احمد پور شرقیہ کا یہ گائوں ہے۔ شیدے کو کام ہی کیا تھا۔ سارا دن ٹوٹی ہوئی چارپائی پر پڑا کھانستا رہتا تھا۔ جانے کتنے عرصے پہلے ٹی بی کی تشخیص ہوئی تھی، اس کا تو کھانس کھانس کر خون آنے لگا تھا الٹیوں میں۔ چند مہینے یا سال اور بیت جات اس نے سانس کے اس بوجھ سے نجات ہی پانا تھی۔ وہ تو خدا بھلا کرے کہ ٹینکر الٹ گیا۔ اس نے جو ٹاٹ کا پھٹا پردہ سرکاکر جھانکا کہ لوگ اِدھر اُدھر سے بالٹیاں، بوتلیں، لوٹے لیے دوڑے چلے آرہے ہیں تو وہ بھی سینہ پر ہاتھ رکھ کر کھانستہ ہوا اٹھا۔ سامنے روڈ پر پڑی کوک کی خالی بوتل اٹھائی اور سوچا مال مفت سے اپنا حصہ وصول لے۔ سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے تھے گویا من وسلویٰ اتر آیا گائوں کے لوگوں کیلئے۔ واللہ اعلم کہ کس نے ماچس کی تیلی سگریٹ سلگا کر پھینک دی یا درجۂ حرارت کی شدت سے آئل ٹینکر پھٹ گیا اور بوتل میں پیٹرول بھرتے شیدے کی سوختہ لاش کی قیمت بیس لاکھ روپے قرار پائی۔ اس کے خاندان میں کب کس نے بیس لاکھ روپے دیکھے ہوں گے؟؟ ہمارے گائوں دیہاتوں میں کون کس طرح مرتا ہے ہم شہروں میں رہنے والے اس سے واقف ہوبھی نہیں سکتے۔ وہاں یوں بھی انسانی جان کی قیمت ہی کیا ہے؟ اگر وہاں انسان بستے ہوتے تو کیا وہاں سڑکیں نہ بنائی جاتیں، اسکول نہ بنائے جاتے، ہسپتال نہ بنائے جاتے، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں نہ مہیا کی جاتیں؟ اگر ستر برس میں ان سے ووٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچنے والوں نے مٹھی مٹھی بھر بھی ان کی فلاح وبہبود کے کام کیے ہوتے تو ڈھر لگ گئے ہوتے وہاں آسائشوں کے۔ مگر ان سے ووٹ لینے والے کب پلٹ کر ان کی خبر لیتے ہیں یا ان کو اپنا دیدار کراتے ہیں؟ عید پے درپے حادثات کی خبروں کے درمیان گزری۔ مگر سانحہ احمد شرقیہ کا ہر ایک نے مختلف زاویے سے جائزہ لیا۔ کسی کا خیال ہے کہ یہ لوگوں کی ہوس کی داستان ہے۔ نہ پرائے مال کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے نہ اس انجام سے دوچار ہوتے۔ کسی کا خیال ہے کہ والدین اولاد کی تربیت سے غافل ہیں۔ یہ سانحہ اس غفلت کا مظہر ہے۔ ہم بچپن میں گلی میں پڑی چونّی بھی اٹھالاتے تو ماں کہتی تھیں کہ مسجد میں رکھے ہوئے چندے کے ڈبے میں ڈال آئو۔ اب والدین کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ بچوں کے پاس جو نت نئے ڈیزائن کے موبائل آرہے ہیں ، جو ہر وقت باہر وہ کھانے کھارہے ہیں، تفریح کررہے ہیں تو کون ہے جو ان کو وسائل مہیا کررہا ہے؟ اکثر کا خیال ہے کہ حکومت ذمہ دار ہے اگر جگہ جگہ برن سینٹر ہوتے تو شدید زخمی فوری طبی امداد پاکر زندگی کی طرف لوٹ سکتے تھے۔ کسی کا خیال ہے کہ قدرت انفرادی غلطیوں سے تو اغماض برت لیتی ہے مگر ملت کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی۔ یہ ایک اجتماعی فعل تھا اس لئے قدرت نے لالچ اور ہوس کو اس عبرتناک سزا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں نقش کردیا تاکہ لوگ رجوع کی طرف پلٹیں، وغیرہ وغیرہ۔ حکومت نے امدادی چیک تقسیم کرتے ہوئے لواحقین کی پیٹھ تھپ تھپاتے ہوئے کہا کہ ’’ذمہ داروں کا تعین کیا جائیگا۔ ‘‘ گویا ہم اتنے معصوم ہیں کہ جانتے ہی نہیں کہ اصل ذمہ دار تو افلاس، بھوک اور محرومی ہے۔ کچھ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ واقعہ جنوبی پنجاب میں پیش آیا جو محرومی کا شکار ہے۔ اگر یہی تخت لاہور کے قریب پیش آتا ت و اتنی اموات نہ ہوتیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تیل سے بھرے ٹینکر سے یوں تیل بہتا دیکھتے تو سندھ کے باسی چاہے انکا تعلق ٹنڈو سومرو سے ہوتا یا ٹنڈوباگو سے یا تھرپاکر سے یا دادو سے سب ہی اس طرح بالٹیاں اور بوتلیں لے کر دوڑ پڑتے۔ پاکستان کی ستر فیصد آبادی جو دیہات میں رہتی ہے ان کے مسائل نہ کبھی میڈیا پر فوکس کیے جاتے ہیں نہ شہروں کے مخیر افراد جو اپنے صدقات ،خیرات ویلفیئر کا کام کرنے والی معروف این جی اوز کے حوالے کردیتے ہیں کبھی یہ زحمت کرتے ہیں کہ جاکر اپنے ملک کے پسماندہ لوگوں کے حالات سے آگہی حاصل کریں اور ان جگہوں پر ویلفیئر کے کام کیے جائیں جہاں لوگ زندگی کے لئے ترس رہے ہیں۔ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ تھر میں غذائی قلت کے باعث روز نومولود بچوں کی اموات واقع ہوتی ہیں۔ ہم میں سے جس کا کبھی گائوں دیہات جانے کا اتفاق ہوا ہو کس نے نہیں دیکھا کہ عورتیں اور بچے شدید جھلسا دینے والی گرمی میں دور دراز سے سروں پر گھڑے رکھ کر پانی جیسی بنیادی ضرورت کیلئے دربدر پھرتے ہیں۔ جو لوگ احمد پور شرقیہ کے لوگوں کو اخلاقی درس دے رہے ہیں انہیں یہ پتہ ہی نہیں کہ بھوک کسے کہتے ہیں۔ انہوں نے وہ لاچارگی دیکھی نہ محسوس کرسکتے ہیں۔ اپنی سندھ کی نظامت کے چھ سال کے دوران مجھے درجنوں مرتبہ سندھ کے گائوں دیہاتوں میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ آپ حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں کہ زندگی اس طرح بھی سسک سکتی ہے۔ اتنے کم وسال کے ساتھ زندگی کا تصور کیسے ممکن ہے۔ آپ کو سنسان ویران راستے پر اچانک ایک آبادی نظر آتی ہے جو چند درجن نفوس پر مشتمل ہے۔ مگر دور دور تک نہ پانی، نہ اناج، نہ دکانیں، نہ ذرائع نقل وحمل۔ پھر وہ زندہ کیسے ر ہتے ہیں۔ جب آپ ان کے سرکنڈوں اور گھاس پھوس سے بنے گھروں میں جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چند بکریاں انہوں نے پالی ہوئی ہیں آس پاس دوچار سبزیاں اگائی ہوئی ہیں جو ان کی زندگی کا کل اثاثہ ہیں۔ دور دور تک روڈ نہیں ہیں۔ بجلی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ مجھے ضلع دادو کا وہ گائوں نہیں بھولتا جہاں ہم جیب میں کئی گھنٹے دھول پھانکنے کے بعد ناہموار راستوں سے پہنچے۔ حال ہی میں بدترین سیلاب آچکا تھا۔ ہم گائوں دیہاتوں میں امدادی سامان لے کر گئے تھے۔ وہاں ایک عورت کی گود میں نومود تھا جو بری ھالت میں تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ عورت طویل عرصے سے ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہے۔ اس کی آنکھوں کا رنگ سرمئی پڑچکا تھا۔ جب ہم نے دریافت کیا کہ اس کو علاج کیلئے کیوں نہیں لے کر گئے تو اس ایک سوال سے جڑے دس سوال لوگوں نے ہم سے کیے جن کے ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھے۔ مثلاً یہ کہ ذرائع نقل وحمل کب دستیاب ہیں انہیں؟ میلوں دور تک نہ انسانی آبادی ہے نہ ہسپتال، تیسرے یہ کہ اگر سواری میسر آبھی جائے تو علاج کا خرچہ کون برداشت کرے گا۔ گائوں کے بوڑھے مختلف شدید بیماریوں میں مبتلا موت کے منتظر تھے۔ اتنے دردناک مناظر اور مسائل تھے گائوں کے کہ سوچ کر بھی آپ گھنٹوں اس کرب کی کیفیت سے نہیں نکل پاتے۔ اور مزے کی بات یہ کہ جب ہم نے گائوں کی خواتین سے پوچھا کہ انکا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے تو پتہ چلا کہ سب کا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے مگر کسی کے پاس نہیں ہے سب کے شناختی کارڈ پیر صاحب کے پاس ہیں جو علاقے کا جاگیردار ہے۔ ظاہر ہے الیکشن سے قبل رات کو گائوں میں چاول کی دیگیں پہنچا دی جاتی ہوں گی اور اگلے دن بھیڑ بکریوں کے طرح انہیں سوزوکیوں میں ٹھونس کر پولنگ بوتھ لے جایا جاتا ہوگا۔ یہ بے چارے کون سا اپنا حق رائے دہی اپنی مرضی سے استعمال کرسکتے ہیں نہ انہیں اس کا تصور ہے نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ آپ بات کرتے ہیں کہ لوگوں کی تربیت کی ضرورت ہے، انہیں بتایا جائے کہ لالچ بری بلا ہوتی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ انہیں انسان سمجھا ہی کب جاتا ہے؟ ان کی حیثیت کولہو میں جتے بیل سے زیادہ نہیں ہے۔ گائوں دیہاتوں میں لوگ کلمہ پڑھنا نہیں جانتے۔ ساری عمر گزار کر حروف تہجی کی شناخت سے بھی محروم ہیں۔ جو روٹی کیلئے جیتے ہیں، جن کیلئے جسم کا رشتہ جان سے جوڑے رکھنا ہی سب سے بڑی مشقت ہے۔ جب شدید سیلاب کے بعد بڑی تعداد میں اندرونِ سندھ سے لوگوں کو ماہِ رمضان میں کراچی میں عارضی بستیاں بساکر یہاں لایا گیا تو یقین جانیں سوفیصد لوگ ایسے تھے جن کو بنیادی اسلامی تعلیمات کا بھی علم نہیں تھا۔ بے شمار لوگ ایسے تھے جنہوں نے کبھی روزہ نہیں رکھا۔ کسی کو نماز پڑھنا ہی نہیں آتی تھی۔ قران فہمی تو بڑی بات پڑھنے پر بھی کوئی قادر نہ تھا۔ بیشتر لوگ جن سے کلمہ سنا وہ کلمہ بھی نہیں جانتے تھے۔ اس جہالت کا قصور وار کون ہے۔ ان کی اخلاقی تربیت کس کی ذمہ داری تھی۔ ان کیلئے اسکول بنانا، ان کی دینی تعلیم کا بندوبست کرنا کس کی ذمہ داری تھی۔ دینی جماعتیں اپنی بساط بھر ہی کام کرپاتی ہیں حکومتی خزانے تو ان کے پاس نہیں۔ ستر فیصد آبادی کیلئے جو وسائل درکار ہیں اگر سرے میں محل نہ خریدتے ، سوئس بینکوں میں اکائونٹ نہ ہوتے، آف شور کمپنیوں کے مالک نہ ہوتے تو ان غریب عوام کیلئے بہت کچھ کیا جاسکتا تھا۔ احمد پور شرقیہ صرف ایک جھلک ہے۔ دیگ کا ایک چاول، ملک بھر کے گائوں دیہات شدید محرومی اور افلاس کا بدترین نمونہ ہیں۔ جو جانوروں سے بدتر زندگی گزارتے ہیں۔ جن کیلئے پیٹ کے دوزخ کو بھرنا زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ٹریکٹر یونہی الٹتے رہیں گے ، حادثات یونہی منظر عام پر آتے رہیں گے۔ حکومتی سربراہان چیک تقسیم کرتے رہیں گے۔ بس اس سے آگے کچھ نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔ اس حادثے سے دودن بعد ایک ویڈیو کلپ منظر عام پر آئی پھر اسی طرح ایک بھرے ٹینکر سے (حیدرآباد کے مقام) تیل رس رہا ہے اور اسی طرح لوگ بالٹیوں میں تیل بھررہے ہیں۔ کیا بڑی بات ہے کہ ان ٹینکروں کے ڈرائیوروں کی تربیت کردی جائے ان کے ساتھ جو عملہ ایک یا دو لوگ سفر کرتے ہیں ان کو تربیت دے دی جائے کہ ایسے کسی حادثے کے موقع پر عوام کو قریب نہ آنے دیں اور فوری طور پر ھائی وے سیکوریٹی کو مطلع کریں۔ دیگر درجنوں باتیں سوچی جاسکتی ہیں اگر ریاست خود کو ماں سمجھتی ہو تو…! بڑی بات کہی کسی کہنے والے نے کہ کیا کریں اس جنم بھومی نے ایک بار جنم دے کر سوبار مرنے پر مجبور کیا ہے…! آخری بات یہ کہ ان گائوں دیہات کے ننگے بھوکے لوگوں کیلئے اس تعلیم کو ہم لازم سمجھ رہے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ پرائے مال پر حرص وہوس کی نظر رکھنے کا کیا انجام ہوتا ہے اور یہ جو آپ کے درجن بھر چینل ماہِ رمضان کے مقدس مہینے میں لوگوں کو بھکاری بناتے رہے، ہر مانگنے والے کو پتہ تھا کہ یہ پروگرام آن ایئر جاتا ہے مگر لوگ موبائل فون یا پنکھااور استری ہی نہیں بلکہ موٹر بائیک اور کاریں مانگتے رہے۔ لوگ بیس تولے سونا ہاتھ پھیلا کر مانگتے رہے۔ یہ مانگنے والے کوئی پسماندہ تحصیلوں اور گوٹھوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے جنکو بھیک مانگنا سکھائی گئی۔ ہمارے سماج میں سالہاسال محنت کر کے کوئی فرد اپنی ذاتی کار خریدنے کے قابل ہوتا ہے۔ وہاں لوگوں کو بتایا گیا کہ مانگنے سے سب کچھ مل سکتا ہے۔ اچھے شرفاء نچائے گئے، ان کے مذاق اڑائے گئے۔ لوگوں نے اپنی حمیت اور غیرت سب دائو پر لگادی اور ان چینلز سے منسلک اخباروں نے اگلے دن سرخیاں لگائیں کہ انعامات کی برسات اتنے کروڑوں کے انعامات، اتنی کاریں، اتنے عمرے کے ٹکٹ ، اتنے پلاٹ، اتنے قیمتی انعامات کی بارش کی گئی۔ جب ملک کے ذرائع ابلاغ لوگوں کو یہ راستہ دکھاتے ہیں کہ بغیر محنت کے بھی سب کچھ مل سکتا ہے پھر اسٹریٹ کرائمز کیوں نہ عام ہوں؟ لوگ دوسرے کے مال پر نظر کیوں نہ رکھیں۔ یہ چینلز سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مادیت پرستی کے جہنم میں دھکیل رہے ہیں سماج کو۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مچھلی ہمیشہ اپنے سرسے سڑنا شروع ہوتی ہے۔ مچھلیوں کے سر جس ملک میں روز ’’جے آئی ٹی‘‘ کے سامنے پیش ہوکر جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنی لوٹی ہوئی دولت کا دفاع کررہے ہوں وہاں ننگے بھوکے لوگوں کیلئے اخلاقیات کے سبق چہ معنی دارد…؟؟
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا