November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

الوداع رمضان



الوداع رمضان

بواسطة Admin / 0 Comment

بچپن کے رمضان کی یادوں میں ایک واضح اور شفاف یاد رمضان المبارک کے آخری دن ہیں۔ جب عید کا بے تابی سے انتظار ہوتا۔ نئے کپڑے، جوتے رات میں سوتے وقت بھی اس زاویے سے رکھے جاتے کہ آنکھ کھلے تو نظر آتے رہیں بالخصوص چاند رات تو ساری سونے جاگنے کی کیفیت میں گزرتی۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ وہ برکتوں والا دن ہوتا تھا جب ماں باپ بچوں کو نیند سے بیدار کرنے کی ذمہ داری سے آزاد ہوتے۔ صبح سویرے مہندی والے ہاتھ سے مہندی دھوئی جاتی۔ کون مہندی چھوٹے شہروں میں متعارف نہیں ہوئی تھی۔ بازار سے پسی ہوئی مہندی کو گھول کر جھاڑو کے تنکے  سے باجیاں ہتھیلیوں پر ڈیزائن بناتیں اور  چھوٹے بچوں کے ہاتھوں پر گول ٹکیہ کافی سمجھی جاتی۔

مہندی کی خوشبو نئے کپڑے جوتے اور نمکین، میٹھے پکوانوں کے ساتھ ساتھ نئے نکور نوٹوں کی خوشبو طبیعت میں عجیب سرمستی پیدا کرتی۔ بالعموم اپنے آپ کو اس دن زمین کی بجائے کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھا جاتا۔

پھر ماہ و سال کے چکروں میں عمر عزیز کی چار اور پھر پانچ دہائیاں بھی گزر گئیں۔ عید کا دن اور عیدی ملنے کی خوشی اپنے بچپن سے بچوں کے بچپن میں منتقل ہوگئی۔  اب عید جس حالت میں گزرتی ہے تو بے اختیار مرحوم والدین یاد آجاتے ہیں۔ عید کا دن عید کی خوشیوں کے ساتھ جانے والوں کے غم کو بھی تازہ کرتا ہے۔ ایک آنکھ رو رہی ہوتی ہے تو دوسری مسکرا رہی ہوتی ہے۔

گزشتہ سال ستمبر کے پہلے عشرے میں عمرہ کے مبارک سفر سے واپسی ہوئی تو پے درپے چھوٹی بڑی آزمائشوں نے گھر دیکھ لیا۔ اللہ پر یقین جتنا بھی پختہ ہو آزمائش تو ہڈیوں کو بھی سلگا دیتی ہے۔ ایسے ہی تو رب العزت نے اپنے نبیوں تک کو صبر کی تلقین نہیں کی۔

ایک کے بعد دوسری آزمائش آئی اور گزر گئی شکر الحمد للہ لیکن نتیجہ گوشت پوست سے بنی صنف نازک کے لیے خرابی صحت کی صورت میں برآمد ہوا۔مٹھی بھر بھر کے صبح شام ادویات لیتے ہوئے یہی فکر طاری ہوتی کہ روزے کیسے رکھے جائیں گے، دورہ قرآن کا تو ففٹی ففٹی معاملہ تھا۔

یہ بھی پڑھیے

الوداع، الوداع ماہ رمضان الوداع

نہ جا، نہ جا، رمضان پیارے!

عید ایک رسم یا تہوار؟

رب سے مدد مانگی۔ دورہ قرآن لینے کا فیصلہ کیا۔ رمضان المبارک کے چاند کی اطلاع کے بعد پہلا کام بخیر و عافیت رمضان گزرنے اور صدقہ کی ادائیگی کا ہی ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بھی نفل کی ادائیگی کے بعد صدقہ دیا۔ پہلے دن کے دورہ قرآن میں دس ایک منٹ مسلسل بولنے سے گلے میں تکلیف ہوئی۔ ساتھ ہی جسم میں حرارت محسوس ہوئی اور گلے میں شدید انفیکشن۔ایک لفظ بھی بولنے کی کوشش کرتی تو آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہوجاتا۔ درد کی وجہ سے گلے میں گلٹیاں محسوس ہوئیں۔

سوشل میڈیا پر دعاؤں کی درخواست کے ساتھ ڈاکٹر بیٹی سے رابطہ کیا تو جواب ملا وائس ریسٹ۔!

جی الفاظ گلے کے نیچے ہی رہنے چاہئیں۔ سخت ذہنی اذیت صدقہ کی ڈوز ڈبل کی دعاؤں میں شدت پیدا کی۔ افطاری میں سموسوں، پکوڑوں کی بجائے دارچینی چھوٹی الائچی کی چائے لازمی جزو بن گئی۔ تین گھنٹے کے ترجمہ تفسیر سے فارغ ہو کر گھر میں آتی تو اگلے بیس گھنٹے چپ شاہ کا روزہ رکھ لیتی۔ اشاروں میں بات ہوتی۔ بیٹیوں سے کہہ دیا خبردار! ماں سے وڈیو کال کی صورت رابطہ کرلیں، شکل دیکھ کر گزارہ کریں۔ یوں اتنی زیادہ احتیاطی تدابیر کے بعد

الحمد للہ دوسرا دن خیریت سے گزر گیا۔ تفسیر کا دورانیہ بڑھتا رہا۔ شرکاء مقررہ وقت سے تیس بتیس منٹ پہلے ہال میں موجود ہوتے تو اس احساس سے آنکھوں میں پانی آجانا کہ یہ علم کے پیاسے آج بھی دور دراز سے وقت سے پہلے موجود ہیں تو یہ اللہ کا فضل ہے۔

انیسویں روزے سے دوسرے علاقوں میں تکمیل قرآن کے لیے مدعو کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یوں اٹھائیسویں روزے تک کوئی دن فراغت کا نہ مل سکا۔

اب  سال رواں کا رمضان اس روئے زمین سے رخصتی کے سفر پر ہے۔ کچھ علاقوں میں پرسوں عید ہوگی کچھ میں ترسوں۔

اس سال مسنون دعاؤں کے اہتمام میں یہ دعا بھی بطور خاص شامل رکھیں کہ یا اللہ اگر یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہے تو اسے مغفرت رحمت اور برکتوں سے زندگی کابہترین رمضان بنادے۔

وہ مہینہ جس کی آمد سے پہلے خوف اور فکر کا غلبہ تھا اب وہ مہینہ رخصت ہونے کو ہے۔ عید کی خوشی سے کہیں زیادہ روزوں کی جدائی کا غم ہے لیکن مجھے اس مہینے نے یہ بتایا کہ طلب سچی ہو اور پیاروں کی دعائیں شامل حال ہوں تو بہت بڑے مسائل بھی حل ہوجاتے ہیں۔ ناممکنات کو بھی ممکن کیا جا سکتا ہے۔ بے شک یہ رب العزت کا فضل ہی ہے۔

الحمد للہ نماز تراویح کی باجماعت ادائیگی کی سعادت بھی روزانہ ملی۔ اپنی حد تک نیکیوں کے حصول کے لیے کوششیں بھی کیں۔ اب جب کہ عید اڑتالیس گھٹنے سے بھی کم کے فاصلے پر ہے تو آخرت، حساب کتاب، غزہ کے حالات اور ملکی صورتحال نے فکر کو پراگندہ کر رکھا ہے۔ عید نبی اکرم کی سنت سمجھ کر منانا خوشدلی سے منانا بھی دین کا حصہ ہے تاہم عید تو بچپن کی ہے۔ ہماری عید تو اب رب کی دید سے ہی ہوگی۔

زندہ رہے تو اگلی عید پر لفظوں کا نذرانہ پیش ہوگا وگرنہ یہی بلاگ ہمارا سلام آخر ہے۔

تقبل اللہ منا و منک صالح العمال

                                  قانتہ رابعہ


جواب چھوڑیں

.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا