رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اللہ کی یہ کتاب ہر سال اپنے پڑھنے والوں کو بہت کٹھن مقامات کی سیر کرواتی ہے، کئی ایسی منزلیں آتی ہیں جہاں قرآن مجید اپنے پڑھنے والوں سے سوال کرتا ہے، ان سے پوچھتا ہے کہ بتاؤ! تم ان منزلوں کو کیسے سر کرو گے؟ اس مرحلے کو کس طرح طے کرو گے؟ اس مقام سخت جاں سے گزرتے ہوئے دل کوکتنا رفیق پاؤ گے؟
سورۂ یوسف میں انسانی رشتوں کے بہت سے دردناک پہلو موجود ہیں، جو کل بھی انسانی تاریخ کا حصہ تھے، آج بھی ہیں اور یقیناً آئندہ بھی رہیں گے۔ ایک کمسن لڑکا جو بھائیوں کی محبت کے بھروسے پر باپ کا قرب چھوڑ کر تفریح کی غرض سے نکلتا ہے۔ بھولپن اور لڑکپن، شوق اور حیرانیاں اس کے ہمراہ ہوتی ہیں اور وہ بھائیوں کی بے رخی، بے مروتی و بے اعتنائی کے تکلیف دہ رویے سہتا ہے۔ حاسد اور ظالم بھائیوں کے ہاتھوں کنویں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ تصور کیجیے، کنویں کا تصور ہی دم نکالنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ تاریک جگہ، اتھاہ گہرائی، کیڑے مکوڑے، پانی، سانپ، نجانے کیا کیا کچھ؟اس اندھیرے پاتال میں گرتا ہوا معصوم بچہ، کس بے بسی سےیہاں پڑا ہوگا۔ پھر ایک پیغمبر باپ کا پیغمبرانہ صفات کا مالک بیٹا بے گناہی کی سزا کاٹتا ہے، غلاموں کی منڈی میں بکتا ہے، اس کا سودا ہوتا ہے۔ وہ جو انمول تھا، کوڑیوں کے مول خریدا جاتا ہے۔ اپنے گھر کا شہزادہ اور سربازار فروخت، سب کچھ بھائیوں کی بدولت۔
زندگی کا سب سے خوبصورت دور دوسروں کی چوکھٹ پر خدمت گزاری میں صرف کیا، عفت اور پاک دامنی کی حفاظت کرتے گزارا۔ جہاں حیا کی کوئی قیمت نہیں اور عفت بازار میں بکنے والی شو ہو، وہاں وہ اسے در ِِِنایاب بنا تاہے۔ پھر اس کی خاطر قید خانے کی سختیاں اور تلخیاں بھی برداشت کرتا ہے۔ جیل کی صعوبتیں، شفیق باپ سے دوری، محرومی اور بے بسی، کتنا پانی ان آنکھوں سے بے تاب ہو جاتا ہے یہ سوچ کر۔ یہ الگ باپ کہ تقدیر نے عظمت کا تاج پہنانے کے لیے انہی راستوں کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن وجہ تو وہی بھائی تھے نا؟ جنہیں تاریخ آج بھی برادران یوسف کہتی ہے۔
پھر کنوین میں ڈالے جانے والے کو عزت ملتی ہے، تاج و تخت قدموں میں رکھ دیا جاتا ہے۔ خزانوں کا مالک اعلیٰ ظرف بھائی انہی ستم گروں کو بوریاں بھر کر غلہ بانٹتا ہے۔
قرآن پورا سچ بتاتا ہے، کہانی کو مکمل کرتا ہے ۔ عظمت، شرافت، مروت اور رشتوں کی پاسداری سکھاتا ہے۔ ‘لا تثریب علیکم الیوم’، آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ بڑا ہی سخت مقام ہے، گزرنے کا سوچیں تو قدم ڈگمگانے لگتے ہیں۔ کوئی کہاں تک معاف کرے؟ کتنا معاف کرے؟ کن کن رویوں سے درگزر کرے؟ کس کس زیادتی کو بھلائے؟ مجھے تو سب یاد ہے، ہر بات، ہر جملہ، ہر نظر، ہر طنز، مالی بددیانتی، معاملات میں ٹیڑھ، میری زندگی کے اتنے خوبصورت سال برباد ہوگئے، واپس آ سکتے ہیں بھلا؟ میں کیسے معاف کرو؟ لیکن قرآن سامنے یہی بات رکھتا ہے ‘لا تثریب علیکم الیوم’۔
یوسف علیہ السلام کہتے ہیں کہ ہمارے تمہارے درمیان شیطان آگیا تھا۔ تمہارے نفسوں کو شیطان نے گمراہ کردیا تھا۔ تمہاری ساری زیادتیاں اور میرے سارے گزرے ماہ و سال سب کا حساب بےباق، لا تثریب علیکم الیوم۔
پھر فاتح مکہ سرزمین مقدس میں قدم رکھتا ہے۔ مکی زندگی کے 13 سال نظروں کے سامنے ہیں، ہر ظلم، ہر ستم، ہر وار، ہر زخم، ہر خون یاد ہے۔ شعب ابی طالب کی گھاٹی کے فاقے بھی یاد ہیں، سمیہؓ کی شہادت بھی، حمزہؓ کی لاش کا مثلہ بھی یاد، خبابؓ کی پیٹھ کی پگھلتی چربی بھی یاد ہے۔ ہجرت کی رات بھی یاد ہے، سراقہ کا تعاقب اور غار تک پہنچنے والے قدم بھی یاد ہیں۔ خوف، بھوک، الزام تراشیاں، کاہن، ساحر اور مجنوں کے الفاظ بھی یاد ہیں، بدر، احد اور احزاب کے معرکے بھی یاد ہیں لیکن پیغمبرانہ سنت تو یہی ہے ‘لا تثریب علیکم الیوم’
کہنے والوں نے کہا آپ شریف بیٹے اور شریف بھائی ہیں، آپ پر تو سجتا ہی یہ تاج ہے ‘لا تثریب علیکم الیوم’ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ۔
اس لئے کہ انسانی زندگی معاف کئے بغیر آگے بڑھ نہیں سکتی، چل نہیں سکتی۔ دل کے آئینے پر پڑی مٹی صاف کئے بغیر، تلخ یادوں کی بندھی ہوئی گرہیں کھولے بغیر نفس اچھی زندگی جی نہیں سکتا۔ اس کی بھلائی تو اسی میں ہے کہ رشتوں کو بنا یا جائے، سنبھالا جائے اور یہ معاف کئے بغیر ممکن نہیں۔
معافی کے طلبگاروں کو معافی بانٹنی بھی پڑے گی۔ کاش یہ میرا دل یہ ہمارا دل اتنا بڑا ہو جائے کہ میں بھی کہہ سکوں لا تثریب علیکُم الیوم!