یوم آزادی پر ملبوسات بتانے والی ایک کمپنی کا اشتہار تھا کہ آزادی کیا ہے؟ اس میں لڑکیاں گلیوں میں کرکٹ کھیل رہی ہیں، اپنی گاڑی کا ٹائر بدل رہی ہیں، ایک لڑکی رقص کر رہی ہے اور ہی دیگر مناظر تھے مگر زور کرکٹ پر تھا جس کا منطر کئی بار دکھایا گیا۔ معاشرے کے ایک محدود طبقے کی یہ سوچ ہو سکتی ہے مگر اس کو اکثریث کی سوچ بنانے کے لیے اس کی اس انداز میں تشہیر مناسب نہیں۔
بات بہت سادہ سی ہے کہ شریعت کے احکامات ہمیں مشکل میں ڈالنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ زندگی کو آسان بنانے اور ہمارے ہی تحفظ کے لیے ہیں۔ اگر آپ مذکورہ طرز زندگی کو اپناتی ہیں تو خود اپنے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں، گھر والوں کے لیے تحفظ کے مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے دین نے صلاحیتوں کے استعمال پر کہیں بھی قدغن نہیں لگائی اپنی افتاد طبع کے مطابق ہر اک کو اپنے لیے میدانِ عمل کے انتخاب کی آزادی ہے۔ مثلاً سیاست میں خواتین کو آنا چاہیے جن کی دلچسپی کا یہ میدان ہو۔ لیکن ان عورتوں کا مردوں کے مقابلے میں کتنا تناسب ہو گا جن کو سیاست میں دلچسپی ہو گی…؟ مگر جب یہ عالمی ایجنڈے روبہ عمل لائے جاتے ہیں کہ سیاست میں عورتوں کی نمائندگی 33 فیصد ہو۔ یا ہر سیاسی جماعت پابند ہے کہ اتنے فیصد عورتوں کو لازمی ٹکٹ دے ورنہ الیکشن کمیشن اس پارٹی کو رجسٹر نہیں کرے گا وغیرہ وغیرہ، اقوام متحدہ جن ملکوں کے لیے قوانین بناتی ہے ان سب ملکوں کے سماجی حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ نہ ہر اک کی شریعت کے تقاضے یکساں ہوتے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہونے کے ناتے اپنی اقدار رکھتا ہے۔ جب سیاست میں عورتوں کا عمل دخل بڑھا، حکومتی اعلیٰ عہدوں پر خواتین تعینات ہونے لگیں، ہم ترقی کی خواہش میں ہنس کی چال چلنے پر مجبور ہوئے تو لا محالہ فتنے پیدا ہوئے۔ جہاں بھی مرد و خواتین اکٹھے کام کرتے ہیں خواتین کے تحفظات ہوتے ہیں اگرچہ کہ صالح معاشرت کے قیام کے لیے اسلام پہلا حکم مردوں کو دیتا ہے جو ’’غضِ بصر‘‘ کا حکم ہے۔ پھر سورۂ النور عورتوں کے لیے احکامات بیان کرتی ہے۔ لیکن کس کو یاد ہیں یہ احکامات؟ کتنے عمل کے لیے آمادہ ہیں؟ اربوں کی فیشن انڈسٹری تو یہی بتاتی ہے کہ مرد غض بصر پر نہیں آمادہ اس لیے خواتین سجنے سنورنے پر مجبور ہیں۔ دفاتر میں خواتین کی وجہ سے ماحول ضرور خوش گوار رہتا ہے۔ جتنا اس خوشگواریت کا دائرہ پھیلے گا اتنا معاشرہ، فتنوں سے قریب ہو گا۔ عائشہ گلالئی ہمارے سماج کا ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس سے قبل بھی ایسے واقعات کی باز گشت سنی جا چکی ہے۔ عورت کا تحفظ اس کا گھر ہے۔ اگر گھر کے باہر اس کے لیے اس تحفظ کا ماحول نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ذہنی دبائو کے ساتھ گھر کے باہر کی ذمہ داری ادا کرے گی۔ پچھلے برس 4 ستمبر عالمی یوم حجاب کے موقع پر کراچی کے مختلف شاپنگ سینٹرز پر سیلز گرلز سے ملاقات کا موقع ملا۔ ویسے یہ سیلز گرل کی اصطلاح بھی ہمارے معاشرے سے میل نہیں کھاتی۔ سو فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ وہ ذہنی دبائو میں کام کرتی ہیں۔ ایک تو ان کے اوقات کار مردوں والے ہیں دوسرے انہیں جو یونیفارم پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے اس سے ان کی حیا کے تقاضے پامال ہوتے ہیں۔ ٹائٹ جینز اور ٹی شرٹ پہننے والی لڑکیوں کی اکثریت نے بتایا کہ وہ گھروں سے عبایا پہن کر آتی ہیں۔ ایک برانڈڈ کمپنی میں ملازمت کرنے والی لڑکی نے بتایا کہ یہ ہیئر اسٹائل بھی کمپنی کا منتخب کردہ ہے۔ ایک بچی جس نے سر کو سلیقے سے اسکارف سے ڈھانپا ہوا تھا استفسار پر اس نے بتایا کہ اس کو دو بار وارننگ مل چکی ہے اب تیسری بار وارننگ پر وہ نکال دی جائے گی اس نے پرنم آنکھوں سے کہا کہ وہ نکلنے کو ترجیح دے گی مگر سرننگا نہیں کرے گی۔ یہ سخت معاشی مشکلات کے شکار گھرانوں کی لڑکیاں تھیں۔
وطن عزیز کی سیاست میں بھی کچھ خواتین مجبوری کے تحت آتی ہوں گی اس لیے کہ اب سیاست خدمت کا نام نہیں ہے بلکہ عزت، دولت اور شہرت کے لیے لوگ اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔ عائشہ گلالئی کیس میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ اصل جگھڑا اسمبلی کا ٹکٹ نہ ملنے کا تھا کہ ان کی سابقہ کار کردگی اطمینان بخش نہ تھی۔
قیمہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین نے عائشہ گلالئی سمیت تمام محب وطن خواتین کو دعوت دی کہ وہ اس جماعت میں آئیں جہاں خدمت کے مواقع بھی ہیں اور عزت و اکرام بھی۔ ہاں یہاں دولت اور شہرت کے حصول کے لیے کوئی نہیں آتا۔ البتہ کوئی سماج کی خدمت کا داعیہ رکھتا ہے تو شاید یہاں سے بہتر مواقع پاکستان بھر کی سیاسی جماعتوں میں میسر نہیں ہیں۔ پالیسی میں ماتحت ہونے کے باوجود حلقہ خواتین اپنا علیحدہ مکمل نظام رکھتی ہے۔ جبکہ پالیسی کی تشکیل میں بھی خواتین کی آراء شامل کی جاتی ہیں اور پالیسی تشکیل دینے والے فورمز پر بھی خواتین کی نمائندگی موجود ہے۔
حلقہ خواتین کی ملک بھر میں جو خدمات ہیں نہ خود خواتین اس کی اس طرح تشہیر کر پاتی ہیں نہ میڈیا کی یہ ضرورت ہے۔ کیونکہ میڈیا کی سلیبرٹیز تو شوبزنس اور گلیمر کی دنیا سے تعلق رکھنے والی خواتین ہوتی ہیں…! جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے تحت جتنے شعبہ جات ہیں ان میں سے ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ سرگرمیاں اور خدمات اتنی ہیں کہ پاکستان کی کوئی این جی او یا سیاسی جماعت کے خواتین ونگز، اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایک پنج ستارہ ہوٹل کی تقریب میں جہاں مؤثر طبقے کی خواتین شریک تھیں جماعت اسلامی کی خواتین کی صرف سیاسی کارکردگی کو اسٹیج کے اسکرین پر دکھایا گیا تو خواتین حیران ہو گئیں اور اکثر کو یہ گلہ تھا کہ آپ اس کی تشہیر کیوں نہیں کرتے۔ شاید جو کام کرنے والے ہوتے ہیں ان کو کام سے فرصت نہیں ملتی اور جو تشہیر کے جویا ہوتے ہیں ان کو کاموں کے لیے وقت نہیں ملتا۔ یہاں مزاج تشہیر کا نہیں بلکہ اخفا کا بنایا جاتا ہے اس لیے لوگ نہ ذات کی تشہیر کرتے ہیں نہ کام کی اگرچہ کہ اجتماعی کاموں کی تشہیر ہونا چاہیے لیکن اجتماعیت تو افراد سے تشکیل پاتی ہے جب فرد کا مزاج یہ نہ ہو کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ ہو تو اجتماعیت کے لیے تشہیر ایک محدود دائرے میں ہی سمٹ کر رہ جاتی ہے۔
چاہے آپ تعلیم کا میدان لے لیں۔ بیٹھک اسکولوں کے نام پر خواتین کی ملک بھر میں جو تعلیمی خدمات ہیں گزشتہ دنوں گورنر سندھ ان کی ایک تقریب میں اس کی ہلکی سی جھلک دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ آپ مجھے اپنی رپورٹ دیں میں عالمی فورمز پر خواتین کی تعلیم کے میدان میں ان خدمات کو پیش کروں گا یہ تو قوم کا سر فخر سے بلند کر دینے والی خدمات ہیں۔ کئی کالم صرف ان تعلیمی خدمات پر لکھے جا سکتے ہیں جو ملک کے نادار طلباء طالبات کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے یہ خواتین بغیر معاوضہ عبادت سمجھ کر انجام دیتی ہیں۔ انتہائی اعلیٰ صلاحیتوں پر مشتمل خواتین کا یہ مضبوط نیٹ ورک چاروں صوبوں کے پسماندہ طبقوں میں علم کے دیے جلانے میں مصروف ہے شعبہ خواتین الخدمت کی سرگرمیاں جو خود ہی فنڈ اکٹھا کرتی ہیں خود ہی مستحقین تک پہنچاتی ہیں ان کے دروازے ہر اک کے لیے کھلے ہیں۔ مستحق نادار طلباء و طالبات کی مدد کے علاوہ، پسماندہ طبقے میں بچیوں کی شادی کے سلسلے میں مدد، علاج معالجے کے لیے ان کے بجٹ کا بڑا حصہ مختص ہے۔ دفاتر میں بیٹھ کر صرف چیک نہیں سائن کیے جاتے یہ مخلص خواتین ملک کے دور دراز علاقوں کا سفر کرکے امدادی سامان لے کر خود مستحق خواتین تک پہنچتی ہیں۔ آسمانی یا زمینی آفات کے موقع پر ان کی تحریک اور خدمتی سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
کسی دن ان کی چھٹی نہیں ہوتی۔ تہواروں کے مواقع پر ان کا کام زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ان خواتین سے ملیں تو لگتا ہے کہ اللہ نے ان کو اسی عظیم مشن کے لیے پیدا کیا ہے۔ دکھی انسانیت کا درد، جگہ جگہ فنڈز کی اپیل، پھر مستحقین کو وہ امانتیں پہنچانا… ایک دھن ایک جذبے کا نام ہے الخدمت۔ ان کی ایک سال کی رپورٹ پر ایک کتاب باآسانی تحریر کی جا سکتی ہے۔
ملک بھر کے چپے چپے پر جس تنظیم کی خواتین کا نیٹ ورک موجود ہے وہ جماعت اسلامی ہے ہزاروں مدرسات لاکھوں لوگوں تک اسلام کی آفاقی تعلیمات کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ قرآن و حدیث کے سرکلرز میں سالانہ لاکھوں خواتین کو دعوت دی جاتی ہے کہ معاشرے میں شر کی قوتیں کمزور ہوں اور خیر تقویت پائے۔ ہزاروں خواتین نے فی سبیل اللہ اپنے روز و شب اس مشن کی تکمیل کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔ انتہائی منظم سرگرمیاں ہر سطح کی چاق و چوبند قیادت۔
اخلاقی اقدار کے تنزل کی بات سب ہی کرتے ہیں۔ بے حیائی کو سب ہی نا پسند کرتے ہیں مگر بے حیائی کے اس طوفان کے لیے مورچہ بند ہو کر لڑنا۔ خواتین کا میڈیا سیل جو ہمہ جہت سرگرمیوں میں رات دن مصروف رہتا ہے۔ ایک طرف شر کی قوتوں پر ضرب لگانا دوسری جانب خیر کی نمو کے لیے مٹی زرخیز کرنا۔ اک مجاہدانہ کردار ہے جو وہ پاکستان کی اگلی نسلوں کے تحفظ کے لیے ادا کر رہی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی پر دسترس رکھنے والی یہ خواتین جو چومکھی لڑائی میں مصروف ہیں۔ نہ معلوم کتنا شر ہے جن کو ان کی منضبط سرگرمیاں پیچھے دھکیل رہی ہیں اور ان بے غرضانہ اور مخلصانہ کاوشوں سے کہاں کہاں خیر کی کونپلیں تناور درخت بن رہی ہیں۔
قومیں اپنے نظریے سے زندہ رہتی ہیں ایک مسلمان عورت کے لیے اس وقت عالمی ایجنڈے کیا ہیں۔ عورتوں کے لیے جو قانون سازی ہو رہی ہے اس کے پس پردہ کون سے عوامل کار فرما ہیں۔ پاکستانی عورت کو اس کے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ کرنا پاکستان میں کوئی دوسری جماعت اس طرز پر یہ کام نہیں کرتی۔ خود آگاہ رہنا اور آگہی عام کرنا۔ اور فساد کو روکنے کے لیے اگر بے سہارا خواتین کے شیلٹرز قائم کرنا پڑیں۔ ان کو قانونی امداد دینا پڑے جو جیلوں کی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں ان کو اچھا شہری بنانا، جرائم سے نفرت دلانا۔ خواتین کی کائونسلنگ کرنا۔ کسی ایک شہر کسی ایک مقام پر یہ کام کرکے ان کی تشہیر نہیں کر دی جاتی بلکہ ملک بھر میں بلا معاوضہ یہ خدمات انجام دی جاتی ہیں۔ گائوں گوٹھوں کی خواتین سے دستکاری کروا کے ان کی چیزیں شہروں میں لاکر فروخت کرنا۔ ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق کی جنگ لڑنا ان کے لیے آواز اٹھانا۔ ان کو فورمز مہیا کرنا جہاں وہ اپنے مسائل کا حل سوچ سکیں خواتین اساتذہ کی رہنمائی کرنا ان کو نظریہ پاکستان کے تحت اپنے طلباء طالبات کی فکری نشو و نما کے لیے تیار کرنا ہو یا حج اور عمرے پر جانے والی خواتین کی تربیت۔ ہزاروں خواتین رضا کارانہ سماج کی خدمت میںمصروف ہیں جن سے لاکھوں لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں۔ تمام شعبہ جات اور تمام سرگرمیوں کا اس محدود کالم میں ذکر نہیں آسکتا تھا۔ لیکن جو جڑے ہوئے ہیں وہ جانتے ہیں۔ اور جو جڑ رہے ہیں وہ ایک مشن سے جڑتے ہیں اس لیے ستر برس کی پاکستان کی تاریخ میں کبھی جماعت اسلامی حلقہ خواتین سے الگ ہو کر کسی نے دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ یہاں مردوں کے نظم سے ہر سطح پر ایک عزت، اکرام، تحفظ اور تعاون ملتا ہے۔ یہاں پارٹی ٹکٹ کے کوئی مسائل نہیں۔ عائشہ گلالئی سمیت جن خواتین کو اپنی سیاسی پارٹیوں سے تحفظات ہیں وہ جماعت اسلامی خواتین کے نیٹ ورک کو قریب سے ضرور دیکھیں۔ جہاں فلاح ہے دونوں جہانوں کی۔
ان شاء اللہ
افشاں نوید
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا