یہ کراچی سینٹرل جیل ہے۔ خواتین قیدیوں کے لیے استقبالِ رمضان پر گفتگو کرتے ہوئے میں ان کا انہماک دیکھ رہی ہوں۔ ان سے کہتی بھی ہوں اور محسوس بھی کرتی ہوں کہ وہ زمانے کے دکھ جھیل کر معرفت کی عجب ہی منزلوں میں ہیں، چاہے وہ مجرم ہیں یا بے گناہ، مگر اس دنیا کا وہ روپ انہوں نے دیکھا ہے کہ اب ایک اور ہی انسان ان کے اندر بیدار ہوچکا ہے۔
ہاں تو درس ہورہا تھا۔ قیدی خواتین کا انہماک چشم دید تھا کہ ایک دم… لیڈی پولیس کے لباس میں خاتون نے اس راہ داری میں اندر جھانکا جہاں ہم یہ بزم سجائے بیٹھے تھے۔ وہ ایک خاتون کی طرف دیکھ کر بولیں ’’ملاقات‘‘۔ بس اس لفظ کا سننا تھا کہ مارے خوشی کے ان خاتون کے چہرے کا رنگ بدل گیا، ساتھ ہی ان کی پندرہ برس کی انتہائی خوش شکل معصوم سی بچی بولی ’’آنٹی سوری، ملاقات آئی ہے ہماری، اجازت دیں‘‘۔ وہ تقریباً دوڑتی ہوئی، بے خودی کے عالم میں صفوں کو پھلانگتی یہ جا وہ جا۔ پیچھے پیچھے والدہ بھی تیز تیز راہ داری پھاند کر نظروں سے اوجھل ہوگئیں۔
ملاقات۔ ملاقات۔ ملاقات
درس ختم ہوگیا۔ راستے بھر سوچتی رہی یہاں کوئی کسی سے ملنے آئے تو کتنی خوشی ہوتی ہے قیدیوں کو۔ یہاں ملنے ہی کون آتا ہوگا! کئی عورتیں تو بتاتی ہیں کہ کئی سال سے کوئی بھی نہیں آیا ان سے ملنے۔
بس فرق تو چار دیواری کا ہی ہے ناں۔ کوئی ہمارے گھر ملاقات کو اچانک آجائے تو کیا رویہ اور کیا جذبات ہوتے ہیں ہمارے! اور وہاں ملاقات ہی سب کچھ ہے۔ اپنے پیاروں کو دیکھ کر کیا کیا حالت نہ ہوتی ہوگی دل کی! کیا کہہ پاتے ہوں گے، کتنی اَن کہی رہ جاتی ہوگی۔
نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا کو مومن کا قید خانہ فرما کر گئے ہیں۔
قید خانہ کیا ہوتا ہے… قیدی کیسے ہوتے ہیں… کیا سوچتے ہیں؟ آپ قیدیوں سے ملے بنا کیسے جان سکتے ہیں!
وہی سورج ان کے بھی آسمان پر طلوع ہوتا ہے، وہی چاند جیل کی راہ داریوں میں بھی روشنی بکھیرتا ہے۔ بریانی کی خوشبو ان کے دسترخوان سے بھی آتی ہے، بلکہ بیوٹی پارلر تک ہے جیل میں۔ ہسپتال، اسکول، کمپیوٹر لیب… اور بھی بہت کچھ ہے۔ مگر ہے تو جیل ہی…! وہاں کی لذتوں سے کون جی لگاتا ہے! وہاں ہر دن پہاڑ، ہر دن بیزاری کا پیرہن لیے… وہ دیواریں ڈستی ہوں گی۔ آزادی ہی ان کا سب سے بڑا خواب ہے۔
دعا کراتے ہوئے میں نے کہا ’’اے اللہ ہماری بہنوں کو اس رمضان کے سحر و افطار کے دسترخوان ان کے گھروں پر ان کے پیاروں کے درمیان نصیب فرمایئے‘‘، تو اکثر آمین آمین کہتے ہوئے بلک بلک کر ہاتھوں میں منہ چھپائے رونے لگیں۔
گھر کے سحر و افطار کے دسترخوان پر کبھی خیال بھی چھوکر نہیں گزرتا کہ یہ گھر ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ اپنے پیاروں کا ساتھ ہر نعمت سے عظیم تر۔ جاننا چاہتے ہیں تو قیدیوں کے دل سے پوچھیں۔
پھر دنیا کو تو بندۂ مومن کے لیے قید خانہ کہا گیا۔ یااللہ کوئی ایک قدر بھی تو مشترک نہیں ہم میں اور ان قیدیوں میں۔ یہ معرفت کی کن منزلوں پر… انہوں نے دنیا کو کتنے قریب سے دیکھا… جانے کس کس نے تین طلاقیں بھی دے دی ہوں۔
اور ہم سرتاپا دنیا میں غرق۔ ہاتھ بڑھا بڑھاکر ہل من مزید کہتے عمریں گزر گئیں اور آسائش… مزید آسائش ہی حاصلِ زندگی ٹھیری۔ کاش ان قیدیوں والی معرفت ہم پا سکتے۔
کتنی خوش تھی وفاؔ ملاقات آنے پر… ملاقات تو ہماری بھی آنے والی ہے۔ کیا ہے اتنی بے چینی سے انتظار؟ کیا ہے تیاری اس ملاقات کی؟
ملاقات سے واپسی پر وہ بڑا سا شاپر کھول کر دکھانے لگی۔ ’’میری فیورٹ آئس کریم، فرائڈ فش، چاکلیٹ بار‘‘۔ اس کی بہن بہنوئی ملنے آئے تھے… کتنے لوازمات لائے اس کی چھوٹی سی خوشی کے لیے۔
اس قید خانے کے اختتام پر نعمتوں بھری جنتوں کے وعدے تو ہم سے بھی ہیں، مگر دنیا کو قید خانہ سمجھا ہی کب! ملاقات سے وفاؔ جیسی سرشاری حاصل کرنے کے لیے تو بہت کچھ کرنا ہوگا، کہ اطلاع آئے ’’ملاقات‘‘…بھاگ دوڑ لپاک جھپاک… دنیا کی صفوں کو روندتی ہوئی، دنیا کی راہ داریاں پھاند جاؤں کہ اسی ملاقات کی تو تیاری تھی… اور لاشعور میں اسی کا میٹھا، سندر سا انتظار۔
’’مسز فاروقی آپ نے تو وفا کا حق ادا کردیا۔‘‘
کل ہی کی تو بات ہے، محض دس بارہ برس ہوئے ہوں گے جب میں المحصنات سے وابستہ تھی۔ وہ دونوں بچیاں جو جسمانی طور پر کچھ کمزور تھیں، جامعہ کی طالبہ تھیں۔ چونکہ میرے علاقے میں رہتی تھیں، تو ہم اکٹھے بھی آجاتے تھے۔ یوں ان دونوں اور ان کی پُرعزم ماں سے باتوں کا موقع مل جاتا تھا۔
ایک عورت جس کے 9 بچوں میں سے 3 جسمانی طور پر کمزور ہوں مگر وہ پوری توانائی لگاکر اس دھن میں تھیں کہ انہیں اچھا انسان بنانا ہے۔
میں نے بہت باحوصلہ پایا انہیں، ہمیشہ جدوجہد سے پُرعزم سراپا۔
ایک ایک کرکے بچوں کی شادی کررہی تھیں۔ معاشی مشکلات کبھی آئیں تو راہ کا کانٹا نہ بننے دیا، خود خاندان کے لیے ہر طرح کی قربانی دی جس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔
پچھلے ہفتے ہی تو بیٹی کی شادی کی تھی… تین روز قبل نوبیاہتا دلہا دلہن اور چار دیگر عزیزوں کے ساتھ بیٹی کو چھوڑنے جارہی تھیں کہ ہائی وے پر ٹرالر سے ٹکرا کر گاڑی میں آگ لگ گئی، اور اگلے دن چھوٹی سی خبر اخبار کی کہ سوختہ لاشوں کی شناخت ممکن نہ تھی…
6 جنازے جس گھر سے اٹھے ہوں وہاں جاکر تعزیت کے الفاظ آپ کہاں سے لائیں!
اپنی شاگرد پُرعزم ندا فاروقی کا ہاتھ تھام کر میں اناللہ وانا الیہ راجعون کے سوا کچھ نہ کہہ سکی۔ کل جب شام کے سائے ڈھل رہے تھے میں شرکاء خواتین کے درس کی مجلس میں انا للہ کے فلسفے پر بات کررہی تھی کہ یہ چند الفاظ مومن کی زندگی کا آئینہ ہیں کہ وہ اپنا تو کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ مسافر خانے سے مسافر کی کیا دل لگی! جیل خانے میں قیدی کی کیا دلچسپی!
ندا میرا ہاتھ تھام کر بولی: میڈم آپ کی بیٹی صدف چلی گئی۔ میں نے کہا: رب کی مہمانی بڑی چیز ہے۔ پورے حواس میں تھی، تسلی سے درس سنا۔ شرکاء کی آنکھوں میں آنسو ٹھیرے ہوئے تھے۔
بولی: میں نے امی سے کہا آپ نے مجھے محصنات سے پڑھوایا کہ میں اچھی مسلمان بنوں۔ امی اب میری دونوں بیٹیاں بھی دین کا علم حاصل کریں گی، میرا وعدہ ہے انہیں خود سے اچھا مسلمان، مدرس اور مبلغ بنانا ہے، مجھے اپنی امی کے خوابوں کی تکمیل کرنا ہے۔
مسز فاروقی کی نندیں دیورانیاں سب غم سے نڈھال کہ وہ بہنوں سے اچھی بہن تھیں، سراپا عمل تھیں۔
سارے خانگی بوجھل پن کے باوجود اقامتِ دین کو زندگی کا مشن بنایا اور بچوں کی اعلیٰ تربیت کی، جس کی گواہی ان کا صبر دے رہا تھا۔
ان کی دیورانی بضد تھیں کہ آپ کھانا کھائے بنا نہیں جائیں گی۔ ان کے انتقال پر اس روایت کو نہ توڑئیے، وہ کسی کو بغیر کھانا کھائے جانے نہ دیتی تھیں۔ مہمان داخل ہوتا تو کھل اٹھتیں اور کچن کا رخ کرتیں اور کوئی کسر نہ چھوڑتیں۔
میں نے آسمان کی سمت دیکھ کر کہا: مولا سب گواہیاں قبول کرلیجیے گا۔ سوختہ لاشیں دنیا والے نہ بھی پہچان سکیں، آپ تو پہچان گئے اپنی بندی کو، جو اپنے پیاروں کے ساتھ لمحہ بھر میں آپ سے آن ملی۔ مولا بہترین میزبانی فرمایئے گا۔ آپ کے ٹھنڈے گھر نے جلنے کی سب تکلیف لمحوں میں مٹا دی ہوگی، ان شاء اللہ۔
…………
یہ کراچی یونیورسٹی کا گرلز کامن روم ہے۔ مختلف شعبہ جات کی طالبات سامنے قالین پر بیٹھی ہیں۔ کل سہ پہر میں ان سے استقبالِ رمضان کے موضوع پر گفتگو کررہی تھی۔
یونیورسٹی میں داخل ہوں تو نیا کچھ بھی نہیں لگتا۔ وہی الٹے ہاتھ پر جمنازیم اور پوسٹ آفس، وہی سیدھے ہاتھ پر ایڈمن بلاک، اس کے عقب میں بنے ہوئے وہی ڈپارٹمنٹس جہاں روز قدم اٹھتے رہے چھ برس تک۔ وہی راہ داریاں، وہی پارکنگ ایریا۔ مجھے لگا درختوں کی ترتیب تک نہیں بدلی، ہاں مالی یقینا بدل گئے ہوں گے۔
خاصی چہل پہل دیکھی۔ سوشل سائنسز کے مقابلے میں سائنس فیکلٹی میں اس وقت بھی چہل پہل ہوتی ہے ہمیشہ سے۔
سامنے بیٹھی بچیاں جو بیس سے پچیس برس کی عمروں کی تھیں، ان کی آنکھوں میں بھی وہی خواب ہوں گے جو تیس برس قبل ہم جاگتی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔
میں نے قرآن اور رمضان کے تعلق پر گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا:
بچیو! میں نے راستے بھر جن لڑکیوں کو زیرو پوائنٹ یا سلور جوبلی گیٹ کی طرف جاتے یا درحتوں کے نیچے تھکن اتارتے یا کیفے ٹیریا کے اطراف گپ شپ کرتے دیکھا، میں نے خود کو پایا۔ جی چاہا کسی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہوں: سنو تم میرا گزرا ہوا کل ہو جو بہت جلد، بہت جلد گزر گیا ہے۔ تمہارا آنے والا کل جو جلد، بہت جلد آجائے گا، جیسے بن کروٹ لیے رات گزر جاتی ہے۔ بخدا کوئی مجھ سے پوچھے آپ کس سن میں تھیں اس دنیا کا حصہ، تو میں برجستہ کہوں گی: سن… کون سا سن؟ یہ تو کل کی بات ہے، گزرے ہوئے کل کی۔
آہ یہ کل بہت جلد گزر گیا بنا کچھ کہے۔ مٹھی کھولی ہی تو تھی ابھی کہ سب ریت پھسل گئی ہے بچیو میری مٹھی سے۔ خالی ہتھیلی کی لکیریں ہیں اور سورہ العصر!!!!‘‘
اتنا ہی تو کہا تھا میں نے، نظر اٹھا کر دیکھا تو بچیاں جانے کیوں آب دیدہ تھیں۔ اور کچھ کی آنکھوں میں پھیلے ہوئے حیرت کے ڈورے، جن سے میرے ماضی کے دھاگے جڑے تھے۔
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا