اسلام میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے مطالبہ فرمانبرداری اور اطاعت کا ہے ۔ انسان عقیدے ، عمل دونوں میں اپنی خواہش اور مرضی سے دستبردار ہو جائے ۔ وہ اہنی مرضی سے نیند تک نہیں لے سکتا ، کھا نہیں سکتا ، کہیں پائوں باہر اپنی مرضی سے رکھ نہیں سکتا . تجارت ، سیاست ہر شعبے میں اب وہ اللہ رب العزت اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کا پابند ہے .
آنکھیں نیند سے بوجھل ہیں مگر فجر کی نماز اس سے بھی زیادہ ضروری ہے . گھر سے باہر جاتے ہوئے بایاں پائوں نکالنا ہے ، ناخن اور غیر ضروری بال جمعہ کو کاٹنا ہیں ۔ یہ پابندی اور اطاعت صبح آنکھ کھلنے سے رات آنکھ بند ہونے تک ہی نہیں مرتے دم تک کی ہے ۔ یہاں تک کہ مر بھی گئے ہیں تو قبر میں انسان کی مرضی سے نہیں . رب العزت کی اطاعت میں قبلہ رو میت کو لٹانے سے ہے اس بے جان کو بھی انسان جیسے چاہے نہیں لٹا سکتا ۔
انسان کی فطرت پابندی مشکل سے ہی برداشت کرتی ہے ۔ ایک دو دن کی نہیں ساری زندگی کی پابندی وہی برداشت کرتا ہے جس میں خدا کی محبت ہو اور یہ محبت اس کمال درجہ کو پہنچ جائے کہ جتنی پابندی زیادہ ہوگی اس میں لذت بھی اسی قدر ملے گی جیسے ابراہیم علیہ السلام کی زندگی۔
یہ محبت حیا کی پیداوار ہے اور اللہ نے حیا کو دین اسلام کا وصف قرار دیا ۔ یہ حیا اللہ رب العزت نے دنیا میں آنے والے ہر انسان کو بلا رنگ تفریق مذہب ،نسل سب کو عطا کی دنیا میں کبھی کوئی شخص بے حیا پیدا نہیں ہوا ۔ اس کی چھوٹی سی خوبصورت مثال کسی نے یہ دی کہ نو مولود بچے کے بھی جب پیمپر یا نیپی لگانے کے لیے اسے ننگا کیا جاتا ہے تو وہ اپنی دونوں ٹانگیں اکھٹی کرتا ہے یعنی مجھے ننگا مت کرو .
کوئی بھی انسان جو اسلام کی معمولی سی بھی سدھ بدھ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ حیا کو اتنا اہم کیوں قرار دیا گیا کہ سب نیکیوں کا سرچشمہ ہی بنا دیا اور حیا سے دور ہونے والے کے لیے اللہ رب العزت نے اپنا ہاتھ پیچھے کرنے کا اعلان کردیا .
انسان فرشتہ نہیں ہے اس کے اندر خیر اور شر دونوں موجود ہیں لیکن خیر والا بخشش کا امیدوار ہونے کا استحقاق رکھتا ہے ۔ اس خیر کا دارو مدار بھی حیا پر ہے . فتح الباری میں حیا کا مفہوم ہی یہ بیان کیا گیا ہے ” حیا اس کیفیت کا نام ہے جس کے زیر اثر انسان عیب والے کام کرنے سے رکتا ہے ”
سادہ انداز میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان معزز لوگوں کے درمیان برا کام جس کیفیت کی وجہ سے نہیں کرتا اسے حیا کہتے ہیں ۔ مطلوب رب العزت کی ہمہ وقت موجودگی کا احساس ہے جو برے اور غلط کاموں سے روک سکے .
چونکہ حیا ہر انسان کی فطرت میں رکھ کے بھیجا گیا ہے لیکن یہ بھی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے یعنی کسی میں بہت کم یا کسی میں زیادہ ۔ ہاں ایک بات طے شدہ ہے کہ انسان اللہ کی نافرمانی جتنی زیادہ اور جتنے دھڑلے سے کرتا چلا جائے گا وہ اتنا ہی بے حیا ہوتا چلا جائے گا ۔ تھوڑا سا غور کریں تو اللہ رب العزت کی کچھ جانوروں اور چیزوں کو حرام قرار دینے کی حکمت سمجھ میں آ جائے گی ۔ کتے کو اس لیے حرام قرار دیا کہ اس کے اندر بے تحاشا حرص ، حسد کی عادت ہے خنزیر کو اسی لیے حرام قرار دیا کہ وہ سب سے بے حیا اور دیوث جانور ہے اور اس کے گوشت سے انسان میں ان عادات بد کے اثرات آنا نا ممکن نہیں ۔ اقوام مغرب کی بے حیائی کو سامنے رکھیں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ اللہ رب العزت نے اسے کیوں حلال نہیں کہا ۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد سب سے پہلے خنزیر کو کیوں ذبح کریں گے
حضرت سلمان فارسی سے روایت حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ” جب اللہ رب العزت کسی بندے کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتے ہیں تو اس میں سے حیا نکال دیتے یں “
حیا کی ضد فحاشی یا بے حیائی ہے جو اللہ کے غضب کا مستحق بناتی یے ۔ اسلام کا نظام عصمت و عفت بھی یہی بتاتا ہے کہ حیا مرد اور عورت کی تخصیص کے بغیر سب کے لیے ہے اور اگر عورت کو نظر کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے تو پہلے مرد کو پابند کیا ۔ عورت کو باہر جاتے ہوئے تیز خوشبو لگانے سے منع کرنا اس بات کا اظہار ہے کہ اس کی تیز خوشبو یا اس کے چلنے کی آواز غیر مرد کو متوجہ کرے گی ۔ اس غیر مرد کی زبان ہر اس عورت کا نام آنا یا دل میں اس کے متعلق غلط خیال آنا بھی بے حیائی کی ابتداء ہے .
اسلام ہر برائی کو شروع ہی سے جڑ سے اکھاڑنے کا مزاج رکھتا ہے . عورتوں کو چادر چار دیواری میں اس کی حیا کی حفاظت کے لیے ہی رکھا گیا . یہ نہیں کہا کہ ” تم گھروں سے مت نکلو ” بلکہ ” گھروں میں ٹک کر رہو ” کا مطلب ہے بغیر ضرورت کے مت نکلو اور جب جانا ہی پڑے تو اپنے آپ کو ، اپنے لباس ، اپنی آواز ، اپنی چال تک کی نگرانی رکھنا . کہیں ان کی وجہ سے غیر مرد تمہارے بارے میں کچھ برا سوچ لے .
سوچ پر تو کوئی دین قدغن نہیں لگاتا . اسلام نے سوچوں کو بھی پاکیزہ رکھنے کا حکم دیا اور ہمیں آگاہ کردیا جب سوچیں ناپاک ہوجاتی ہیں تو بہت جلد کام بھی ناپاک ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ انسان زنا تک کی فحاشی کر گزرتا ہے ۔
قرآن مجید میں جتنی شد و مد سے ” اور تم زنا کے قریب بھی مت جانا ” کی تلقین ہے اتنی شاید ہی کسی اور سے روکا گیا ہو
ہر بندہ زانی نہیں ہوتا لیکن ہر بندہ اپنے مختلف اعضاء سے زنا کرتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے
“العینان تزینان و زناھما النظر”
آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا نظر ہے ” “
گندی نظریں ، بے باک نظریں ، ہوس سے رال ٹپکاتی نظریں ۔ اللہ نے اپنے بندوں کو اس بے حیائ سے بچانے کے لئے ” ولا تقربوا لفواحش الا ما ظھر و بطن”
بے حیائی کے قریب بھی نہ جائو خواہ ظاہر ہو چھپی ۔
اس کا مطلب ہے مرد نامحرم عورت کے لیے اور عورت نامحرم مرد کے لیے شہوت انگیز سوچ تک دل میں نہ لانے کی پابند ہے
ایک بزرگ کے بارے میں رقم ہے کہ وہ بہت نیک اور متقی انسان تھے ایک مرتبہ بازار گئے ، واپس گھر آئے تو اہلیہ نے ہنسی مذاق میں کہا ” آج تو بازار گئے تھے کتنی عورتوں کو دیکھا “
تو جواب دیا ” واللہ میں نے بھرے بازار میں سوائے پاؤں کے انگوٹھوں کے کچھ نہیں دیکھا “۔
اسلام کا مطالبہ بھی یہی یے کہ بدنظری کے مواقع ہوں بھی تو محض رب کی محبت میں صرف نظر کیا جائے ۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ” جس انسان کو شہوت کی نظر ڈالنے کا موقع ملے لیکن نظر ہٹا لے تو رب العزت اس کی عبادت میں لذت پیدا کرتے ہیں ”
ایک اور جگہ پر زانی اور مشرک کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے .
اس بڑھتے ہوئے زنا یا فحاشی کا سدباب کیسے کیا جائے؟؟؟
انسان کبھی بھی ایک دم زنا نہیں کرتا . پہلے وہ ڈرتے جھجکتے برائی اور بے حیائی کی دنیا میں قدم رکھتا ہے . شروع شروع میں اس کے لئے یہ بہت ناگوار ہوتا ہے . اندر سے کچوکے لگتے ہیں , پھر ایک مقام آتا ہے کہ وہ مکروہات کو عادت بنا لیتا ہے . اس کو روکنے کے اسباب میں چند ایک یہ ہیں
حیا کے بارے میں کچھ نہ کچھ مطالعہ میں اور پریکٹس میں رہے.
اسلام نے وہ تین اعضاء جن سے بدکاری اور بے حیائی کے راستے کھلتے ہیں ، پر کڑے پہرے مقرر کردئیے . سب سے پہلے زنا کی سیڑھی نظر یعنی آنکھیں ہیں ۔ اللہ رب العزت نے انسان کو سہولت دے دی ہے کہ شہوت بھری نظر ڈالنے کا جب بھی مرحلہ آئے تو دو چوکیدار ہیں پلکوں کی صورت میں ان کو گرا لو ۔ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں .
زبان : فحش گفتگو ، بازاری انداز خواہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے ہو یا بے ہودہ وڈیو کی صورت میں بہت تیزی سے زنا کا راستہ آسان کرتی ہے جہاں بھی زنا کے قریب بھی مت جانے کا ذکر ہے وہیں اعلانیہ یا خفیہ کے الفاظ ہماری روزمرہ زندگی میں در پیش کوتاہیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں . اب تو سوشل میڈیا کی شکل میں لچر پن اور گھٹیا گفتگو سے مرصع پروگرام ، ٹاک شوز ، کامیڈی شوز کے خوبصورت نام پر پیش کیے جاتے ہیں اور ذو معنی انداز میں ایسے واہیات فقرے کانوں میں انڈیل دئیے جاتے ہیں جن کو پہلی بار سنیں تو کان سرخ ہوتے ہیں . پھر کچھ عرصہ ناگوار اور آخر میں ایسے پروگرام اہنے گھر والوں کے ساتھ دیکھنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی .
گھر میں بھی بچوں کی پیدائش سے لے کر جنسی موضوعات پر کھلی ڈلی گفتگو اسی ضمن میں آتی ہے ۔ نامحرم سے گفتگو میں واہیات الفاظ کا استعمال بھی منع ہے . ان سب کے لیے احتیاطی تدابیر میں گفتگو کے لیے الفاظ جو منہ میں آئیں وہ کھٹ سے نکال باہر کرنا نہیں بلکہ ” ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید”
بولنے والا کوئی لفظ نہیں بولتا مگر جسے لکھا نہ جارہا ہو ۔ صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین سب سے زیادہ محتاط گفتگو کرتے تھے . کوئی بولتے
ہوئے لفظ گنتا ہے کہ آنے والے کل میں اس سے بھی کم الفاظ نامہ اعمال میں لکھے جائیں تو کوئی زبان کو پکڑ پکڑ کر اسے متنبہ کر رہا ہے کہ خدا کے لیے ہمیں رسوا نہ کروانا ۔ دوسری احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ چونکہ یہ سب سے تیزی دکھاتی ہے تو اس کے چوکیدار بھی دو ہونٹ نہیں ہیں بلکہ بتیس دانتوں کی قید میں رکھیں .
دل بھی برےخیال کا مرکز ہوسکتا ہے ۔ موجود تو اس کے لیے بھی پسلیوں کا پنجرہ ہے مگر دل کی صفائی تو ہمہ وقت مطلوب ہے
۔ زنا کی تکمیل شرمگاہ کرتی ہے جسے دو ٹانگوں میں قید کیا گیا ہے مگر حقیقت میں اگر پہلے مرحلے پر ہی تزکیہ ہو جائے تو خدا کی مدد گندگی کے گٹر میں گرنے سے بچا لیتی ہے.
ساتر لباس ، گھر میں آخرت ، روز حشر ، موت ، نزع ، قبر ، پل صراط ،جہنم جیسے موضوعات بھی ان کی روک تھام کے لیے موثر ہیں مگر دشمن نے بہت ہوشیاری سے ہماری روزمرہ گفتگو کے موضوعات بھی دے دییے ۔ کچھ عرصہ قبل تک موضوعات کی کمی ہوتی تو موسم کو مشق ستم بنایا جاتا اب موسم تو پیچھے رہ گیا کپڑے ، برانڈز ، سیلیبریٹیز ۔ روشن ستارے دین اور قرآن کا علم دینے والے سمجھے جاتے تھے اب فلموں ، ڈراموں میں کام کرنے والے بے ہودگی کا سمبل ستارے سمجھے جاتے ہیں . جو پروٹوکول دین کے علماء کے لیے مخصوص تھا . اب ان سلیبریٹیز کے لیے رکھ لیا گیا ۔ ان کے ساتھ گفتگو ، سیلفیاں بنانا معراج سمجھا جاتا ہے
پہلا قطرہ بنیے اور اخروی زندگی کی کامیابی کے لیے گفتگو ، لباس ، رسم رواج ، طرز معاشرت میں حیا کا رنگ از سر نو شامل کر لیجیے ۔ تیس چالیس سال پہلے تک شادی کے وقت عورت کا منہ گھونگھٹ سے ڈھانپنے کو فرض سمجھا جاتا تھا یہاں تک کہ اگر دلہن عام زندگی میں بے پردہ ہوتی تو بھی گھر والے رخصتی کے وقت اس کے اوپر چادر ڈال دیتے تاکہ اس کی بنی سنوری صورت اور زیب و زینت صرف اس کے شوہر کے لیے مخصوص ہو ۔
اب باپردہ گھرانے کی بچیاں بھی رخصتی کے وقت بے ہردہ ہوکر ننگے منہ فوٹو گرافروں اور دس طرح کے نا محرموں کو رونمائی کروا کے رخصت ہوتی ہیں . زمانے کو برا نہیں کہتے مگر سب کچھ الٹ ہوگیا ۔ سیدھا صرف دین اسلام ہے جو فلاح کا ضامن ہے ۔ اس کے ہر حکم ہر ایمان لانا اور عمل کرنا لازمی یے ۔ اور عمل ہی تو مشکل یے سوائے اس کے لئے جو اللہ سے مدد کا طلب گار ہو
قانتہ رابعہ
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا