December 30th, 2024 (1446جمادى الثانية28)

پی ایس ایل



پی ایس ایل

بواسطة Admin / 0 Comment

کئی دنوں سے مختلف دردمند دلوں کے میسیج پی ایس ایل کے حوالے سے دیکھے کہ ہم شام میں غوطہ کے مظالم سے صرف نظر کرکے کھیل کھلواڑ میں لگے ہوئے ہیں خدا کو کیا منہ دکھائیں گے؟؟
کمنٹس میں لوگ تائید کر رہے ہیں خود ملامتی میں مبتلا ہیں کہ یہ قومی جرم ہم سے سرزد ہورہا ہے ہم قابل معافی نہیں ہیں اپنے ربّ کی نظر میں۔۔۔
میرا نقطہ نظر اس سے مختلف ہے۔ فرض کیجیے پی ایس ایل نہ ہوتا تو ہم شام کے غموں کے مداوے کے لیے کیا کرتے، کیا یہ نصف ارب روپے ہم انہیں امداد میں بھیج دیتے؟ کیا یہ کھلاڑی جو گراؤنڈ میں ہیں چوک چوراہوں پر جھولیاں پھیلائے غوطہ کے لیے فنڈنگ کررہے ہوتے؟؟ کیا یہ میڈیا جو سرتاپا پی ایس ایل کی کوریج میں غرق ہے یہاں سے اجتماعی استغفار کی تسبیحات نشر کی جارہی ہوتیں اور رجوع الی اللہ کی کوئی مہم لانچ کی جاتی کہ آئیے ہم پلٹتے ہیں غوطہ اور ادلب تمہیں امہ کی پستی کا آئینہ دکھا رہے ہیں کہ اب بھی نہ پلٹو گے تو غوطہ وحلب جیسا تمہارے لاہور وکراچی کا مستقبل ہے۔ (خدانخواستہ)۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوتا اگر پی ایس ایل نہ ہوتا۔ ہم بچپن سے سنتے چلے آئے کہ وادی کشمیر لہو لہو ہے، فلسطین پر اسرائیلی دہشت گردی ہے لہٰذا ہم کس منہ سے عید منائیں؟؟
اگر ہم اپنی خوشیوں کو مسلم امہ سے جوڑ دیں تو پھر ہم اور دنیا میں آنے والا ہر مسلمان پیدا ہی نوحہ کے لیے کیا جارہا ہے معاذاللہ۔
نہ تو ہم عید مناتے نہ قومی تہوار نہ ہماری نسلوں کو یہ حق حاصل ہوتا کہ وہ تہوار منائیں اس لیے کہ موجودہ تناظر میں تو صورت حال کہیں بھی ہمارے یعنی مسلمانوں کے حق میں نہیں جارہی، ہمیں یوم آزادی بھی اس جوش وجذبے سے نہیں منانا چاہیے کہ ہمارے جشن سے مقبوضہ وادی کے غلام بنائے گئے ہمارے بہن اور بھائی اپنی غلامی کا درد اور بھی شدت سے محسوس کرتے ہوں گے۔۔۔
اب انفرادی حوالہ لیں کیا جس گھر میں والدین میں سے کسی کا انتقال ہوجائے وہاں ساری عمر شادی بیاہ کی کوئی تقریب نہیں ہوتی؟ کیا عید اور تہواروں کی خوشیاں حرام کرلیتا ہے وہ خاندان خود پر؟؟ یقیناًایسا نہیں ہوتا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ زندگی زندہ رہ کر ہی گزاری جاتی ہے ورنہ آپ کی عمر کوئی اور بھی بسر کر سکتاہے!!!
پھر ہمارے اجتماعی تقاضے کیوں اتنی شدت رکھتے ہیں کہ ہم امہ کا درد محسوس کرتے ہوئے یہ منفی سوچ پھیلائیں کہ ہمارے غم زدہ ہونے سے امت پر بہاریں آسکتی ہیں۔۔۔ اگر امہ کی سرفرازی ہمارے غموں کے ساتھ وابستہ ہے تو چلیں دعا کرتے ہیں کہ آسمانوں سے غموں کی بارش برسے اور ہر صبح کھلنے والے پھولوں کی پنکھڑیوں پر نوحے تحریر ہوں (میرے منہ میں خاک)
اک جذباتی فضا ہمارے کچھ جذبوں کو تسکین تو دے دیتی ہے مگر شاید ہم اپنا جرم چھپانے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس کو سادہ مثال سے سمجھ لیں کہ بیٹے نے تمام عمر ماں کی کوئی خدمت نہ کی مگر اس کی رحلت کے بعد کبھی عید پر نئے کپڑے نہ پہنے کہ میری خوشی ماں کے ساتھ ہی رخصت ہوگئی ہے۔۔۔ اگر آپ کے سامنے فرد مذکورہ کا قصہ تجزیے کے لیے رکھا جائے تو آپ میں سے بیش تر کی رائے یہی ہوگی کہ اس کو سائیکاٹرسٹ کے ساتھ سیشنز کی ضرورت ہے۔ ہم اجتماعی حوالے سے انہی غمزدہ صاحب کی طرح ہیں۔
مسلم امہ کا کھویا ہوا وقار جن چیزوں سے بحال ہوگا ایسا کچھ بھی کرنے کے نہ ہم موڈ میں ہیں نہ اس کا کوئی لائحہ عمل ہمارے پاس ہے۔ ہے تو یہ شارٹ کٹ کہ ہر خوشی کے موقعے پر امہ کے ساتھ غم کے اظہار اور جسد واحد کی اک جعلی سی تصویر پیش کردی جائے کہ ہم سڑکوں پر پوسٹر لے کر کھڑے ہو جائیں کہ پی ایس ایل کا بائیکاٹ اس لیے کہ شام سے یکجہتی مطلوب ہے۔۔۔
جو ہمارے کرنے کے کام ہیں وہ اصل میں بہت مشکل ہیں، مثلاً غوطہ کی صورت حال کے بعد ہمارے گھروں میں فجر کے وقت دروازے کھلنے اور دروازے کے باہر قدموں کی چاپ سنائی دیتی جو مسجد کی جانب اٹھ رہے ہوتے، جن کی فجر عموماً قضا ہوتی ہے وہ تہجد کے الارم لگانے پر اپنے نفس کو مجبور پاتے، نفلی روزوں اور اجتماعی استغفار کا اہتمام کثرت سے کیا جاتا، قرآن کے دورس کے حلقہ محلہ محلہ قائم ہوتے، انفرادی اور خفیہ نیکیوں پر توجہ دی جاتی جن کی تشہیر نہ فیس بک پر ہوتی نہ واٹس ایپ کے کسی گروپ پر۔۔۔ ہم فضول خرچی بالخصوص عورتیں برانڈڈ کپڑوں اور ریاکاری کے خول سے باہر نکلتیں۔۔۔ ہم اپنے بچوں کا مستقبل ڈالروں اور مارکیٹ کی ویلیو میں تولنے کے بجائے ان کی آخرت کی زندگی کو بھی پیش نظر رکھتے۔ علوم و فنون کے خزانے جو ہم سے چھن چکے اجتماعی دانش قوم کی رہنمائی کرتی کہ ہم نوجوانوں کو قائد کا سبق کام، کام، صرف کام یاد دلائیں تن آسانی اور شارٹ کٹ کی جستجو سے نکالیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے حکمرانوں سے نجات کے لیے شعوری بیداری کی مہم چلائیں جو نہ امہ کا درد رکھتے ہیں نہ ہماری قومی امنگوں کے ترجمان ہیں۔ نہ مادیت پرستی پر کوئی ضرب لگتی ہے نہ عیش پسندی پر، مسلم امہ کے جو بھی حالات ہوں نہ ہمارے لائف اسٹائل پر کوئی فرق پڑتا ہے نہ کوئی اجتماعی بیداری کی لہر اٹھتی ہے۔ مغلوب قوموں کی شناخت ہی یہ ہے کہ وہ ردعملی ہوتی ہیں۔ امر بالعروف ہم نے بھلادیا منکر کی ’’نھی‘ تو دور کی بات ہم تو ٹرینڈ کے طور پر قبول کرتے ہیں نھی کو چاہے وہ بالشت بھر نظر آتی ہوئی پنڈلیاں ہی کیوں نہ ہوں؟؟
امت جسد واحد ضرور ہے مگر جب جسم کے اک حصہ میں درد ہو تو دوسرا خالی خولی نعرے نھی لگاتا مضطرب ہوکر اقدامات کرتاہے۔ سر میں درد ہو تو رونگٹا رونگٹا کراہتا ہے دماغ نکلنے کی تدبیریں کرتا ہے پاؤں چل کر اسپتال جاتے ہیں منہ کڑوی دوا بخوشی کھانے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ ذہن مسلسل تدبیر سوچتا ہے کہ درد کی شدت اور کیسے کم کی جائے۔
امہ کی زبوں حالی صدیوں کی تن آسانی کا ثمرہ ہے۔ اک طویل لائحہ عمل درکار ہے اپنی ذاتی بیداری، اپنے مقام و منصب کا شعور، اپنی نسلوں کی بیداری کی فکر۔
ہم اپنے حصہ کا کام کر جائیں اور ردعملی سے کچھ ہٹ کر ٹھوس انفرادی ایجنڈے پر کام کریں، صحت مند جسم پر توجہ دیں تو بیمار سوچ سے نجات پائیں گے۔ ہم متقین کا امام بننے کی دعائیں کرتے ہیں اور اللہ کے دشمن امامت کا لائحہ عمل اپناتے ہیں۔ آج سمندر اور خلا سب ان کی دسترس میں ہے، امہ کے وجود کو پرو ایکٹیو ایجنڈوں کی ضرورت ہے۔ اپنی نسلوں کو قرآن آشنا کریں۔ تبدیلی کی آس دوسرے سے نہ لگائیں۔ ہم میں سے ہر اک امہ کا نمائندہ ہے۔ یہاں عمل اجتماعی ہوسکتا ہے وہاں جواب دہی انفرادی ہی ہوگی۔

                                                                                                                                                                                      افشاں نوید


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا