اوہ! بالکل قریب آلگا رمضان… ابھی تو بہت سی تیاری باقی تھی۔ پچھلے تجربات سے بھی انسان کچھ سیکھ ہی لیتا ہے، اس لیے سوچا تھا کہ ماہِ شعبان میں ہی سمٹ جائیں کام تو اچھا ہے…! پچھلا رمضان تو ڈرائنگ روم کی سیٹنگ کی نذر ہوگیا۔ سوچا تھا ایک ہی تو کمرہ ہے، چار چھ دن میں سمٹ جائے گا… مگر وہ تو پورے مہینے پر محیط ہوگیا پھیلاوا۔ دیواروں کے لیے جو رنگ و روغن میں نے پسند کیا تھا اُس کو بدل کے کچھ کا کچھ کردیا۔ اب پردے تو میں کنٹراس کے لائی تھی، سو میں نے میاں کی لاکھ ناراضی کے باوجود دوبارہ رنگ بدلوایا دیواروں کا۔ اب جو پردے لٹکائے تو ان کی سیٹنگ میں جھول۔ دوبارہ لے کر گئی اور فٹنگ درست کرائی۔ پردے میں نے بالکل بھابھی کے پردوں جیسے بنوائے۔ جب اُن کے نئے گھر گئی تو ٹی وی لائونج کے پردے سے میری نظر نہ ہٹی۔ لاکھ لاحول پڑھی مگر نظریں جاجاکر ٹکتی رہیں اسی پردے پر۔ کھڑکی پر پردے کی راڈ کو نفیس جارجٹ کے بڑے بڑے دوپٹے فرل لگے ہوئے یوں بل دے کر اوڑھائے گئے تھے کہ درمیان سے خوبصورتی ڈھلک کر یوں تاثر دے رہے تھے جیسے دلہن شرمائی ہوئی کھڑی ہو۔ ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ بھابھی کتنے میں بنا ہے یہ پردہ؟ میرے اس سوال کا پوچھنا تھا کہ ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگیا، بولیں ’’ہر جگہ سے نہیں خریدتی پھرتی میں سب کچھ، تین تلوار پر جو دکان ہے ’کرٹن ہی کرٹن‘ بس وہاں چلی جانا، اتنے نت نئے ڈیزائن تمہیں دکھائے گا کہ جی خوش ہوجائے گا۔‘‘ (ان کے خیال میں ہمارے گھر میں نفیس پردے نہ ہونے کی وجہ شاید یہی تھی کہ ہمیں دکانوں کا نہیں معلوم!!) ہم نے قیمت پوچھی تھی نہ کہ دکان کا پتا۔ پھر پوچھی تو بولیں ’’تیرہ ہزار کا…!!‘‘ ’’صرف ایک پردہ؟‘‘ہمارے منہ سے نکل گیا۔ تو بولیں ’’ارے وہاں تو پچاس پچاس ہزار کا ایک پردہ تھا‘‘۔ اب ظاہر ہے ہم اتنی تو فضول خرچی نہیں کرسکتے۔ یوں بھی چادر دیکھ کر ہی پائوں پھیلانے چاہئیں۔ المختصر، وہ پردہ میرے حواس پر ایسا طاری ہوگیا کہ سوچا ڈرائنگ روم کی سیٹنگ بدلوں گی تو اسی طرح کے پردے بنوائوں گی۔ پچھلا رمضان تو نکل گیا اس مارا ماری اور بازار کے چکروں میں… ظاہر ہے پھر شوپیس بھی لیے، کچھ نئی پینٹنگز بھی لیں۔ افسوس تو ہوا کہ رمضان کی ساعتیں یوں نہیں جانا چاہیے تھیں، مگر جب عید پر سب نے واہ واہ کی اور میرے ذوق کی داد دی تو رمضان کے ضائع ہونے کی کلفت لمحوں میں دور ہوگئی۔ اب اس برس ڈرائنگ روم کی طرف سے تو فراغت ہے مگر باقی گھر کا رنگ وروغن مجھے رمضان سے قبل ہی کرانا ہے۔ خاندان میں دو تین شادیاں ہیں، اب نئے نویلے جوڑوں کو میں گندے سندے گھر میں تو مدعو نہیں کرسکتی۔ لہٰذا میاں کو بجٹ بتادیا۔ بولے: اچھا تو رنگ وروغن ہوجائے گا، آپ لوگوں کی تیاری کا تو بڑا خرچ نہیں ہوگا ناں! میں نے الٹا سوال داغ دیا کہ آپ کہیں تو ہم پچھلے پرانے دھرانے کپڑوں میں ہی شریک ہوجائیں گے لیکن آپ کی بہنیں اور بھاوجیں جب چمکتے دمکتے نئے لباسوں میں آئیں گی تو آپ ہی کی عزت پر حرف آئے گا۔ میں تو جو بھی کچھ کرتی ہوں آپ ہی کی ناک اونچی کرنے کے لیے کرتی ہوں۔ یہ بے چارے خاموش ہوگئے۔ اکثر ایسے موقعوں پر یہ خاموش ہی ہوجایا کرتے ہیں۔ سمجھ دار مردوں کی یہی نشانی ہوتی ہوگی شاید۔
ویسے کوشش میری بھی یہی ہوتی ہے کہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔ اس لیے میں نے رمضان سے قبل ہی رمضان کا بجٹ بتادیا، کیوں کہ کراکری بھی میں ہر سال کے سال رمضان سے قبل ہی تبدیل کرلیتی ہوں۔ اچھا لگتا ہے رمضان کے دستر خوان پر نئی پلیٹیں، نئے گلاس، نئے ڈونگے، چائے کے نئے کپ۔ اب بھئی پورا سال تو بجٹ اجازت نہیں دیتا ناں! اس لیے اس ماہِ مبارک میں ہی ایک کام یہ بھی ہوجاتا ہے۔ رمضان کی برکت سے بہت سے کام ہوجاتے ہیں جو سارا سال نہیں ہوپاتے…!! اسی لیے میں نے شعبان کے شروع سے ہی شور کردیا ہے کہ جنریٹر تبدیل کردیں۔ اب نو نو گھنٹے بجلی جاتی ہے تو بے چارہ جنریٹر بھی کتنا ساتھ دے گا؟ بار بار خراب بھی ہوجاتا ہے۔ دوسرے شور بھی زیادہ کرنے لگا ہے۔ مسز ہمدانی کے سامنے خوامخواہ خفت اٹھانا پڑی مجھے۔ پچھلے دنوں آئیں تو بولیں ’’جنریٹر بہت آواز دے رہا ہے آپ کا، شاید زیادہ پرانا ہوگیا ہے۔ بھئی میں تو جلدی جلدی بدلتی رہتی ہوں گھر کی چیزوں کو، اب مردوں کو تھوڑی خیال ہوتا ہے ان چیزوں کا، یہ تو ہم عورتوں کی ذمہ داری ہے۔‘‘ میرا نیا سجا سنوارا ڈرائنگ روم، لہراتے بل کھاتے نفیس پردے… مگر وہ تو آن کی آن میں میری گھرداری کو لپیٹ کر رکھ گئیں۔ لہٰذا میں نے کہہ دیا میاں سے کہ اب جنریٹر بدلوا لیں۔ ویسے بھی رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اللہ معاف کرے ہیٹ اسٹروک کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اپنے بیڈ روم میں تو پچھلے رمضان سے قبل ہی اے سی بدلوا لیا تھا۔ اب اتنا پرانا تھا، ٹھنڈک تو کم ہونا ہی تھی۔ میاں الجھتے ہیں چیزوں کے خراب ہونے پر۔ میں کہتی ہوں ہم انسان فانی ہیں تو ان مشینوں سے کیوں خضرِ حیات کی توقع رکھتے ہیں آپ؟ اس برس بیٹے کے کمرے میں اے سی لگوانے کے لیے میرا پورا دبائو ہے۔ اس لیے کہ رمضان میں اس کے امتحان ہیں، روزے کی مشقت، امتحان کا خوف، پھر ہیٹ اسٹروک کی پیشین گوئیاں۔ کمرہ ٹھنڈا ہو تو بلڈ پریشر بھی نارمل رہتا ہے۔ یہی دلیل دے کر اپنے کمرے میں بھی ائیرکنڈیشنر لگوایا تھا میں نے… ان کو ہمیشہ ہی شکایت رہی، شاید سبھی مردوں کو رہتی ہو اپنی بیویوں سے کہ رمضان میں خرچ بہت بڑھا لیتی ہیں آپ! میں نے کہا: بھئی ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے ہمارے سماج میں۔ ہم اپنے اباجی مرحوم کو بھی ماہِ رجب سے پریشان دیکھتے تھے کہ رمضان کا اضافی بجٹ کیسے پورا ہوگا، اور شادی کے بعد اپنے سُسر مرحوم کو بھی…! اب خرچے تو ہوں گے ہی۔ ظاہر ہے اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی آسمان پر پہنچ جاتی ہیں۔ کہتے ہیں: ہاتھ روک کر خرچ کریں آپ۔ میں نے کہا: خرچ نہیں بڑھتا، قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اب میں کسی حکومتی پرائس کنٹرول کمیٹی میں تو شامل ہوں نہیں کہ نرخ کنٹرول ہوجائیں میرے حکم پر… کیا کریں کہ کیلا سو روپے درجن، چیکو دوسو روپے کلو، اور خربوزہ اسّی روپے کلو بکنے لگتا ہے۔ میں تو حیران ہوگئی جب مسز ہاشمی نے مجھے بتایا کہ ان کے گھر تو ہزار روپے روز کے صرف پھل ہی آتے ہیں ماہِ رمضان میں۔ اس لیے کہ دونوں بہوئیں ساتھ رہتی ہیں اور وہ بھی خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے بھرم رکھنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی سارا دن کی بھوک پیاس کے بعد تھکے ماندے جسم کی ضروریات تو بنتے ہیں یہ ماکولات اور مشروبات اور فروٹس چاٹ وغیرہ۔ ہم نے بھی اُن کے خیال کی تائید کی۔ ہمارے گھر تو ماہِ رمضان میں کیلے، امرود یا خربوزہ ہی آتا ہے، اس پر بھی میاں کہتے ہیں کہ خرچہ کم کرو۔ مسز ہاشمی بولیں کہ ان کے ہاں تو افطار کے لیے لال مالٹے آتے ہیں جو تین سو روپے درجن سے کم نہیں ملتے۔ اسٹرابیری کا شیک روز بننا لازم ہے جو چار سو روپے کلو آتی ہے۔ لال انگور اور کیوی میرے میاں کو پسند ہیں۔ لوکاٹ میری امی مرحومہ کو پسند تھے اس لیے مجھے بھی پسند ہیں۔ افطار کے دسترخوان پر نظریں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں اس فروٹ کو دیکھ کر۔ فروٹس کے نام سن کر میں نے سوچا پائو پائو ہی آتے ہوں گے یہ سب تو ایک ہزار روپے میں۔ دوسرا خیال یہ بھی عود کر آیا کہ لوگ کس قدر خیال رکھتے ہیں صحت کا!! ہمارے بچپن میں دستیاب پھلوں میں اکثر بیر ہمارے گھر آیا کرتے تھے اور امی جان کہا کرتی تھیں کہ بیر سیب کا نعم البدل ہیں۔ جیسے فلاں فلاں دالوں کے بارے میں طبیب کہتے ہیں کہ گوشت کا نعم البدل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ طبیب بات صحت کی کرتے ہیں جب کہ زبان بہرحال اپنے تقاضے رکھتی ہے۔ اب لال انگور و لال مالٹے کھانے والے بہرحال اپنا ذوق رکھتے ہیں۔ ہمیں اس سے کیا غرض۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ ہمارے اپنے شہر میں ہزاروں روزے دار ایسے ہوتے ہوں گے جو پھلوں سے بھرے ہوئے ان ٹھیلوں اور دکانوں کو بس دیکھ کر ہی رہ جاتے ہوں گے۔ چیزوں کے نرخ رمضان میں کیوں زیادہ ہوجاتے ہیں یہ تو نہیں پتا، ہاں مگر یہ ہمیں پتا ہے کہ رمضان ہے ’’کمانے‘‘ کا مہینہ۔ اب کوئی کچھ کماتا ہے اور کوئی کچھ۔
جب ہم بیٹی کے ساتھ سپر اسٹور سے واپس پلٹے تو خدا کا شکر ادا کیا کہ ایک بہت بڑا کام ہوگیا۔ اتنا رش تھا کہ لگ رہا تھا مفت بٹ رہا ہے سب کچھ۔ ہم نے برقع اتارتے ہوئے کریڈٹ کارڈ اور سامان کی فہرست میاں کے حوالے کی کہ ذرا چیک کرلیں کم تو نہیں کوئی چیز۔ کریڈٹ کارڈ واپس لیتے ہوئے انہوں نے انتہائی سہمی ہوئی نظروں سے ہماری سمت دیکھا۔ سوال کرنے کی انہیں ضرورت ہی نہ تھی کہ ان کے خوفزدہ چہرے پر درج تھا۔ مگر ہم نے فوری حملہ کرنا مناسب سمجھا اور موسم کا گلہ کرتے ہوئے کہا کہ اُف اتنی گرمی، اللہ نارِ جہنم سے پناہ میں رکھے۔ فہرست جو کمپیوٹر سے نکلنا شروع ہوئی تو نکلتی ہی چلی گئی۔ کم از کم گز بھر لمبی فہرست تھی۔ ہم نے فخریہ کہا ’’بس رمضان کی بھی سب خریداری ہوگئی ہے اِس دفعہ۔‘‘ صحن میں رکھے درجنوں منہ بند شاپر بتارہے تھے کہ آج میدان ہمارے ہاتھ رہا ہے۔ میاں جی نے ایک اچٹتی ہوئی نظر صحن بھر میں پھیلے ہوئے شاپرز پر ڈالی اور بولے ’’رمضان میں کھانا ہم ایک وقت کم کھاتے ہیں تو بجٹ تو نصف ہوجانا چاہیے، نا کہ تین گنا بڑھ جاتا ہے کھانے پینے کا خرچ‘‘۔ گاڑی سے گھر آتے آتے ہم پسینے سے بے حال ہوچکے تھے، اب بحث ومباحثہ کی ہم میں ہمت نہ تھی۔ ویسے اس دلیل کے جواب میں تو دلیل ہی درکار تھی کہ بھوک کی تربیت کے اس مہینے میں کھانے پینے کی خواہشات دیگر گیارہ مہینوں کے مقابلے میں اتنی بڑھ کیوں جاتی ہیں؟ پانچ گھنٹے کی خریداری کے بعد ہمارا ذہن کسی دلیل کو ڈھونڈنے پر آمادہ نہ تھا۔ آپ کی سمجھ میں آئے تو ہمیں بھی بتائیے گا۔
یہ تو تھی ہماری استقبالِ رمضان کی تیاری…!! آپ کی تیاری یقینا اس سے مختلف ہوگی، اس لیے کہ ہمارا گمان ہے آپ تقویٰ (بچنے) کے حقیقی مفہوم سے آگاہ ہیں…!!
.آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا