April 20th, 2024 (1445شوال11)

بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں!!!۔



بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں!!!۔

بواسطة Admin / 0 Comment

افشاں نوید

ہم اپنی ماضی سے سبق لیتے تو مستقبل کی صورت گری کسی اور انداز میں کر پاتے ہمارا قومی رویہ یہ ہے کہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق لیاہی نہیں۔

ماضی کا ایک درد ناک ورق سقوط مشرقی پاکستان ہے، اس تاریخ کا نہ کوئی والی ہے نہ وارث، نہ صرف یہ کہ اس عبرتناک باب سے عبرت حاصل نہیں کی گئی بلکہ اس کو اس طرح تحریر بھی نہیں کیا گیا کہ آج کی نوجوان نسل کو حقائق کا علم ہوتا۔

قومیں کب اپنی تاریخ یوں بھلاتی ہیں، سقوط مشرقی پاکستان جتنا بڑ سانحہ تھا اس سے کچھ کم بڑا سانحہ یہ نہیں کہ ہم نے اس سانحے کو بھلادیا۔

آج حسینہ واجد اور نام نہاد جنگی ٹریبونل 71ء میں البدر و الشمس سے تعلق رکھنے والوں کو تختۂ دار پر لٹکا رہے ہیں ان کو مجرم قرار دے رہے ہیں تو ان کی حمایت میں ہم اپنی اسمبلیوں میں ایک قرارداد تک پیش نہیں کرسکتے۔ اس کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ وہ تختۂ دار پر جھول کر بھی کامیاب رہتے بشرط یہ کہ ہم انہیں ’’ہیرو‘‘ قرار دیتے۔ حکومت بنگلہ دیش جنہیں مجرم قرار دے رہی ہے اگر ہم پاکستان میں ان کی ’’یادگار‘‘ بناتے تو کم از کم ان کی نسلوں کو تو پیغام جاتا کہ ان کے آبا کی قربانیوں کی قدر کی گئی۔ شجاعت کا کوئی ایوارڈ ان کے نام کرتے، کسی تاریخی مقام کو، کسی شاہراہ، کسی ہسپتال، کسی ایئر پورٹ یا کسی یونیورسٹی کو ان کے نام سے موسوم کرتے تو کم از کم ’’محب وطنوں‘‘ کو یہ پیغام تو جاتا کہ وطن کی محبت جرم نہیں ہوتی۔ ہم تاریخ کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں۔ البدر اور الشمس کی روشنی سے تاریخ منور ہے۔

وہ سچی شہادتیں جو تاریخ میں مثبت ہیں ایک نظر ان پر ڈالتے ہیں:

’’البدر اور الشمس کے کردار کا میں خود عینی شاہد ہوں، ان تنظیموں کے رضا کاروں نے علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا‘‘

میجر جنرل (ر) رائو فرمان علی خان، روزنامہ نوائے وقت لاہور،

جنگ راولپنڈی جولائی 1983ء

’’البدر اور الشمس کے رضا کاروں نے پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں اور وہ ہر وقت حکم کی تعمیل کرتے تھے، انہیں جو کام سونپا جاتا وہ پوری ایمانداری اور جان کی پروا کیے بغیراَدا کرتے، اس تعاون کی پاداش میں تقریباً پانچ ہزار رضا کاروں یا ان کے زیر کفالت افراد نے شرپسندوں کے ہاتھوں نقصان اٹھایا۔‘‘ ان کی بعض قربانیاں تو روح کو گرما دیتی ہیں۔

(بریگیڈیئر صدیق سالک میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، صفحہ 112)

’’مجھے سلام کرنے دیجئے البدر اور الشمس کے اُن جیالوں کو جو پاکستانی افواج کے شانہ بشانہ لڑے، اپنے لہو سے عزیمت اور استقامت کے نئے باب رقم کیے، ان میں سے بہت سے شہید ہوگئے، بہت سے زیادہ زخمی ہوئے۔ اُن نوجوانوں نے پاکستان کے استحکام کے لیے جو قربانیاں دیں اور کارنامے سر انجام دیئے وہ یقیناً ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں‘‘

(بریگیڈیئر محمد حیات خان، انٹرویو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ، لاہور اگست 78ء)

’’البدر اور الشمس حد درجہ وفادار، محب وطن، پر جوش اور سرگرم پاکستانی تھے، انہوں نے دل و جان سے پاکستانی افوج کے ساتھ تعاون کیا۔ انہوں نے ہمیں کبھی دغا نہیں دی، کبھی فریب نہیں دیا، ہمارا ساتھ چھوڑ کر وہ مکتی باہنی سے نہیں ملے، ہمارے دشمن سے کبھی ساز باز نہیں کی یہ امر واقعہ ہے کہ البدر کے نوجوان آخر وقت تک پاکستان کی بقا کے لیے لڑتے رہے‘‘

(لیفٹیننٹ جنرل (ر) امیر عبداللہ خان نیازی، انٹرویو قومی ڈائجسٹ جولائی 78ء)

’’البدر کے عظیم نوجوانوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر تاریخ اسلامی کا ایک باب کھولا ہے، یہ تنظیم ایک ایسی مالا تھی جس کا ایک ایک موتی اپنی چمک میں بے مثال تھا۔ سوئے اتفاق سے ان کی عظیم کارکردگی سے اکثر و بیش تر لوگ ناآشنا ہیں، حالانکہ ان کی جدوجہد ہر زندہ قوم کے لیے باعث فخر ہے۔‘‘

(میجر ریاض حسین ملک، انٹرویو 10جون 1975ء)

سقوط مشرقی پاکستان کے جو اسباب تھے وہی آج بھی پاکستان میں بے چینی اور عدم استحکام کے حقیقی اسباب ہیں۔ آج بھی بے چینی کا سبب حکمران طبقے کے غیر اسلامی اقدامات اور سیکولر مغربی کلچر کے فروغ کی کوششیں ہیں اور پاکستان کو دو لخت کرنے کا سبب بھی یہی عوامل تھے۔

متحدہ پاکستان ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کے نعرے کی لپیٹ میں آگیا۔ 12فروری 1972کو جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی زیر صدارت منعقد ہوتا ہے۔ 6دن تک جاری رہنے والے اس اجلاس کی اہم ترین قرارداد پڑھیے اور سوچئے کہ 47 برس اور بھی آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں 71ء میں کھڑے تھے۔ کیا سفر کے ساتھ ساتھ فاصلے بڑھ رہے ہیں یا ہم دائرے کے مسافر ہیں!!! قرارداد کا ایک ایک لفظ 1918ء کے پاکستان کے حسب حال ہے، ملاحظہ کیجئے وہ تاریخی قرارداد ۔

’’جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب اس سے پوشیدہ مسائل کا جائزہ لینے کے بعد اس یقین کا اظہار کرتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم جس شکست، ذلت اور تباہی سے دوچار ہوئے ہیں اور جن خطرات میں گھر گئے ہیں وہ دراصل ایک عذاب ہے جو خدا اور اس کے دین سے انحراف اور اس کے ساتھ مسلسل بے وفائی اور منافقت برتنے کی وجہ سے ہم پر نازل ہوا ہے۔

-1ہمیں جو ذلت اُ ٹھانی پڑی ہے اس کی وجوہ میں بلا شبہ قیادت کی مجرمانہ کوتاہیوں اور غلطیوں اور سرخ و سفید اور برہمنی سامراج کی بین الاقوامی سازشوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے لیکن اس ذلت اور تباہی کا اصل سبب وہ تباہ کن پالیسیاں اور پروگرام ہیں جو خدا اور آخرت کی باز پرس سے غافل ہوکر یہاں گزشتہ 24سال سے بنائے اور چلائے جاتے رہے اور بار بار کے اتنباہ کے باوجود جن کی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہ کی گئی۔

-2ساری دنیا گواہ ہے کہ پاکستان اس وعدے اور اعلان کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ اس میں زندگی کا سارا نقشہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی انقلابی بنیاد پر استوار کیا جائے گا اور اس سرزمین کو اسلامی نظام حیات کی عملی تجربہ گاہ بنایا جائے گا لیکن قیام پاکستان کے بعد نعرہ تو برابر اسلام ہی کا لگایا جاتا رہا لیکن عملاً یہاں اقتدار اور عہدوں کی جنگ ذاتی مفادات کے حصول کی کشمکش، فسق و فجور اور ظلم وستم کے ہر شعبۂ حیات میں فروغ اور دین و اخلاق سے بے پروائی کو زندگی کا محور بنادیا گیا۔ شریعت اسلامی کو ملکی قانون بنانے کے بجائے اس کی راہ روکنے کی کوشش کی گئی اور اس میں تحریف کرنے کے لیے سرکاری ادارے قائم کیے گئے۔ معیشت اور معاشرت، قانون اور سیاست، تعلیم و تربت اور تمدن و ثقافت، زندگی کے ہر میدان میں خدا اور اس کے رسول ؐ سے بغاوت کی روش اختیار کی گئی۔ یہاں شراب، جوئے اور جنسی آوارگی کی فواحش و بے حیائی اور اختلاط مرد و زن کو، لادین تہذیب اور اسلام کے عین ضد نظریات کو فروغ دیا گیا۔ یہ دراصل وہ جرم ہے جس کی ہمیں یہ سزا ملی ہے اور یہی ہیں وہ حقیقی وجوہ جنہوں نے مل کر ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کی پوری عمارت کی جڑیں کھود ڈالیں، دس کروڑ مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں سے بننے والے اس مل کا صرف 24برس کے اندر شیرازہ منتشر کردیا گیا۔ جس قوم کے مختلف گروہوں نے ابھی چند سال پہلے حقیقی بھائیوں کی طرح متحد ہوکر یہ ملک حاصل کیا وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے اور ایک دوسرے کی جان و مال اور آبرو تک کے دشمن بن گئے۔

-3پاکستان کے قیام کے بعد جو نظام تعلیم یہاں رائج رکھا گیا اس نے نئی نسلوں کو قیام پاکستان کے مقاصد اور اس کی ضرورت، اس کے عالمگیر مشن اور اپنی قومی تاریخ و روایات سے حد درجہ بے گانہ کردیا۔

-4 جو ملک سرتا سر جمہور کی طاقت اور جمہوری طریقے سے وجود میں آیا تھا اس میں سیاست و حکمرانی کے وہ طریقے استعمال کیے گئے جو جمہوریت کے صریحاً منافی تھے۔ صاف ستھری جمہوریت کے بجائے یہاں محلاتی سازشوں، فوجی انقلابات اور آمریت کا راستہ اختیار کیا گیا اور قوم کے نمائندوں کی حکومت کے بجائے یہاں کوتاہ اندیش بیورو کریسی، طالع آزما فوجی افسروں اور مفادت پرست سیاسی عناصر کا ایک ہی جتھا ٹیمیں بدل بدل کر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنتا رہا۔ اس چیز نے ملک میں صحت مند سیاسی عمل و ارتقاء کے دروازے بند کردیے نیز ملک کے مختلف حصوں اور ملت کے مختلف طبقات کے درمیان حق انصاف قائم کرنے میں جو مجرمانہ تغافل برتا گیا اس نے ان کے اندر سیاسی اور معاشی محرومیوں کو اور ان محرومیوں نے شدید قسم کی بے اعتمادیوں کو جنم دیا جہاں بھی اقتدار پر آیا اس نے غربت و افلاس اور ظلم و ستم کے شکار عوام کے مسائل کے حل کی فکر کرنے کے بجائے اپنے ہی مفاد کی پوجا کی جس سے علاقائی اور نسلی تعصبات کی آگ اندر ہی اندر سلگتی اور پھیلتی چلی گئی یہاں تک کہ اس نے بڑھتے بڑھتے ملک کو خوفناک آتش فشاں میں تبدیل کردیا۔ کیسے ممکن تھا کہ پورے کرۂ ارض میں گھات لگاکے بیٹھے عالمی شکاری اور ہمارے بیرونی دشمن اس صورت حال سے فائدہ نہ اٹھاتے اور ہمارے اندر پھیلنے والی تعصبات کی اس آگ کو ہمارے گھر اور اپنے چولہے جلانے کے لیے استعمال نہ کرتے۔‘‘

بشکریہ جسارت


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا