اقبال کا کھونا تھا کہ ہم کیا سے کیا ہو گئے؟؟ جب تک جستجو کے سفر میں ہم ان کے ساتھ تھے اپنی کھوئی ہوئی ہستی کا سراغ پاتے رہے۔ وہ ستاروں سے آگے کے جہانوں کی دعوت دیتے تو ان دنیائوں کی تلاش میں زمین سے قدم اکھڑنے لگتے تب اقبال واپس افکار کی دنیا میں کھینچ لاتے کہ لازم ہے ستاروں کی دنیائوں کے متمنی پہلے اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنا سیکھیں…!! ہم نہ شاعر نہ فلسفی کہ فکر اقبال پر بات کر سکیں شاعر تو پیدا ہوتے ہیں سو وہ ہم نہ ہو سکے، رہا فلسفہ پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو والد صاحب نے کہا ’’فلسفہ پڑھ کر لوگ ملحد ہو جاتے ہیں‘‘ سو اس مضمون کو اختیار نہ کر سکے۔ لہٰذا ہماری اقبال فہمی اسکول کی اسمبلی میں پڑھی ہوئی ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری… کے اردگرد ہی گھومتی ہے۔ بے سوچے سمجھے نو عمری میں پڑھی جانے والی یہ دعا اقبال سے ایک نہ ختم ہونے والا روحانی تعلق پیدا کردیتی ہے۔ ستّر کی دہائی میں آسمانی فراک اور سفید شلوار میں ملبوس ہمارا گورنمنٹ اسکول کا میدان، ہر صبح اسمبلی میں جب سینکڑوں طالبات ہم آواز ہو کر ’’لب پہ آتی ہے دعا‘‘ پڑھا کرتی تھیں تو بیشتر نہ تو ’’لب‘‘ کا مطلب سمجھتی تھیں نہ تمنا کا۔ گورنمنٹ اسکولوں میں قومی ترانے سے پہلے یہ دعا لازمی پڑھی جاتی تھی۔ اس وقت اسکول سرکاری ہی ہوا کرتے تھے۔ چند نامی گرامی انگلش اسکول تھے مگر وہاں خواص کے بچے ہی پڑھتے تھے، ہم عوام الناس پیلے اسکولوں کی چار دیواری سے ہی سنِ شعور کو پہنچے…!!! چار عشرے قبل اجتماعی طور پر ہر روز پڑھی جانے والی یہ دعا اب بھی ہماری سماعتوں کے تہہ خانے میں محفوظ ہے۔ ایک ہی بات کو آپ لاشعوری طور پر بھی بار بار دہرائیں تو وہ آپ کے شعور کا حصہ بن جاتی ہے۔ اقبال کا سارا کلام ایک طرف جس میں انہوں نے اسلام کو مذہب کے بجائے تحریک اور مکمل تہذیب کی شکل میں شعر کے آبگینوں میں ڈھال دیا۔ اسلامی روایات اور قدروں کو نیا اور وسیع تر مفہوم عطا کیا۔ وہ چونکہ بنیادی طور پر فلسفی تھے اس لیے دنیا کی تاریخ اور فلسفے پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ انہوں نے امت کی زبوں حالی کا جب تجزیہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ معرکہ مادہ پرستی اور خدا پرستی کا ہے جسے انہوں نے معرکہ روح و بدن کہہ کر مغربی تہذیب کا بھی پوسٹ مارٹم کیا۔ صرف نوحہ گری نہیں کہ بلکہ دنیا کی محفل میں اسٹیج پر اپنا مقام بنایا اور اس اسٹیج سے دنیا کو پیغام دیا کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور اس کا سچا پیغام ساری انسانیت کے لیے ہے۔ دوسری جانب انہوں نے مسلمانوں کو ان کا شان دار ماضی یاد دلا کر ان میں عقابی روح بیدار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اقبال کی فکر، فلسفے اور ان کی خدمات پر تو اقبال شناس اور دانشور گفتگو کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ اقبال ڈے پر ہر سال مختلف مذاکروں، سیمیناروں، پانچ ستارہ ہوٹلوں، آرٹس کو نسلوں اور ٹی وی کے چینلز پر یہ گفتگو ہوتی ہے کہ اگر فکر اقبال کے جزوی اثرات بھی معاشرے پر ہوتے تو ہم جہالت، افلاس، مالی اور اخلاقی کرپشن، غیر ملکی قرضوں، معاشی انحطاط، عصبیتوں کے پر چار، سیاست کی چنگیزی اور قیادت کے فقدان کا شکار نہ ہوتے۔ جتنے بڑے منہ اتنی بڑی بڑی باتیں، ان کی یوم پیدائش و وفات ہی وہ ایام ہوتے ہیں جب ہم ان کی بازیافت کی جستجو میں نکلتے ہیں اور پھر سارا سال فکر اقبال کو تھپک تھپک کر سلاتے رہتے ہیں۔ گاہے بہ گاہے لوگ فاتحہ خوانی کے لیے ضرور ان کے مزار کا رخ کرتے ہیں اور پھول ان کی قبر پر رکھ کر ان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم آپ کو بھولے نہیں ہیں۔ ہاں کچھ پھول لے جانے والے واپس پلٹتے ہوئے آنسوئوں کا تحفہ ساتھ لاتے ہیں… پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں قبر اقبالؔ سے آرہی تھی صدا یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں ہم نہ اقبال شناس نہ دانشور بچپن میں اقبال سے جو تعارف اسکول کی اسمبلی میں گھٹّی میں پڑا وہ زندگی بھر چونکاتا رہا۔ بار بار ملامت کرتا رہا۔ ضمیر کی چبھن بن کر ساتھ رہا کہ بچپن میں اسکول کی چار دیواری میں جب ہاتھ اٹھائے تھے اور مانگا تھا کہ: لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت کوئی معمولی تو نہ تھے زبان سے ادا کیے جانے والے یہ الفاظ۔ یہ ضرور ہے کہ سولہ برس کے زمانۂ طالب علمی میں شاید ہی کبھی کسی استاد نے کمرۂ جماعت میں بتایا ہو کہ لب پہ آنے والی دعائیں دراصل تمنائیں ہوتی ہیں۔ ہماری زندگی ہماری تمنائوں کے دائروں میں حرکت کرتی ہے جتنی عظیم تمنا ہو گی زندگی اتنی ہی متحرک ہو گی اس لیے کہ بڑی تمنائوں کے حصول بڑی جہد اور سعی کے طالب ہوتے ہیں۔ اقبال صرف تمنائوں کو لبوں تک ہی نہیں لے آئے بلکہ واضح کیا کہ تمنا در حقیقت کہتے کسے ہیں۔ اور تمنائیں کیا ہونا چاہئیں ایک زندہ دل کی… اس سے پیاری بھی کوئی تمنا ہو سکتی ہے کسی مسلمان دل کی کہ اس کی زندگی شمع کی مانند روشن ہو۔ جب شمع جلتی ہے، کرب سہتی ہے تب اجالا ہوتا ہے اور دنیا کے اندھیرے دور ہوتے ہیں، تب اجالے پھیلتے ہیں جب اپنے خون کو پسینہ کیا جاتا ہے جب اپنا آپ بڑے انسانی ہمدردی کے مشن میںلگایا جاتا ہے۔ جس طرح پھول زینت ہوتے ہیں ہر آنکھ کو بھلے لگتے ہیں ہر ایک اپنے کردار کی بلندی اور عمل پیہم سے اس پھول جیسی حیثیت اختیار کر سکتا ہے سماج کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن سکتا ہے۔ زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو رہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو اگر اسکول کی عمر کے بچے کو شمع اور پروانے کا تعلق سمجھا دیا جائے کہ انسان کی حیثیت بنیادی طور پر پروانے کی ہے۔ وہ زندگی بھر اپنے طے کردہ ہدف کے حصول کے لیے ہی جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ اگر علم کا حاصل کرنا زندگی کا مقصد ہو اور زندگی اس علم نافع کے لیے وقف ہو جائے تو علم کی شمع ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کے سب اندھیرے دور کرنے کے لیے کافی ہے۔ جب علم سے انسان کو رفاقت نصیب ہوتی ہے تو اس کا قلب قلبِ سلیم بن جاتا ہے۔ پھر وہ غریبوں کا دکھ محسوس کرنے لگتا ہے، ان کی مدد اور حمایت پر کمربستہ ہو جاتا ہے اور کتنا پیارا ہے وہ درد مند دل جس میں کمزوروں اور ضعیفوں کی محبت ہو۔ اقبال غریبوں اور دردمندوں کی حمایت و محبت کو ایک عزم کی صورت دل میں پیوست کرا رہے ہیں۔ اپنے ذاتی مفاد اور ذاتی کامیابیوں کے گرد جو زندگی گھومتی ہے وہ ایک مسلمان کی زندگی نہیں ہو سکتی۔ انسانی زندگی کی معراج یہی ہے کہ گرتے ہوئوں کو سہارا دے۔ کمزور کی قوت بنے۔ غریب کا آسرا بنے۔ سیرتِ مطہرۃ کا مطالعہ ہمیں یہی درس دیتا ہے۔ آخری شعر سورۂ فاتحہ کی تفسیر ہے۔ نیکی کی راہ پر چلنے، برائی سے بچنے اور مغضوب لوگوں کی فہرست میں نام نہ درج ہونے کی استدعا۔ یہ ’’دیا‘‘ اقبالؔ کا فلسفۂ تعلیم ہے۔ اگر زمانہ طالب علمی میں استاد اپنے شاگردوں کو صرف اس ایک نظم کا فہم ہی دے دیں تو معاشرہ مستقبل میں ہر فتنے سے محفوظ ہو جائے۔
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا