہوں نے نیت بھی باندھ لی ہے، آپ نماز ادا کرلیں قضا ہو جائے گی۔
بابا ہنس کر بولے: ’’نماز کی قضا ہے بیٹا، خدمت کی کوئی قضا نہیں۔ آپ آرام سے روٹی کھائیں…‘‘
ایک صاحب نے حج کا واقعہ سنایا کہ دورانِ حج ایک ضعیف العمر شخص بیمار ہوگئے۔ ہم نے ان کی خدمت کی، لیکن وہ صحت یاب نہیں ہورہے تھے۔ ان کی خدمت کے دوران ہمیں محسوس ہوا کہ ہماری عبادات میں خلل واقع ہورہا ہے، یہ سوچ کر ہم نے ان کی خدمت میں کمی کردی۔ لیکن اس خدمت میں ایک اور صاحب اور ان کے ایک جوان صاحبزادے بھی تھے، ان صاحب کا یہ 33 واں حج تھا، ایک عرصے سے حج کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ وہ صاحب اور ان کے صاحبزادے ان بزرگ کی برابر خدمت کرتے رہے، حتیٰ کہ ہم نے دیکھا کہ ان کی نمازیں تک قضا ہونے لگیں۔ اس پر ہم نے ان صاحب سے اس عمل کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں تو ہر سال حج کے موقع پر خدمت کرنے آتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ مجھ سے ایک عرصے سے یہ خدمت لے رہے ہیں۔
اللہ والوں کی ہمیشہ سے خاص خصلت رہی ہے کہ وہ اس کے بندوں سے بے پناہ اور بے غرض ہوکر محبت کرتے ہیں، ان کا ہر عمل کسی بھی نمود و نمائش یا غرض سے خالی ہوتا ہے۔ ان کا مطمح نظر صرف اور صرف ر ب کی رضا ہوتی ہے، اور اس کے لیے انہوں نے انسانیت کی خدمت کا راستہ اپنایا ہوتا ہے، بندوں کے ذریعے بندوں کے رب تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جو رب کو پالیتا ہے اس کے سامنے انسانیت کا مقام و مرتبہ اتنا ہی واضح ہوجاتا ہے۔ آج کا انسان ہر حال میں بہت پریشان ہے۔ مالدار بھی اتنا ہی پریشان ہے جتنا غریب… لیکن دونوں کی پریشانیوں کا حل خالق نے ایک دوسرے کے پاس رکھا ہے۔ مالدار جب اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو خالق غریب کی دعاؤں سے اس کے مسائل حل کردیتے ہیں، اور اس طرح غریب کے مسائل بھی حل ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے رب کے مزید قریب تر ہوتا جاتا ہے۔
عابد علی جوکھیو
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا