December 21st, 2024 (1446جمادى الثانية19)

عمومی سوالات

 

جی ہاں ہمارے پاس گوشۂ عافیت کے نام سے شیلٹر ہوم کراچی میں ہے۔

نوکری کرنے سے مراد پیسہ کمانے کے لیے کسی قسم کی ملازمت کرنا ہے تو یہ بالکل جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت پر کمانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی۔اس کی کفالت کی، اس کا خرچہ اٹھانے کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے وہ باپ ہو، شوہر ہو، بھائی ہو یا بیٹا۔ لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے اور مجبوری نہ بھی ہو تو کسی اور وجہ سے وہ کمانا چاہتی ہو یا کمانا مقصد نہ بھی ہو کسی اور مقصد سے ملازمت کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے مگر اس بات کا خیال رہے کہ اس اجازت کی وجہ سے جو دوسری ذمہ داریاں عورت پر ڈالی گئی ہیں یا دوسرے جو احکام اس کو دیئے گئے ہیں وہ ساقط نہیں ہوں گے۔ ان کی ادائیگی اپنی جگہ رہے گی مثلاََ اولاد کی تربیت، شوہر کی اطاعت، پردے کے احکام وغیرہ

محترم بھائی آپ گھر بسانا چاہتے ہیں بہت اچھی سوچ اور جذبہ ہے۔ اگر آپ ان فضول اورچھوٹی چھوٹی باتوں کی نشاندہی کر دیتے جن پر آپ کی بیوی جھگڑتی ہے تو مشورہ دینا آسان ہوجاتا مگر پھر بھی چند بنیادی باتیں پیش خدمت ہیں شاید آپ کے کام آئیں اور آپ کے گھر بسانے میں معاون ہوں۔ میاں بیوی کا رشتہ بہت اہم رشتہ ہوتا ہے یہ صرف دو افراد کا نہیں دو خاندانوں کا رشتہ ہوتا ہے اسی رشتے کی مضبوطی پر معاشرے اور نئی نسل کے استحکام کا انحصار ہوتا ہے۔ جب دو مختلف ماحول میں پلنے والے مختلف مزاج کے مرد و عورت نکاح کے بندھن (عقد) میں بندھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درمیان رحمت و موّدت ڈال دیتا ہے(سورۃ روم:۲۱) ۱۔ اسلام دونوں کو ان فرائض اور حقوق واضح طور پر بتاتا ہے۔ آپ کسی مستند کتاب سے آپ پر شوہر کی حیثیت سے جو ذمہ داری ڈالی گئی ہیں اور جو حقوق دیئے گئے ہیں سمجھ لیں۔ میں مولانا مودودیؒ کی کتاب حقوق الزوجین تجویز کروں گی۔ ۲۔آپ قوام کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی فکر کریں اور اپنی بیوی کو بھی نرمی کے ساتھ اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائیں۔ جہاں ہر فرد کو صرف اپنے حقوق کی فکر ہو اور فرائض پر توجہ نہ ہو وہاں کبھی تعلقات اور معاملات درست نہیں ہوسکتے۔ ۳۔ آپ گھر کے سربراہ ہیں گھر کے اخراجات پورے کرنے کے ساتھ تربیت اور ماحول کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے آپ خود اسلام کے بنیادی احکام کی پابندی کریں اور اپنے گھر میں اس کو رواج دینے کی کوشش کریں۔ اللہ کی نعمتوں پر دل سے ان نعمتوں کا احساس و اعتراف کریں اور شکر گزار ہوں اور بیوی کو بھی اللہ کی نعمتوں کا احساس دلائیں۔ ۴۔ جب دو مختلف مزاج کے افراد مل کر رہتے ہیں تو اختلافات ضرور ہوتے ہیں، ہوسکتا ہے جو بات آپ کو چھوٹی سی اور فضول لگ رہی ہے وہ دوسرے کی نظر میں اتنی چھوٹی اور فضول نہ ہو۔ اس سلسلے میں میرا مشورہ ہے آپ سورۃ النساء کی آیت ۹ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی نصیحت کو گرہ میں باندھ لیں۔ ’’اور عورتوں کے ساتھ حسن و خوبی سے گزر بسر کرو اگر تم کو وہ ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی خیر رکھ دے‘‘۔ ۵۔ شیطان ازل سے میاں بیوی کے رشتہ کا دشمن ہے اور آج فتنوں کے دور میں اس کی دشمنی عروج پر ہے۔ شیطان کی دو اہم صفات اور ہتھیار ’’غصّہ‘‘ اور ’’تکبر‘‘ ہیں۔ ان دونوں صفات کی سختی سے بچیں۔ شیطان کی چالوں سے بچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی بہترین مدد فرمائے اور آپ کو خوشیوں اور محبت بھری ازدواجی زندگی عطا فرمائے۔

4 .   میری شادی کو دس سال ہوگئے ہیں۔ میرے شوہر مار پیٹ، گالی گلوچ شروع سے کرتے تھے، پھر پتہ چلا کہ شراب پیتے ہیں۔ آخری دو سالوں میں نوبت یہ آگئی کہ ساتھیوں کو گھر لے آئے ؤاور زبردستی کرتے کہ ان کے ساتھ بیٹھو، زنا کرنے پر مجبور کرتے۔ میں اپنے والدین کے گھر آگئی ہوں اور خلع دائر کردی ہے۔ لیکن معلوم ہوا کہ کورٹ کے خلع تفویض کرنے سے خلع نہیں ہوگی جب تک شوہر خود نہ چاہے۔ میرے لیے دین میں کیا راستہ ہے؟ میں اُن کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اور وہ مجھے چھوڑنا نہیں چاہتے۔

دین نے ہی یہ راستہ دکھایا ہے کہ اگربیوی شوہر سے علیحدہ ہونا چاہتی ہو اور شوہر طلاق دینا نہیں چاہتا تو خلع کے لیے عدالت میں کیس کیا جاسکتا ہے۔ شوہر کو عدالت میں بُلانے کے لیے سمن بھیجے جاتے ہیں اور اگر وہ اطلاع پا کر بھی نہ آئے تو کچھ پیشیوں کی سماعت کے بعد کورٹ عورت کے حق میں فیصلہ دے سکتی ہے جو شرعی طور پر نافذ ہو جاتا ہے ۔ خلع کی نوبت آتی ہی اُس وقت ہے جب شوہر طلاق نہیں دیتا اور وہ آنا نہیں چاہتا ایسی کوئی دفع نہ قانون میں ہے نہ شریعت میں کہ شوہر نہ چاہے تو خلع نہیں ہوگی۔ خلع جائز بھی ہے اور قانونی بھی، چاہے شوہر حاضر ہو یا نہ ہو۔ ہاں جان بوجھ کر شوہر سے چُھپا کر خلع لے تو یہ غیر شرعی اور ناجائز ہوگا۔

آپ.... کو یہ غلط فہمی [ہوئی] ہے کہ اقامت ِ دین کی سعی ہرحال میں صرف فرضِ کفایہ ہے۔ حالاں کہ یہ فرضِ کفایہ صرف اسی حالت میں ہے، جب کہ آدمی کے اپنے ملک یاعلاقے میں دین قائم ہوچکا ہو ، اور کفّار کی طرف سے اس دارالاسلام پر کوئی ہجوم نہ ہو، اور پیشِ نظر یہ کام ہو کہ آس پاس کے علاقوں میں بھی اقامت ِ دین کی سعی کی جائے۔ اس حالت میں اگر کوئی گروہ اس فریضے کو انجام دے رہا ہو، تو باقی لوگوں پر سے یہ فرض ساقط ہوجاتاہے اور معاملے کی نوعیت نمازِ جنازہ کی سی ہوتی ہے۔ لیکن اگر دین خود اپنے ملک ہی میں مغلوب ہو، اور خدا کی شریعت متروک و منسوخ کرکے رکھ دی گئی ہو، اور علانیہ منکرات اور فواحش کا ظہور ہو رہا ہو، اور حدود اللہ پامال کی جارہی ہوں، یا اپنا ملک دارالاسلام تو بن چکا ہو مگر اس پر کفّار کے غلبے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہو، تو ایسی حالتوں میں یہ فرضِ کفایہ نہیں بلکہ فرضِ عین ہوتا ہے، اور ہروہ شخص قابلِ مواخذہ ہوگا، جو قدرت و استطاعت کے باوجود اقامت ِ دین اور حفاظت ِ دین کے لیے جان لڑانے سے گریز کرے گا..... فقہ کی کتابوں میں جہاد کی بحث نکال کر دیکھ لیں کہ ہجومِ عدُو [دشمن کی یلغار]کی صورت میں جہاد فرضِ کفایہ ہے یا فرضِ عین۔ جس زمانے میں فقہ کی یہ کتابیں لکھی گئی تھیں، اُس وقت ممالک اسلامیہ میں سے کسی جگہ بھی اسلامی قانون منسوخ نہیں ہوا تھا اور نہ حدودِ شرعیہ معطل ہوئی تھیں۔ اس لیے انھوں نے صرف ہجوم عدو ہی کی حالت کا حکم بیان کیا تھا۔ لیکن، جب کہ مسلمانوں کے اپنے وطن میں کفر کا قانون نافذ اور اسلام کا قانون منسوخ ہو، اور اختیار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو حدود اللہ کی اقامت کو وحشیانہ فعل قرار دیتے ہیں، تو معاملہ ہجومِ عدُو کی نسبت کئی گنا زیادہ سخت ہوجاتا ہے، اور اس صورت میں کوئی شخص جو دین کا کچھ بھی فہم رکھتا ہو، اقامت ِ دین کی سعی کو محض فرضِ کفایہ نہیں کہہ سکتا۔ (’رسائل و مسائل‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۸، عدد۴، شوال ۱۳۷۶ھ، جولائی ۱۹۵۷ء، ص ۵۶-۵۷)