مائوں کا دن پوری دنیا نے بڑے زور و شور سے منایا۔ اس دن کی مناسبت سے فلسطینی مائوں کا جائزہ ضروری ہے۔ وہ مائیں جو روز اپنے بچوں کی ہلاکت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی ہیں۔ اپنے جواں سال بیٹوں بیٹیوں کے خون میں لت پت لاشے دیکھ رہی ہیں اور خون کے آنسو بہا رہی ہیں۔
صبر کے گھونٹ پی رہی ہیں… مسکرا رہی ہیں۔ مطمئن ہیں۔ رب کی راہ میں مسجد اقصیٰ کے لیے اپنے بچوں کی شہادت پر رب کی حمد و ثنا کررہی ہیں اور اللہ سے قبولیت کی دعائیں کررہی ہیں پھر یہ ہی بات ان پر صبر اور سکنیت طاری کردیتی ہے۔
غزہ میں کوئی خاندان ایسا نہیں کہ جس نے صہیونی حملوں میں اپنے نوجوان اور معصوم بچے نہ کھوئے ہوں اور کوئی خاندان ایسا نہیں جہاں بچوں نے اپنی ماں کھو دی ہو۔
غزہ کی ماں آج پوچھ رہی ہے کہ…
’’ کیا انسان اتنا ظالم ہوسکتا ہے ‘ جتنے ظالم صہیونی اور اس کے ہمنوا ہیں؟‘‘
دنیا میں شاید ہی ایسا دل ہو کہ وہ غزہ کی مائوں اور بچوں کے لیے رنجیدہ نہ ہو۔
اقوام متحدہ کے ادارے ’یورپین ویمن‘ کے مطابق غزہ میں اب تک نو ہزار صرف خواتین ہلاک ہوچکی ہیں ایک اندازے کے مطابق ہلاک ہونے والی خواتین کی شرح تریسٹھ (63) خواتین روز ہے۔ جن میں سے 37 مائیں ہیں یہ ہر روز شہید ہورہی ہیں ( یاد رہے کہ یہ اعداد و شمار مارچ کے پہلے ہفتے کے ہیں یہ خواتین اور مائیں اپنے پیچھے تباہ شدہ خاندان اور بچے چھوڑ رہی ہیں)
غزہ کے محصور علاقوں اور اب رفع میں جنگ کو خواتین خصوصاً مائوں کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے۔ غزہ کی ماں جدید دنیا کی تاریخ کی سب سے زیادہ بہادر صابر اور ثابت قدم عورت ہے جن حالات میں وہ رہ رہی ہیں وہ انتہائی خوفناک اور اذیت ناک ہیں۔
ہزاروں مائیں ہیں جو ہلاک کردی گئیں ہزاروں مائیں ہیں جن سے ان کے لخت جگر چھین لیے گئے ہزاروں مائیں ہیں کہ جن کے لخت جگر اسرائیلی قید خانوں میں برسوں سے قید ہیں۔ یہ مائیں اپنے بچوں سے ملنے کے لیے ترستی ہیں مہینوں اور سالوں گزر جاتے ہیں لیکن ظالم اسرائیلی ان کو اپنے بچوں سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتے ان میں سے اکثریت بغیر کسی جرم کے پکڑ کر قید کیے گئے ہوتے ہیں۔
انہیں انتہائی غیر انسانی ماحول میں رکھا جاتا ہے۔ اذیت کا ایک سلسلہ ہے جو ان سے روا رکھا جاتا ہے۔
ان ہی مائوں میں ’اُمِ ملاک‘ بھی ہیں جو اپنی چودہ سالہ بیٹی سے ملاقات کے لیے بے قرار رہی۔ وہ اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ صہیونی درندوں نے ان کی معصوم بچی کو جس کی عمر صرف چودہ سال ہے رام اللہ کے الجلزون کیمپ سے اغواء کیا اور کسی عقوبت خانے میں قید کردیا۔ اب کوئی نہیں بتاتا کہ اس پر کیا گزر رہی ہے۔
اسرائیلی جیلوں میں قید کم سن بچوں کی تعداد جو اٹھارہ سال سے کم ہیں سینکڑوں میں ہے۔ سینکڑوں مائیں ہیں جو صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں بے جرم و خطا گرفتار کی گئیں سو چیں ان کے بچے ان کے بغیر کیسے تڑپتے ہوں گے۔
فلسطینی مائوں کی قوت اللہ اور اللہ کے کلام سے قربت اور اللہ کے پیارے رسولﷺ سے محبت و الفت ہی ہے کہ وہ انہیں اس امتحان میں سرخرو کررہی ہے یہ ہی بات ساری دنیا کو ان کی طرف متوجہ کررہی ہے۔
غزہ میں تقریباً پچاس ہزار حاملہ خواتین ہیں جو جلد ماں بننے والی ہیں ایک سو اسی خواتین روزانہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مناسب طبی نگہداشت کے بغیر پیدائش کے عمل سے گزرتی ہیں جن کو جراثیم کش ادویات بے ہوشی یا درد کشی کی ادویات کے بغیر سیزیرین اور ہنگامی آپریشن کرانا پڑتا ہے۔
شمالی غزہ کے اسپتال کی ایک دائی نے این جی او ایکشن ایڈ کو بتایا کہ اسرائیلی بمباری کے دوران درجنوں حاملہ خواتین کو درد زہ ہوگیا۔
ایک خاتون جس کے گھر بمباری کی گئی تھی اور وہ ملبے کے نیچے سے بچالی گئی تھی اس کے جسم پر کئی جگہ فریکچر ہوئے تھے۔ اس کے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ انتہائی معجزاتی طور پر وہ اور اس کا بچہ بچالیا گیا۔
لیکن کس قدر اذیت کی بات ہے کہ اس طرح غزہ کی خواتین سے ان کے بچوں کی پیدائش کے لیے محفوظ جگہ کا حق چھین لیا گیا۔ مائوں نے اپنی اور اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات تک رسائی کا حق بھی کھودیا ہے یعنی ایک حاملہ سے اس کی زندگی کا حق چھین لیا گیا۔ اسرائیل کی غزہ کی پٹی پر جارحیت کو وسعت دینے کے بعد سے اسی ہزار خواتین اپنے گھروں سے بے گھر ہوچکی ہیں۔
فلسطینی خواتین نے اس قدر مشکل حالات جن کو وہ سالوں سے بھگت رہی ہیں ان میں بھی حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
’’عبیر قینبی‘‘ مئی 2023ء میں عرب دنیا کی سطح کا ’تخلیقی استاد‘ کے زمرے میں ’خلیفہ ایجوکیشنل‘ ایورڈ جیتا ہے۔ عبیر مغربی کنارے میں الخلیل کے علاقے میں ریاضی کے استاد ہیں اس سے پہلے انہوں نے فلسطینی وزارت تعلیم کے تحت سالانہ مقابلے میں ’فلسطینی ٹیچر‘ کا خطاب جیتا تھا۔ غزہ کے عشروں کے محاصرے میں فلسطینی خاتون ’النجاد‘ نے 2013ء میں القدس اوپن یونیورسٹی سے مارکیٹنگ سائنس میں ڈگری حاصل کی لیکن انہیں کہیں نوکری نہ مل سکی آخر ایک سال کی جدوجہد کے بعد صابن بنانے کی ٹریننگ لے کر گھر میں صابن بنانے کا کام شروع کیا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اپنی سات طرح کی مصنوعات بنانا شروع کیں جن میں شیمپو‘ واشنگ مشین کے لیے صابن سرف اور برتن دھونے والا صابن شامل تھا۔
انہوں نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ خواتین کو صابن بنانے کی تربیت دینے کے لیے النصیرات کیمپ میں شمولیت اختیار کی 2020ء تک ان کا یہ گھریلو کاروبار مستقل ترقی اختیار کررہا تھا لیکن اب وہ کہاں ہوں گئی محفوظ ہوں گی یا نہیں یہ بتانا مشکل ہے۔
فلسطینی طالبہ سارہ ابو راشد اکتوبر 2022ء میں شام کے یرموک کیمپ میں پناہ گزین کی زندگی گزار کر امریکہ پہنچی ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا کامیاب رہیں اور ہارورڈ یونیورسٹی میں بہترین پوزیشن حاصل کی۔ سارہ ابو راشد شاعرہ اور ادیبہ بھی ہیں ان کی ایک نظم امریکی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل کی جاچکی ہے۔ جبکہ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ اب تک امریکہ کے سولہ مختلف شہروں میں دکھایا جاچکا ہے۔ ان کے تحقیقی مضامین مختلف امریکی تحقیقی جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔
وہ جب شام کے یرموک کیمپ سے ہجرت کرکے آٹھ سال قبل امریکہ پہنچیں تو کیمپ میں فلسطینی مہاجرین انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ وہ بتاتیں ہیں کہ بھوک مٹانے کے لیے ہم فلسطینی گھانس تک کھانے پر مجبور ہوتھے تھے۔
فلسطینی ڈاکٹر جنان الشاعر‘ کو دسمبر 2016 میں اس ماہ کی بہترین ڈاکٹر کا ایوارڈ ورجینیا یونیورسٹی نے جاری کیا۔ ایک اور فلسطینی ڈاکٹر جن کو آئرن وومن بھی کہا گیا ڈاکٹر عامرہ ال اصولی ہیں جن کو فروری 2024ء کے وسط میں اسرائیلی گولہ باری اور فائرنگ کے دوران زخمی فلسطینی نوجوان کو ریسکیو کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
فلسطینی قوم کو قدرت نے ایسی بہادر مائوں سے سرفراز کیا ہے کہ جن کی گود میں پرورش پانے والے صہیونی ریاست کے ظالمانہ اور غیر انسانی ہتھکنڈوں کا بے جگری سے مقابلہ کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے مصائب اور آلام ایسے ہیں کہ ساری دنیا ان کے صبر برداشت اور جذبے پر حیران ہے۔
ان بہادر غیور فلسطینی مائوں میں صبیحہ القواسمی جو اُمِ حسن کے نام سے مشہور رہیں۔ ان کی زندگی قربانی بہادری دلیری صبر استقامت اور حب الوطنی کا عملی نمونہ ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں جلا وطن ‘اسیر اور شہید بیٹوں کی ماں کہلاتی تھیں آج سے نہیں برسوں پہلے سے فلسطینی قوم شہیدوں غازیوں اور اسیروں کی باوفا و بہادر قوم ہے۔ اُمِ حسن کی طرح اُمِ خناء ہیں جن کے باغی بیٹوں اور ایک بیٹی میں سے ایک شہید ہوچکا اور چار بیٹے اور بیٹی صہیونی زندانوں میں قید ہیں ان مجاہد فلسطینی خاتون کی املاک بھی صہیونی حکام نے مسمار کردی تاکہ اس پر قبضہ کیا جاسکے۔
اس فلسطینی ماں کے بارے میں کیا سوچا جاسکتا ہے کہ اس کے کرب اور تڑپ کا کیا حال ہوگا جس نے شادی کے تیرہ سال بعد بچہ پایا اور وہ انیس سال کا ہوا تو پھر اسے صہیونی دہشت گردی کے باعث کھو دیا۔ دنیا بالکل خاموش رہی فلسطینی مائوں کی گودیں اجڑتی رہیں۔ معصوم بچے مائوں سے محروم ہوتے رہے۔ دہشت گرد صہیونی ریاست دنیا کے طاقتور ترین ممالک کی حمایت سے ظالمانہ اور غیر انسانی کاموں میں مشغول رہی سارے اصول اور انسانی حقوق بھی اسی ملبے تلے دب گئے۔ طاقت میں بدمست صہیونی ریاست ’دفاع کے حق‘ کی آڑ میں جب چاہے جیسے چاہے بے روک ٹوک ظلم کررہا ہے اور دنیا میں مہذب کہلانے والی قومیں اس کو مکمل حمایت اور اسلحہ فراہم کررہی ہیں۔
بھلا بتائیے تو معصوم بارہ سالہ بچی الماء جو اپنے خاندان میں واحد زندہ بچ جانے والی ہے وہ کیا کرے اس کے والدین چودہ سالہ بھائی دو چھوٹی بہنیں سب بمباری میں ملتے تلے دب کر شہید ہوگئے سب سے چھوٹا بھائی اٹھارہ ماہ کا تھا کیا ان جیسے ہزاروں بچوں مائوں اور نوجوانوں کو قتل کرنا ’دفاع کا حق‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ صہیونی ریاست کی یہ دلیل بودی اور انتہائی کمزور ہے۔ معاملہ اب بالکل برعکس ہے۔ یہ ثابت ہوچکا کہ قابض صہیونی ریاست کے ساتھ تصادم میں مزاحمت کا ایک ایسا محور تیار ہوگیا ہے کہ جو فلسطین اور فلسطین کے باہر پوری دنیا میں صہیونی قابض ریاست اور اس کے تمام ہمدردوں کو چیلنج کررہا ہے۔
غزالہ عزیز(اُمِ ایمان)
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا