April 19th, 2024 (1445شوال10)

خواتین کا رمضان



خواتین کا رمضان

بواسطة Admin / 0 Comment

مختلف پوسٹیں سوشل میڈیا پر  دیکھیں..آج سنڈے میگزین نظر سے گزری کہ خواتین رمضان سے قبل مہینہ بھر کا کچن کا کام ہلکا کرلیں مثلا لہسن پیس کر رکھ لیں,پیاز کئی کلو براؤن کرکےپیس لیں,سموسے رول مہینہ بھر کے بنالیں,ٹماٹر پیس کر ابال کر فریز کر لیں..اک خاتون نے کہا چاول بھگو کر خشک کرکے تھیلیوں میں رکھ لیں,اک خاتون نے ٹی وی پر مشورہ دیا کہ فروٹس کاٹ کر زپ لاکس میں رکھ لیں شیک اور چاٹ کے کام آئیں گے وقت بچے گا. مزید مشورے سفید سیاہ چھولے ابال کر پیکٹ بنالیں,دال کے بڑے تل کر پیکٹ بنا لیں,اک مشورہ تھا املی کی میٹھی چٹنی کیریوں کی کھٹی میٹھی چٹنیاں جار میں بھر کر رکھ لیں اور سبزیاں کچھ ابال کر کچھ بن ابلی فریز کرلیں,اک سگھڑ خاتون نے کہا پراٹھے ادھ کچے مہینہ بھر یا ہفتہ بھر کے بنا کر فریز کر دیں..

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کریں* گھر کے کام کاج کو دماغ پر سوار کیوں کرلیں؟؟ اگر ہم ملازمت پیشہ ہیں تو فکر دوسری طرح کی ہوگی وہ خواتین تو عام روٹین میں بھی یہ سب کچھ کرتی ہی ہوں گی..

مشورے ہیں کہ شعبان کے درمیانی حصہ سے یہ تیاری شروع کردیں اور ہم سارے سر دھن رہے ہیں کہ واقعی میں عورت کتنی مجبور ہے کہ خانگی امور کا بوجھل پن اور رمضان کے تقاضے!!!!! 

ہمارے بچپن میں فریج ایجاد ہوچکاتھا مگر ایسی تیاریاں ہم نے نہیں دیکھیں۔ گھر میں اک یا دوچولھے ھوتے تھے اور ہر گھر ماسی بھی نہیں آتی تھی نیز عید کی سلائی گھر پر ہوتی..لٹھے کے تھان سے مردانہ سفید شلواریں اور پاجامے بھی گھر میں سلتے..لڑکیوں بالیوں کے کپڑوں پر کڑھائیاں,ٹکائیاں بھی ہوتیں,محلہ میں افطاری بھی ہوم میڈ تقسیم ہوتی,افطار پارٹیاں بھی ہوتیں,عید پر گھر آنے والوں کو سل پر پسے اڑت کی دال کے بھلے بھی پیش کیے جاتے...

پھر اب وقت کہاں چلا گیا؟؟ کیا ہماری عبادتیںریاضتیں بہت بڑھ گئی ہیں یا وہ ناخواندہ تھےہم اعلی تعلیم یافتہ ،اس لیے اتنا فکر مند ہیں کہ کچن کا کیا ہوگا رمضان میں..ایساکچھ ہو جائے کہ بٹن دباؤں تو کھانے کی تھیلیاں لڑھک کر خود مائیکروویو میں چلی جائیں اور روبوٹ ٹیبل تک سموسے،دھی بھلے،فروٹ چاٹ، شیک اور بریانی، کوفتہ سب سجا دے۔

کیا ہم نہیں جانتے کہ گھر کے کام عبادت ہیں؟

اپنے گھر والوں کو بچاتے لذت کام ودھن سے نا کہ کھٹی میٹھی چٹنیوں کو فریز کرنے کے چکر میں پڑگئے..

جتنا بھرا ہوا فریزر ہوتا ہے دماغ بوجھل ہوتا ہے کہ کون سی چیز زیادہ پرانی نہ ہوجائے؟فریزر کو خالی کرنا اک درد سری کہ تازہ کھانے کی خواہش مگر بھرا فریزر دماغ پر سوار!!!

لوڈ شیڈنگ جہاں پانچ گھنٹے سے پندرہ گھنٹہ تک ہے وہاں یہ مشورے چہ معنی دارد؟؟

ہم کتنی عبادت کرتے ہیں کہ گھر کے کام حائل ہوجائیں گے اور کھانا پکانا وقت کتنا لیتاہےبلکہ آپ کچن میں جاتی ہیں تو روزے کی قدر دانی بڑھتی ہے کہ خود بھوک پیاس میں اہلِ خانہ کے لیے اس قربانی کا کتنا اجر ہوگا؟؟

ہم سب کے گھر چولھوں میں پانچ برنر ہیں کم از کم تین..اگر آپ عصر پڑھ کر تلاوت کرکے کچن میں جاتی ہیں آپ کے ساتھ بہو، بیٹی کی صورت میں کوئی مددگار ہے تو اک گھنٹہ بھر کافی ہے ہر طرح کی ککنگ کے لیے..

سوال یہ ہے دسترخوان پر ہر روز سموسے،رول ،پکوڑے اور چھولے کیوں ہوں؟ کیا افطار کے دسترخوان پر کوئی مشروب اور کھجور کافی نہیں؟؟ مشروب لسی بھی ہوسکتی ہے۔سیب، چیکو یا کھجور کا شیک بھی پھر کھانا تو تیارہی ہے فوری بعد نماز مغرب کھانا لگائیں تراویح سے قبل کچھ سستانے اور کچن سمیٹنے کا بھی وقت مل جائے گا پھر تراویح کے بعد کچن کا جھنجھٹ بھی ختم..

کھانے میں سالن ہو یا چاول وغیرہ ..خوب بھوک ہو تو دال چاول بھی سلاد کے ساتھ مزہ دے جاتے ہیں.افطاری سے بوجھل پیٹ بریانی اور کوفتوں کی بھی لذت محسوس نہیں کرتا..

اصل میں امتحان کا وقت ہے عصر اور مغرب کے بیچ جب نفس کی خواہشیں ابھر ابھر کر سامنے آتی ہیںکہ کتنے بے چارے ہوتم ..سارے دن کی بھوک پیاس کی مشقت کے بعد اب تو افطار سے بھرا دسترخوان تمہارا حق بنتاہے..

آپ غور کیجیے جب طرح طرح کے مشروبات وماکولات و نت نئ ڈشز طبعیت کو بوجھل کردیتی ہیں تو خود بچے کہتے ہیں کہ کل اتنا نہیں بنایے گا..مگر ہم نفس کی جنگ ہار جاتے ہیں کہ بچوں کا بھی آخر دل ہے یا میاں چپ ہیں توکیا خوش تو وہ بھی ہونگے...

امام غزالی رح فرماتے ہیں کہ آپ کے روزے کا اصل امتحان آپ کے افطار کے دسترخوان پر ہوتا ہےکہ نفس کو مارنے کی کتنی تربیت ہوئی ہے آپ کی؟؟؟

ہر گھر کے تقاضے مختلف ہوں گےسب کے لیے اک مشورہ نہیں ہوسکتا..

ہماری مائیں جب واشنگ مشینیں تھیں نہ ماسیاں فجر کے بعد سوتی نہیں تھیں نہ رمضان ٹرانسمیشن کی بربادیاں تھیں نہ بازاروں کی الفت،نہ برینڈز کا جنون ..وقت وہاں سے بچاناہے..گھر والوں کو فریزر کی سبزیاں اور مہینہ بھر پرانے کوفتے کباب اور بریانی کھلانے سے گریز کریں.سوچنے کی بات یہ ہےکہ دسترخوان کیسےہلکاہوکہ معدہ ہلکا ہو اور عبادت کا لطف آئے..

گیارہ مہینہ خوب کھایا ہے اب بھی صرف کھانے ہی کے بارے میں سوچ رہے ہیں کہ پیٹ خالی بھی ہے تو کیا فریزر تو ماشاءاللہ لبالب بھرا ہواہےکہ اک چیز نکالنے میں بھی دس منٹ لگ جاتے ہیں۔

 اب کھانے سے آگے سو چناہے..

گھر کے کام خالصتاََ عبادت ہے..کام کو ہلکا کریں خواہشوں پر ضرب لگا کر...رمضان فرمائشی پروگرام نہیں ہےکہ ہر اک کی الگ فرمائش..

گھر کے مرد بھی ہاتھ بٹائیں تو کوئی ذمہ داری بوجھل نہیں ہوتی..

رمضان کے کاموں کو قبل از رمضان بوجھ نہ سمجھیں کہ ہلکان ہوجائیں کہ اور کیا رہ گیا رمضان سر پر آگیا!!!یہ رمضان کی تیاری نہیں ہے..رمضان کی تیاری تو تہجد کی بیداری، کم کھانے کی مشق اور قرآن سے تعلق کی استواری ہے...

رمضان تو مشقت کا مہینہ ہے ،غزوات اور فتح مکہ کا ماہ مبارک ہے۔بڑی بڑی فتوحات اس ماہ میں ہوئیں اسلامی تاریخ کی...

اک مسلمان عورت کے لیے خانگی ذمہ داری نہ بوجھل ہے نہ یہ ہلکان ہونے کے عنوانات..سپر اسٹورز پر سب مصالحے بشمول لہسن ادرک پاؤڈر دستیاب ہیں..ضرورت ہے اپنی خواہشات کی لسٹ کو مختصر کرنے اور جب موسم اچھا تھا پانی بھی وافر ,مٹی بھی خوب زرخیزی پر تھی..میں اپنا کھیت ہی نہ سینچ سکی نہ گھر والوں کو سمجھا سکی ...

 افطار کے بعد اک روز بی بی عائشہ ؓ نے خواہش ظاہر کی تھی کہ زیتون کی چپڑی روٹی کے ساتھ کوئی سالن ہوتا توکتنا اچھا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا .عائشہ کیا زیتون کے ساتھ بھی سالن کی گنجائش رہتی ہے؟

بس بچنا اسی لذت کام ودھن سے ہے اور خواہشوں کے سراب سے....لعلکم تتقون....سب کا بچنا الگ الگ ہوگا اس لیے کہ سب کے نفس کے تقاضے الگ الگ ہیں۔
 

افشاں نوید


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا