April 20th, 2024 (1445شوال11)

شکر - ڈاکٹر میمونہ حمزہ



شکر - ڈاکٹر میمونہ حمزہ

بواسطة Admin / 0 Comment

شکر دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو نعمت کی عطا پر پیدا ہوتی ہے، بندہ اس نعمت کے حصول پر خوشی اطمینان اور سرور پاتا ہے، اور یہ کیفیت اس کے اعضاء و جوارح پر بھی طاری ہوتی ہے، اس کی زبان پر شکر کے کلمات جاری ہوتے ہیں، اس کے چہرے پر بشاشت آ جاتی ہے، اور وہ جھک جانے، مسجود ہونے کی داخلی طور پر بھی حاجت محسوس کرتا ہے اور ظاہری طور پر بھی!شکر احسان کے نتیجے میں پیدا ہونے والا رویہ ہے، اور جس کی جانب سے یہ احسان ہو اس کی حمد و ثنا اور اچھا تذکرہ ہے۔

اگر دیکھا جائے کہ بندے کے شکر اور حمد و ثنا کا کون مستحق ہے؟ تو وہ اللہ جلّ جلالہ کی ذات ہے، جس نے اپنے بندوں پر نعمتوں کے انبار لگا دیے، جس کا شکر تو در کنار ان نعمتوں کا شمار بھی ناممکن ہے۔{وان تعدّوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا} (النحل، ۱۸) (اگر تم اس کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ان کا شمار نہ کر سکو گے)۔
اللہ تعالی نے ان نعمتوں پر شکر گزاری کی تعلیم دی ہے اور ان کے انکار سے منع کیا ہے۔ {فاذکرونی اذکرکم، واشکروا لی ولا تکفرون} (البقرۃ، ۱۵۲)(پس میرا ذکر کرو، میں تمہارا ذکر کروں گا، اور میرا شکر ادا کرو، اور نا شکری نہ کرو۔)جو اللہ تعالی کی شکر گزاری پر قائم رہے اللہ تعالی اسے ’’شاکر‘‘ اور ’’شکور‘‘ کہتا ہے، اور سب سے زیادہ شکر گزار بندے انبیاء علیھم السلام تھے۔ اللہ تعالی حضرت ابراہیمؑ کی شکر گزاری کا تذکرہ فرماتے ہیں:{انّ ابراہیم کان امّۃ قانتا للہ حنیفا، ولم یک من المشرکین۔ شاکراً لّانعمہ، اِجتباہ وھداہ الی صراط مّستقیم} (سورۃ النحل۔۱۲۱، ۱۲۰) (ابراہیمؑ اپنی ذات میں ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیعِ فرمان اور یکسو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۔ اللہ نے اس کو منتخب کر لیااور سیدھا سیدھا راستہ دکھایا۔اللہ تعالی نے حضرت نوحؑ کی شکر گزاری کا تذکرہ کیا:

{ذریّۃ من حملنا مع نوح، انّہ کان عبداً شکوراً۔} (الاسراء، ۳)(تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا، اور نوح ایک شکر گزار بندہ تھا۔)اللہ تعالی اپنے بندوں کو نعمت عطا کرتا ہے تو اسے شکر کی تعلیم بھی دیتا ہے، حکم ہے: {یا یھا الّذین آمنواکلوا من طیّبات ما رزقناکم واشکروا للہ ان کنتم ایّاہ تعبدون۔}(البقرۃ، ۱۷۲)(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہوتو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔اللہ تعالی نے سامانِ زیست عطا کیا ہے، مگر بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں۔ {ولقد مکّنّاکم فی الارض وجعلنا لکم فیھا معایش، قلیلاً ما تشکرون} (الاعراف، ۱۰)(ہم نے تمہیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور تمہارے لئے یہاں سامانِ زیست فراہم کیا، مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔)
رزق لانے والی ہواؤں کو اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا، تاکہ بندے شکر گزار بنیں۔ {ومن آیاتہ ان یرسل الرّیاح مبشّرات وّ لیذیقکم مّن رّحمتہ ولتجری الفلک بامرہ ولتبتغوا من فضلہ ولعلّکم تشکرون۔} (الروم، ۲۶)

(اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے بشارت دینے کے لئے اور تمہیں اپنی رحمت سے بہرہ مند کرنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو۔یہ دین بھی اللہ کی نعمت ہے ، پھر اس ہستی کا شکر کیوں ادا نہ کریںجس نے پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے طہارت کے احکامات دیے اور ان کا طریقہ سکھایا۔ {۔۔ولکن یرید لیطھرکم ولیتمّ نعمتہ علیکم لعلّکم تشکرون} (المائدہ، ۶)مگر وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے، شاید کہ تم شکر گزار بنو۔یہ اللہ تعالی کی چند نعمتوں کا ذکر ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی بے پایاں نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو بہت بعید ہے ، بندے کے لئے ان کا شمار بھی ممکن نہیں، اسی لئے فرمایا: {وان تعدّوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا، انّ الانسان لظلوم کفّار} (ابراہیم، ۳۴)اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے، حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور نا شکرا ہے۔مسلمان ہر وقت اس کوشش اور طلب میں رہتا ہے کہ اسے اللہ کی نعمتوں پر شکر گزاری کی توفیق مل جائے، اور اللہ کی مدد اور استعانت کے بغیر وہ شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔

اسی لئے رسول کریم ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو شکر گزاری مانگنے کی دعا سکھائی،اور انہیں نصیحت فرمائی: ’’اوصیک یا معاذ ، لا تدعنّ فی دبر کل صلاۃ تقول: اللھم اعنّی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔‘‘ (رواہ ابو داود، ۱۵۲۲) (اے معاذ، ہر نماز کے بعد یہ کلمات ضرور کہنا: اے اللہ میں اپنے ذکر، اور شکر اور اچھی عبادت کی توفیق دے۔) آمین نعمتوں پر شکر ادا کرنا انکی افزائش کا سبب بنتا ہے اللہ تعالی نے فرمایا ہے: واذ تاذّن ربّکم لئن شکرتم لازیدنّکم ولئن کفرتم انّ عذابی لشدید} (ابراہیم،۷) (اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران ِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔)اور کیا بندے کے پاس اللہ کے سوا کسی اور کی دی ہوئی کوئی نعمت بھی ہے؟ جب ہر نعمت اللہ کی طرف سے ہے تو اس کا شکر بھی ضروری ہے۔ جو شکر کرتا ہے اللہ اسے مزید عطا فرماتا ہے۔شکر ایمان کی بنیاد ہے، اس کے تین راستے ہیں:
۱۔ اس بات کا اعتراف کہ یہ نعمت اللہ تعالی ہی کی عطا کردہ ہے، لہذا عطا کرنے والے سے ہی مانگنا اور سوال کرنا، اور اسی کی عبادت کرنا۔
۲۔ زبان سے اس کی نعمتوں اقرار اور شکر ادا کرنا:

اللہ تعالی نے سورۃ والضحی میں آپؐ پر اپنی نعتوں کے ذکر کے بعد تلقین فرمائی: {وامّا بنعمۃ ربّک فحدّث} (والضحی، ۱۱)اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو۔
حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ اپنے اس بندے سے راضی ہو گا جو کچھ کھائے تو اس کی حمد کرے، یا کچھ پئے تو اس کی حمد بیان کرے‘‘۔( رواہ مسلم، ۲۷۳۴) حضرت عمر بن عبد العزیزؒ فرماتے تھے: ’’اللہ تعالی کی نعمتوں کا ذکر کرو، انکا ذکر بھی شکر ہی ہے‘‘۔
۳۔ اعضاء کا شکر : اپنے جسم کو اللہ کی اطاعت میں جھکا دینا، اور اللہ کے نواہی سے اجتناب۔ ہر ممکن کوشش کرنا کہ ان اعضاء کو اللہ کی نافر مانی میں نہ لگائے۔ یہ عملی شکر ہے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے اتنی دیر کھڑے ہوتے کہ آپ ؐ کے پاؤں پھٹ جاتے، حضرت عائشہؓ نے ان سے کہا: یا رسول اللہﷺ ، آپؐ ایسا کیوں کرتے ہیں، حالانکہ کہ اللہ نے آپؐ کے اگلے پچھلے قصور معاف کر دیے ہیں؟ آپﷺ نے جواب دیا: کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘۔ (رواہ البخاری، ۴۵۵۷)

ابو ھارون کہتے ہیں کہ میں علی بن حازم کے پاس آیا اور ان سے پوچھا: آنکھوں کا شکر کیا ہے؟ فرمایا: جب تم ان سے اچھی چیز دیکھو تو اس کی حفاظت کرو، اور کچھ برا دیکھو تو پردہ داری کرو۔ پھر پوچھا: اور کانوں کا شکر کیا ہے؟ بولے: کچھ اچھا سنو تو اسے یاد رکھو، اور کچھ برا سنو تو بھلا دو‘‘۔سلف میں سے کسی کا قول ہے: ’’شکر نافرمانی اور معصیت کو ترک کرنا ہے‘‘۔ ابو حازم الزاہد نے شکر کا بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’شکر معاصی سے رک جانے اور اطاعت پر جم جانے کا نام ہے، اگر کوئی شخص زبان سے شکر ادا کرتا ہے، مگر سارے اعضاء سے شکر ادا نہیں کرتا، تو اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جس کے پاس ایک چادر ہو اور اس نے صرف اس کا کنارہ تھام رکھا ہو، اگر وہ اسے پہنے گا نہیں تو وہ اسے سردی گرمی اور بارش اور ٹھنڈک سے نہیں بچائے گی‘‘۔شکر گزاری یہ ہے کہ اللہ کی نعتوں کی دل سے قدر دانی کی جائے، اور اس کا شکر ادا کیا جائے، بندہ جب صبح بیدار ہو تو سب سے پہلے’’ الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور‘‘کہہ کر اپنے دل اور زبان سے اس کا شکر ادا کرے۔

اعضاء کا شکر یہ ہے کہ ان سے معصیت کی چیزیں نہ سنے نہ دیکھے، جیسے غیبت، یا فحش باتیں، یا گانے او ر میوزک، نہ برے مناظر دیکھے، نہ اللہ کی حرام کردہ جگہوں پر چل کر جائے، نہ اپنے ہاتھوں سے برے کام کرے، نہ بری باتیں تحریر کرے، نہ غیر محرموں کو ان ہاتھوں سے پیغام لکھے، نہ کسی حرام کام کے لئے کھڑا ہو، اس کے برعکس اللہ کی نعمتوں کا شکر یہ ہے کہ اپنے جسم کو اللہ کی اطاعت پر لگا دے، قرآن کی تلاوت کرے اور اسے سمجھے، علم کے حصول کے لئے کانوں، آنکھوں اور ہاتھوں کا استعمال کرے، نفع بخش اور مفید پیغامات سنے، اسی طرح بقیہ اعضاء کو بھی اس رب کی فرمانبرداری میں لگا دے، جس نے اسے نعمتوں کا خزانہ عطا کیا ہے۔
اللہ کے فرمانبردار بندے خوش کی خبر اور نعمت ملنے پر اس کے حضور سجدہ کرتے ہیں، اس سجدے کے لئے وضو اور نماز کی شرط نہیں ہے بلکہ خوشی کے موقع پر اس کے حضور جھک جانے کا نام ہے۔اگر آپ کو شکر کی نعمت میسر آگئی تو اس پر بھی اللہ ہی کا شکر ادا کیجئے۔ اس کی حمد وثنا کیجئے کہ اس کے تھوڑے ہی بندے شکر گزار ہیں، یا بندے اس کا تھوڑا ہی شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اپنا شاکر اور شکور بندہ بنا لے ۔ آمین


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا