سید مودودی فرماتے ہیں کہ جو لوگ یہ بات کہتے ھیں کہ " ساری دنیا کے مسلمانوں کی عید ایک دن ھونی چاھیے وہ تو بالکل ھی لغو بات کہتے ھیں ، کیونکہ تمام دنیا میں رویتِ ھلال کا لازمًا اور ھمیشہ ایک ھی دن ھونا ممکن نہیں ھے ۔۔۔ رھا کسی ملک یا کسی ملک کے ایک بڑے علاقے میں سب مسلمانوں کی ایک عید ھونے کا مسئلہ تو شریعت نے اس کو بھی لازم نہیں کیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ ھو سکے اور کسی ملک میں شرعی قواعد کے مطابق رویت کی شہادت اور اس کے اعلان کا انتظام کر دیا جائے تو اس کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ھے ، مگر شریعت کا یہ مطالبہ ھر گز نہیں ھے کہ ضرور ایسا ھی ھونا چاھیے ، اور نہ شریعت کی نگاہ میں یہ کوئی بُرائی ھے کہ مختلف علاقوں کی عید مختلف دنوں میں ھو ۔۔۔۔۔۔ خدا کا دین تمام انسانوں کے لیے ھے اور ھر زمانے کے لیے ھے ۔۔۔۔ آج لوگ ریڈیو ( یا ٹیلی ویژن ) کی موجودگی کی بنا پر یہ باتیں کر رھے ھیں کہ سب کی ایک عید ھونی چاھیے ، مگر آج سے 60-70 برس پہلے تک پورے برّ صغیر ھند تو درکنار ‘ اس کے کسی ایک صوبے میں بھی یہ ممکن نہ تھا کہ 29 رمضان کو عید کا چاند دیکھ لیے جانے کی اطلاع سب مسلمانوں تک پہنچ جاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر شریعت نے عید کی وحدت کو لازم کر دیا ھوتا تو پچھلی صدیوں میں مسلمان اس حکم پر آخر کیسے عمل کر سکتے تھے ؟ ( سیّد ابوالاعلیٰ مودودی رح ، کتاب الصّوم )
پردہ اسلام کا، مسلمان عورت سے مطالبہ اور اسلامی نظام و تہذیب کا تقا ضہ ہے۔ برقع اس کا ایک مقا می ثقا فتی رنگ ہے جو مختلف ثقا فتوں میں مختلف انداز کا حامل ہو سکتا ہے۔
آپ کے موصولہ سوال کا جواب درج ذیل ہے۔ عورت کے لئے محض زیب و زینت کے لئے بھویں بنانا جائز نہیں اور یہ حکم سب عورتوں کے لئے ہے، خاوند اجازت دے یا نہ دے اس سے فرق نہیں پڑتا عورت کے چہرے پر اگر زائد بال اگ آئے ہوں، تو ان بالوں کو صاف کر سکتی ہے اسی طرح بھویں بالکل آپس میں مل گئی ہوں، یا بھوؤں سے اوپر نیچے کچھ منتشر بال ہوں، تو اس وقت ان کو چن سکتی ہے لیکن باریک کرنا جائز نہیں۔ عورت پر خاوند کے لئے چہرے کا بناؤ سنگھار شرعی حدود میں رہتے ہوئے جائز ہے، زیب و زینت میں خلاف شرع کام کی اجازت نہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایسی عورت پر اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتے ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ ’’ نبی کریم ﷺ نے ابرو کے بال اکھیڑنے اور اکھیڑنے کا مطالبہ کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ صحیح بخاری حدیث نمبر(۴۸۸۶) صحیح مسلم حدیث نمبر(۲۱۲۵) ایک مسلمان کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ اسے معلوم ہو کہ اس کام سے شریعت نے منع کیا ہے اور اس کام کے کرنے کا حکم دیا ہے، یا اجازت دی ہے اور شریعت کے حکم پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ خوش ہوتے ہیں اور حکم نہ ماننے سے ناراض ہوتے ہیں اور شریعت کے حکم کو ماننے سے دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء والارشاد جامعۃ الحرمین
آپ کی فکر ندامت اور گناہ سے پچنے کی خواہش قابل تعریف اور اللہ کی رحمت کی نشانی ہے۔ توبہ کے ضمن میں چند باتیں سمجھ لیں۔ توبہ کے معنی اللہ کی طرف پلٹنا ہے صرف چند کلمات کی ادائیگی نہیں ہے۔عزم کی کمزوری اور بھول کر اللہ کی نافرمانی کر بیٹھنا تو آدم کی سرشت میں ہے۔ یہ فطری ہے یہ ہوگا کیونکہ شیطان تو اپنے کام میں مسلسل لگا ہوا ہے، مگر مایوسی کفر ہے اللہ کی رحمت سے مایوس کافر ہی ہوتا ہے۔شیطان اپنے مشن میں لگا ہوا ہے، تو اللہ نے بھی اپنے بندوں کو جہاد بالنفس کا حکم دیا ہے۔ جہاد کے معنی ہیں مسلسل اور بھرپور کوشش۔ آپ مایوس بالکل نہ ہوں توبہ کریں اللہ سے مدد کی دعا مانگیں اور اللہ سے قریب ہونے کے لیے اور شیطان سے بچنے کے لیے ترجمہ سے قرآن پرھیں، اپنی نمازوں کو بہتر کریں، اللہ سے بہت ساری دعائیں کریں، چلتے پھرتے اپنی مصروفیات کے درمیان اور اپنا ماحول تبدیل کرنے کی کوشش کریں نیک لوگوں کی محفلوں میں جائیں، کسی اچھی اجتماعیت سے جُڑ جائیں اور بُرائی کی ترغیب کے ماحول سے جتنا کٹ سکیں کٹ جائیں۔ اللہ کی مدد ضرور آئے گی مگر آپ کی کوشش اور جہاد کے بعد، کرنا آپ کو ہی ہے اور یہ نا ممکن ہے نہ بہت مشکل۔