چند ماہ قبل آرٹس کونسل میں پروگرام ہورہا تھا۔ شرکا میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے لڑکے لڑکیاں مدعو تھے۔ اسٹیج پر ایک میڈیکل یونیورسٹی کی استاد، ماہر نفسیات، دانشور اور این جی او کی نمائندگان موجود تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ بتا رہی تھیں کہ سیکس ایجوکیشن کس قدر ضروری ہے ہماری نسلوں کے لیے۔ ہم جنہیں ’’ممنوعہ موضوعات‘‘ گردانتے ہیں اگر گھروں میں کھل کر بات ہو تو بچے زیادہ باشعور ہوجائیں۔ وہ خود اس قدر کھل کے گفتگو کررہی تھیں کہ اس سے قبل آڈیٹوریم میں موجود کسی بچے نے یہ گفتگو اس انداز میں نہ سنی ہوگی۔ ان کی گفتگو سے چند جملے بھی یہاں نقل نہیں کیے جاسکے۔ پھر ماہر نفسیات آئے، پھر سماجی علوم کے ماہر، پھر مشہور آرٹسٹ، پھر نامور ادیبہ… اور سب کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ اکیسویں صدی میں ہم ’’پرانے چلن‘‘ کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتے۔ شادی کے بعد اگر ناکامی ہوتی ہے اس رشتے کو نبھانے میں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم لڑکے لڑکی کو پہلے ملنے کا موقع نہیں دیتے کہ ایک دوسرے کو جان سکیں۔ لڑکیاں ساری زندگی ایک بے نام شرم اور جھجک میں رہتی ہیں اور جسمانی و نفسیاتی عارضوں سے گزرتی ہیں، مگر چونکہ حیا اُن کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے اس لیے ذکر تک نہیں کرتیں اپنے بڑوں سے۔ صحت مند سماج کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان نسل بولڈ ہو۔ کوئی موضوع شرم کا موضوع نہیں ہے۔ شرم آنا چاہیے تو دھوکا دہی کرتے ہوئے، ملاوٹ کرتے ہوئے، جھوٹ بولتے اور کرپشن کرتے ہوئے۔ بھلا جنسی موضوعات پر بات کرنا بھی کوئی شرم کی بات ہے؟ آخر آپ اپنے ڈاکٹر سے، ماہر نفسیات سے بات کرسکتے ہیں ان موضوعات پر، تو ایک دوسرے سے کیوں نہیں؟
اس معروف این جی او کی کرتا دھرتا خاتون نے کہا کہ ہم بار بار سفارشات بھیجتے ہیں حکومت کو کہ ’’سیکس ایجوکیشن (Sex Education) کو اسکول کی تعلیم سے لازمی قرار دیا جائے، مگر حکومتی سطح پر کوئی شنوائی ہی نہیں۔ اب ہم سب مل کر حکومت پر دبائو بڑھاتے ہیں، آخر کو وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گی۔
یہ نشست اس عزم کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی کہ وہ ’’ شعور‘‘ جو اس پروگرام سے حاصل ہوا، ہر ایک اس آگہی کو عام کرے گا، اور اپنے اپنے دائرۂ کار میں طریقے سوچے جائیں کہ کیسے اس امر کو ممکن بنایا جائے کہ اسکولوں میں سیکس کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
یہ تو ایک پروگرام کی جھلک آپ کے سامنے رکھی۔ بہت سے لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں اور لکھنے والے برملا لکھتے ہیں کہ ہمارے بہت سے سماجی مسائل کی وجہ ’’لاعلمی‘‘ ہے۔ مثلاً زینب کیس کے حوالے سے ایک معروف روشن خیال دانشور نے یہ تجزیہ پیش کیا کہ نکاح کو آسان کیا جائے، اور ’’آسانی‘‘ کی تعریف انہوں نے یہ کی کہ یہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان معاہدہ ہے، لہٰذا سماج کا عمل دخل اس میں محدود کیا جائے۔ گویا کورٹ میرج کو فروغ دیا جائے یا گھروں سے بھاگنے والی لڑکیوں کے اس طرزعمل کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ اپنے مستقبل کے لیے وہ جو چاہیں فیصلہ کریں۔
ہر گھر اور ہر محفل کا، چاہے خوشی کی تقریب ہو یا غم کی، موضوع ’’زینب‘‘ ہی رہی۔ ننھی زینب نے کس کس کو کس طرح سوچنے پر آمادہ کیا۔ زینب کا نوحہ ہر لکھنے والے نے لکھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ ’’لڑکی‘‘ تھی۔ اس کا مجرم ایک ’’مرد‘‘ تھا۔ عورتیں ہمیشہ مردوں کے ہاتھوں رسوا ہوتی ہیں، بے وجہ ماری جاتی ہیں، مختلف رسموں کی بھینٹ چڑھتی ہیں ۔ سماج کی ذمے داری ہے کہ عورت کو مزید مضبوط بنایا جائے، طاقت ور بنایا جائے۔
جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تھا، اُس کے بعد مختلف تعلیمی اداروں کی تصاویر اخبارات اور سوشل میڈیا پر دیکھنے کا موقع ملا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو ریہرسل کرائی جارہی ہے کہ اسکول میں ایسا سانحہ ہو تو وہ کیا کریں، کیسے کریں۔ پھر خبریں آئیں کہ کہیں خواتین اساتذہ کو کمانڈو تربیت دی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ۔
حادثات و سانحات ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے کے سانحات کی کڑیاں ملائیں تو وہ کسی ایک ایجنڈے کا حصہ لگتے ہیں کہ ہم مسلسل سوچنے کے لیے ایک ہی موضوع پر سوچیں جس کو میڈیا ہائی لائٹ کرے اور اصل موضوع ہماری نظروں سے اوجھل رہیں۔ بریکنگ نیوز کے لیے چینلز کو موضوع ہاتھ آتا ہے تو لکھنے کے لیے لکھاریوں کو، نیا موضوع درکار ہے۔ تازہ خبر… گویا ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
مثلاً اس موضوع کی کوئی اہمیت نہیں کہ سوائن فلو تیزی سے پھیل رہا ہے۔ صرف ایک شہر میں درجنوں اموات ہوئی ہیں۔ مگر میڈیا کو تو عمران کی تیسری شادی اور طاہر القادری کی پریس کانفرنسوں سے ہی فرصت نہیں۔ شریف برادران، عمران خان اور زرداری ایک دوسرے پر کیا الزامات لگا رہے ہیں اور کیا زبان استعمال کررہے ہیں، اخبار کی چار کالمی خبریں روز یہ دہائی دیتی نظر آتی ہیں۔ فضلہ ملا پانی آبادی کا بڑا مسئلہ ہے، اس خبر میں کوئی خبریت نہیں۔ خبریت ریپ کے واقعات، طالب علم نے پرنسپل کو قتل کردیا، یہ کل کے سارے اخبارات اور چینلوں کی نمایاں خبر تھی۔ عاصمہ قتل کیس صفحہ اوّل کی خبروں میں ہے۔ ہم مسلسل مقتول کے بارے میں سوچتے ہیں یا مجرم کے بارے میں۔ سوچوں کے دائرے نقیب محسود اور رائو انوار سے نکل ہی نہیں پاتے۔ دنیا کا کون سا معاشرہ ہے جہاں جرائم نہیں ہوتے؟ جہاں نفسیاتی مریض فساد پھیلانے سے نہیں چوکتے؟ لیکن ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے نشریاتی اداروں کے پاس اچھی خبریں ہی نہیں دینے کو۔ ہم ایک کے بعد دوسرے حادثے کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے ہیں، افسوس کرتے رہتے ہیں، نوحہ پڑھتے رہتے ہیں اقدار کے زوال کا۔ اور حادثات کے لیے فضا ہموار ہوتی چلی جاتی ہے۔
ہمیں ذہنی مریض بنایا جارہا ہے۔ مکھی سارے جسم میں زخم کو تلاش کرکے اس پر بیٹھتی ہے یا کوڑے کے ڈھیر اور سڑی ہوئی چیزوں پر۔ ہماری نفسیاتی تشکیل ان خطوط پر کردی گئی کہ اب بری خبروں کو نشر کرنا، ان پر ڈسکس کرنا ہماری عادت بن گئی ہے۔ ایسا نہیں کہ زینب معاشرے کا ایک ٹیسٹ کیس تھی، اب سماج میں بڑی مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی اور آئندہ کوئی ایسا سانحہ رونما نہیں ہوگا۔ ایک معروف اخبار کے پہلے صفحے کی تقریباً ساری سرخیاں زینب کے حوالے سے تھیں۔ اسی صفحے پر اس میڈیا گروپ کے تحت نکلنے والے ایک ہفت روزہ کا اشتہار تھا جس کے سرورق پر ہیروئن کا دو تہائی جسم لباس سے بے نیاز تھا۔ اسی میڈیا گروپ کے تحت ایک انگلش ہفت روزہ نکلتا ہے، وہ میگزین کوئی نہ بھی پڑھتا ہو تو اس کا سرورق بتاتا ہے کہ اس کے ذریعے کن چیزوں کی ترویج کی جارہی ہے، اس کا سرورق ہی کسی بلیو پرنٹ فلم کا اشتہار لگتا ہے۔ یہی مؤقر جریدہ روز ایک صفحہ بالی ووڈ انڈسٹری کی سرگرمیوں پر شائع کرتا ہے۔ انڈیا کے کن اداکاروں کے معاشقے کہاں ہیں، کس کی خانگی زندگی کن الجھنوں کا شکار ہے، فلاں فلم کی ناکامی کی وجہ کیا تھی، فلموں کی ریلیز میں تاخیر کی وجہ کیا ہے، کس ہیرو کو ہیروئن کے ساتھ زیادہ پسند کیا گیا، کس کا آئٹم سونگ ٹاپ پر رہا۔ شاید بہت سے لوگ مذکورہ اخبار انہی خبروں کے لیے پڑھتے ہوں۔ ویسے تو اب اخباروں کا چلن ہی کتنا رہا ہے! اب تو سب کچھ سوشل میڈیا پر سمندر کی شکل میں بہہ رہا ہے۔
جس الیکٹرانک میڈیا نے کہرام بپا کیا زینب کے حادثے پر… کیا کسی ایک اشتہار پر پیمرا نے پابندی لگائی؟ سارے معاشرے نے نوحہ کیا اس معصوم لہو کے رائیگاں جانے پر… کیا کہیں کسی فورم، کسی تقریب، کسی گھرانے میں سوچا گیا کہ ہم نے نکاح کی رسم کو کتنا بوجھل بنا دیا! سادہ سی شادی کے لیے بھی لاکھوں کا بجٹ مطلوب ہوتا ہے۔ رشتے کے انتخاب کے لیے ہمارے معیارات اتنے بلند ہیں کہ بچوں کی عمریں گزر رہی ہیں اور مناسب بَر دستیاب نہیں ہوتا۔ نکاح مشکل ہوگیا تو ’’ بہت کچھ‘‘ آسان ہوگیا۔
حادثۂ قصور ایک دم رونما نہیں ہوگیا، وقت برسوں پرورش کرتا ہے تب حادثہ رونما ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر ذمے داریاں ڈال کر ہم آگے بڑھ جائیں گے۔ نہ فحش ویب سائٹس پر پابندی لگے گی، نہ نصابِ تعلیم پر سوچا جائے گا جو نسلوں کو مغرب زدہ بنا رہا ہے، نہ امریکی غلامی اور اس کے ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے سیکولرازم کے حامی عناصر سے کوئی بازپرس ہوگی جو قائداعظم تک کو سیکولر ثابت کرنے پر سارا زور لگاتے ہیں اور جن کو پاکستان کے ساتھ ’’ اسلامی‘‘ کھٹکتا ہے۔ اس وقت بہت بڑی ذمہ داری منبرو محراب کی بھی ہے۔ مدارس جو محض چند لوگوں کے لیے نیکیوں کے جزیرے ہیں وہ سماج میں اپنے اثرات کو بڑھائیں۔ اگر زینب کا سانحہ مذہبی مسلکوں کو ایک کردے، وہ شریعت کے نفاذ پر متحد ہوجائیں تو زینب کے سانحے کو اصلاحِ معاشرہ کی تحریک بنایا جاسکتا ہے۔
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا