آج آٹھواں دن تھا اس کے آنسو دیکھتے ہوئے۔ غم سا غم ہے۔ میاں عین عالم شباب میں داغِ مفارقت دے گیا۔ ہارٹ فیل کی صورت میں تین ننھے بچوں کی ذمے داری اس کے ناتواں کاندھوں پر چھوڑ گیا۔ تین برس سے باپ کے گھر تھی مگر جب دیور سے شادی کا دبائو بڑھا، بصورتِ دیگر بچے چھین لینے کی دھمکی ملی تو مرتی کیا نہ کرتی ایک ماہ قبل پھوپھی کے پاس کراچی چلی آئی کہ اب نکمے نشئی دیور کے ساتھ زندگی گزرے گی۔
گھروں میں جھاڑ پونچھ کرتی ہے۔ میں نے بھی کچھ خدمات لے لی ہیں اس کی۔ ایک ہی سودا سمایا ہوا ہے سر میں کہ ’’باجی میں نے اپنے بچے پڑھانے ہیں‘‘۔ کتنی معصوم اور جائز خواہش ہے ایک ماں کی۔
میں نے کہا ’’دوچار اسکولوں کے چکر لگائو، جہاں کی فیس مناسب ہو وہاں کرتے ہیں کوشش۔
اس نے اسکولوں کے ریٹ لانے شروح کردیے۔ اس کی حالتِ زار خود ببانگ دہل بیان کرتی ہے کہ وہ معاشی طور پر کس کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ لہٰذا اسکول انتظامیہ اس کی بیوگی پر ترس کھاکر پندرہ ہزار سے دس ہزار کردیتی سالانہ فیس، کہیں دس ہزار سے سات ہزار ایک بچے کی فیس۔ میں نے کہا ’’تم بتاتی نہیں کہ بیوہ ہوں؟‘‘ اس کی آنکھوں میں ٹھیرے آنسو جو کسی بھی وقت ٹپ سے گرپڑتے ہیں اب بھی آنکھوں سے جدا ہوگئے۔ ’’کیوں نہیں باجی، ہاتھ جوڑتی ہوں اسکول انتظامیہ کے، وہ کہتے ہیں کم کردی ہے باجی کو دکھا دو جاکر۔‘‘
خواہش تھی کہ کاش کوئی ایسا اسکول ہو جو محبت سے سمیٹ لے ان یتیم بچوں کو۔ اچانک بیٹھک اسکول کا خیال آیا۔ مگر وہ تو کسی کسی علاقے میں ہیں۔ انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ میری یا ماسی رخسانہ کی خوش بختی کہ معلوم ہوا گلستان جوہر میں پہلوان گوٹھ پر برانچ ہے قبرستان کے عقب میں، مگر داخلے بند ہوگئے، بچے بھی گنجائش سے زیادہ آچکے ہیں، بہرحال یتیم بچے ہیں لے آئیں۔ کل ماسی کو ساتھ لے گئی۔ وہ اسکول کی بلڈنگ کے باہر پھر روپڑی ’’باجی سچ، میرے بچوں کے ہاتھ میں بھی بستہ ہوگا! مجھے اسکول کی وردی میں بچے بہت اچھے لگتے تھے، سوچتی تھی کہ کاش…‘‘
یہ بیٹھک اسکول میں پرنسپل کا کمرہ ہے۔ خوش آمدید کیا انہوں نے کھڑے ہوکر۔ سب تفصیلات سے ماں کو آگاہ کیا۔ بہترین تعلیم اور مثالی تربیت… ماہانہ فیس دوسو روپے ہے، داخلہ فیس محض سو روپے جو یتیم بچوں سے نہیں لی جاتی۔ کورس ڈھائی سوروپے میں۔ یونیفارم انتہائے معمولی نرخ میں، وہ بھی اکثر خود ہی دے دیا جاتا ہے ضرورت مندوں کو۔ اساتذہ کا معیار کسی بھی مہنگے اسکول کے معیار سے کم نہیں، مگر انتہائی معمولی تنخواہوں پر ایک مشنری جذبے سے سرشار مگن ہیں۔
کتنا بڑا کام ہے یہ۔ شاید سب سے بڑا کام یہی ہے انسانیت کا قرض اتارنے کا، اور کوئی طریقہ اس سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ جانے کتنی رخسانائوں کے خوابوں کو تعبیریں مل رہی ہیں یہاں۔ SEW سوسائٹی فار ایجوکیشنل ویلفیئر کی چئیرپرسن کو میں نے بتایا رخسانہ کے بچوں کے داخلہ کا، تو وہ انتہائی درد بھرے لہجے میں بولیں ’’جی چاہتا ہے چپے چپے پر ایسے اسکول کھول دیں، کوئی بچہ ناخواندہ نہ رہے اس دیس کا۔‘‘
کل سے دل خوشی سے سرشار اور ذہن پر ایک ہی فکر سوار کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اس عظیم کاز کے لیے۔
لمحہ بھر رکی اور موبائل کیمرے میں محفوظ کرلی اس عظیم بلڈنگ کی تصویر، جہاں بہت سے لوگ اس ملک وملت کا قرض چکا رہے ہیں۔
افشاں نوید
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا