March 28th, 2024 (1445رمضان19)

گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں!!!



گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں!!!

بواسطة Admin / 0 Comment

داعیانِ حق کا راستہ ہمیشہ سے کانٹوں بھرا ہے۔ یہ کبھی بھی ٹھنڈی سڑک نہیں رہی۔ یہاں ایک نکاتی ایجنڈا ہے، اور وہ ہے حق کا غلبہ۔ اس کے لیے مسلسل کوشش شرط ہے۔ قیادت کا منصب اُسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب ہم خود شہادتِ حق کے علَم بردار بنیں۔ اس جدوجہد کے راستے کے مختلف پڑائو ہیں۔ اگر آزادانہ اور منصفانہ انتخابی عمل کے ذریعے ہم اقتدار حاصل کرکے امتِ مسلمہ کے خوابوں کی تعبیر بن سکتے ہیں تو اس راستے کا ہر قدم افضل عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔
رسالتِ نبویؐ کے آغاز میں مسلمان خواتین نے اللہ کی راہ میں جہاد کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ اسلامی تاریخ ان روشن مثالوں کے تسلسل سے عبارت ہے۔ دنیا بھر میں تحریکِ اسلامی سے وابستہ خواتین نہ صرف اپنے حصے کا کام کررہی ہیں بلکہ اس نسل کی آبیاری میں بھی مصروف ہیں جو ان کے بعد اس مشن کے علَم کو تھامے رہے۔
الیکشن کی جیت یا ہار ثانوی سوالات ہیں۔ یہ اقامتِ دین کی جدوجہد ہے جہاں ’’ناکامی‘‘ کسی صورت نہیں ہوتی۔ آپ چہار اطراف سے بہت سی ایسی دلیلیں سنتے ہیں کہ بار بار کی ناکامیوں سے سبق کیوں نہیں لیا… یہاں انتخابات شفاف نہیں ہوتے… حکومت بہرحال امریکا کے نورِِ نظر افراد ہی کی بنے گی… الیکشن میں اپنے وسائل لگانا انہیں ضائع کرنے کے مترادف ہے… عورتوں کا سیاست سے کیا کام! اس جدوجہد میں عورتوں کو استعمال نہیں کرنا چاہیے، ان کے ذمے اہم خانگی امور ہیں… وغیرہ وغیرہ
خواتین جو معاشرے کا نصف ہیں، جب تک کسی اجتماعی جدوجہد میں شریک نہیں ہوں گی تو وہ مقصد نتیجہ خیز مراحل میں کیسے داخل ہوسکتا ہے! اسلامی تحریکوں میں ہمیشہ خواتین نے مثالی کردار ادا کیا ہے۔
آئیے! سیدہ لطیفہ حسن الصولی سے ملتے ہیں۔ آپ اخوان المسلمون کے مرشد حسن البناء شہید کی اہلیہ تھیں۔
اخوان کی جدوجہد عروج وزوال کی داستانوں میں سے ایک داستان نہیں ہے۔ مصر کی تاریخ میں بنی اسرائیل کے اخراج کے بعد جماعتی نظم میں شاید ہی کوئی جماعت ہو جسے صرف شہادتِ حق کے جرم میں آمرانہ درندگی اور اتنے عظیم ظلم اور تشدد سے گزرنا پڑا ہو۔ انہوں نے عشق کی تمام سنتیں زندہ کیں۔ انہوں نے خونِ جگر دے کر اپنے ایمان کی حرارت کی شہادت پیش کی۔
خواتین نے گھروں کے محاذ بھی سنبھالے اور میدانِ جنگ کو کمک مہیا کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یہ ایک بات ہے کہ خواتین کی قربانیوں کے تذکرے اس طرح نہیں کیے جاتے، نہ ان کے کردار پر اس طرح روشنی ڈالی جاتی ہے جس کی وہ حق دار تھیں۔
اب سیدہ لطیفہ ہی کو لے لیں۔ ہمیں کتنی کتابوں میں ان کا تذکرہ ملتا ہے؟ ایک ایسی خاتون جو اُس شخص کی رفیقۂ حیات ہیں جس کی زندگی مسلسل سفر، تکلیف، آزمائشوں اور خطرات میں گھری ہوئی تھی۔ سیدہ لطیفہ نے نکاح میں جہاد اور دعوت کی مشکلات کو بھی قبول کیا تھا۔
یہ تو معمولی بات تھی کہ مرشد کا گھر کارکنان سے بھرا رہتا اور ان کی خدمت وضیافت کی ذمے داری اور ان کے اکرام و ضروریات کا اہتمام کرنا زوجہ محترمہ نے بخوشی اپنی ذمے داری سمجھ کر قبول کیا ہوا تھا۔
کئی کئی راتیں اور کئی کئی ہفتے مرشد دعوت وتبلیغ کے لیے گھر سے باہر گزارتے اور بے فکر رہتے کہ اہلیہ محترمہ نے تمام فکریں بخوشی قبول کرلی تھیں، نہ بے زاری تھی نہ اکتاہٹ۔
ان کی بیٹی ثنا کہتی ہے: میری امی اپنے اور اپنے گھر کے مفاد پر دعوتِ دین کے مفاد کو ہمیشہ مقدم رکھتیں، کماحقہٗ اس کی نگرانی کرتیں۔ والدِ محترم جب محنت ومشقت اور دعوت کے کاموں سے تھکے ماندے لوٹتے تو اُن کے استقبال کے لیے گھر کو تیار کرکے رکھتیں۔ وہ گھر میں کچھ ہی دیر کے لیے قیام فرماتے اور پھر دعوتی کاموں کے لیے روانہ ہوجاتے۔ میرے والد اخوان المسلمون کے مرکز کی بنیاد رکھنے لگے تو امی جان سے گھر کا اثاثہ طلب کیا۔ امی نے شرحِ صدر سے گھر کے قالین، پردے، میز اور بہت سا سامان مرکز کو بھجوا دیا۔ اخوان سے وابستہ ہر نوجوان کو وہ اپنا بیٹا خیال کرتیں۔ اخوان کے کسی گھر میں خوشی ہوتی تو گویا ہمارے گھر میں بھی خوشی ہوتی، اخوان کے کسی گھر میں غم ہوتا تو ہمارا گھرانہ بھی غم میں ڈوب جاتا تھا۔
ایک شام کا ذکر ہے وہ اپنے گھر گئے تو بیٹا موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ وہ تھوڑی دیر بیٹے کے پاس رک کر پھر مہمانوں کے پاس آگئے۔ کچھ دیر بعد بیٹے کی وفات کی خبر ملی۔ وہ غسل وکفن کے بارے میں ہدایات دے کر میٹنگ میں مصروف رہے۔ اس کے بعد اہلِ خانہ کے پاس آئے، انہیں تسلی دی اور بچے کو تدفین کے لیے لے گئے۔
ان کے شوہر باربار گرفتار ہوتے، وحشیانہ تشدد کیا جاتا۔ وہ اپنا غم بھول کر اخوان کے گھرانوں کی دل جوئی میں مصروف رہتیں۔ بالآخر 12 فروری 1949ء کی غم آلود رات کو انہوں نے شوہر کی شہادت کی خبر سنی تو ہاتھ دعا کے لیے اٹھادئیے۔ ظالموں کے لیے اُن کی زبان سے سب نے صرف دعائیہ کلمات ہی سنے۔ بوڑھے باپ اور مرشد کی بہنوں کے ساتھ انہوں نے بھی جنازے کو کندھا دیا، اس لیے کہ کسی مرد کو جنازہ اٹھانے یا قریب آنے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر شہید شوہر کی قبر پر پہرہ لگا دیا گیا۔ ان کے ٹیلی فون رابطے کاٹ دئیے گئے۔ ان کی ہر چیز کی نگرانی، حتیٰ کہ بچوں کے اسکول جانے پر بھی پولیس پیچھا کرتی۔ لطیفہ حسین نے صبر کی تاریخ کی کتنی حیرت انگیز مثالیں قائم کی ہیں۔
ان کی خواہش تھی کہ شوہر کے پہلو میں ان کی آخری آرام گاہ بنے۔ استاد عبدالقادر عودہ نے پھانسی سے قبل سیدہ کو پیغام بھیجا کہ ان کی خواہش ہے کہ مرشد امام حسن البناء کے پہلو میں انہیں دفن ہونے کا اعزاز حاصل ہو۔ اس عظیم خاتون نے وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن کی درخواست قبول کرلی۔ مگر ظالم حکمرانوں نے جنہوں نے اخوان کے اس عظیم رہنما کو پھانسی دی، ان کی یہ آخری خواہش بھی پوری نہ ہونے دی۔
راہِ حق میں جو پریشانیاں اور تکالیف سیدہ لطیفہ حسن نے برداشت کیں وہ راہِ حق سے وابستہ خواتین کے لیے سبق ہیں کہ یہ بازی عشق کی بازی ہے۔ اس راستے کی تھکن کا انجام بہت دلفریب وادیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کچھ بچا کے رکھنے کے لیے نہیں ہے کہ اس راستے کی شکستگی ہی متاعِ حیات ہے۔

یہ بازی عشق کی بازی ہے
جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا
ہارے بھی تو بازی مات نہیں

                                             افشاں نوید


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا