October 4th, 2024 (1446ربيع الأول30)

عمومی سوالات

 

الحمد للہ خدمت انسانیت کے لئے جماعت اسلامی اپنی مثال آپ ہے کروڑوں اربوں روپے کے فنڈز ہر طبقہ سے دنیا بھر سے مل جانا جماعت اسلامی پر اعتماد کا بین ثبوت ہے ووٹ نہ ملنے کی بہت ساری وجوہات ہیں عوام میں دینی و سیاسی شعور کی کمی، اس میں سرفہرست ہے لیکن ہم مایوس نہیں ہیں واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے جماعت اسلامی کی عوامی بیداری کے لئے کوششیں مسلسل جاری ہیں ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب لوگ ووٹ بھی جماعت کے نمائندوں کو ہی دیں گے

جماعت کو سچائی نے شکست نہیں دی ‘جھوٹ نے شکست دی ہے۔ جماعت اسلامی اگر سچائ سے شکست کھاتی تو فی الواقع اس کے لئیے شدید ندامت کا مقام تھا۔لیکن چونکہ اس نے جھوٹ سے شکست کھائ ہے اس لئیے اس کا سر فخر سے بلند ہے۔ وہ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں لائی۔وہ بداخلاقی کے مقابلے میں بداخلاقی نہیں لائی۔اس نے سڑک پر رقص نہیں کیا۔اس نے غنڈوں کو منظم نہیں کیا۔اس نے برسر عام گالیاں نہیں دیں۔ اس نے لوگوں سے جھوٹے وعدے نہیں کئیے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ لوگ جھوٹے وعدوں کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ کچھ لوگ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ کچھ نہ کچھ آپ کو بھی کرنا چاہیے۔لیکن میں ان سے برابر یہی کہتا رہا کہ چاہے آپ کو ایک نشست بھی نہ ملے لیکن آپ سچائ کے راستے سے نہ ہٹیں۔ وہ وعدہ جسے آپ پورا نہ کرسکتے ہوں وہ آپ نہ کیجیئے۔۔ کوئ ایسا کام آپ نہ کیجئے جسکی وجہ سے خدا کے ہاں آپ پر کوئ ذمہ داری آجائے کہ آپ اس قوم کا اخلاق بگاڑ کر آئیں ہیں۔ آپ بھی اس قوم کو جھوٹ، گالی گلوچ، اور دوسری اخلاقی بیماریوں میں مبتلا کر کے آئے ہیں۔جو ذمداری آپ پر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کا بتایا ہوا طریقہ ہے اس کے مطابق کام کریں۔آپ اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ اس ملک کے اندر ضرور اسلامی نظام قائم کریں۔ اسلامی نظام کا قیام تو اللہ تعالی کی تائید اور توفیق پر منحصر ہے۔اس قوم کی صلاحیت اور استعداد پر منحصر ہے جس کے اندر آپ کام کر رہے ہیں کہ اللہ تعالی اس کو اس قابل سمجھتا ہے یا نہیں کہ اس کو اسلامی نظام کی برکتوں سے مالا مال کرے’ یا انہیں تجربوں کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دے جن کی ٹھوکریں آج وہ کھا رہی ہے۔ آپ کا کام اللہ اور رسول کے بتائے ہو ئے طریقے پر چل کر محنت کرنا ہے ،جان کھپانی ہے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی کریں گے تو معتوب ہوں گے۔اس میں اگر کوتاہی نہیں کرتے تو اللہ کے ہاں کامیاب ہوں گے خواہ دنیا میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔ ( تصریحات ص 277-278)

جماعت اسلامی پاکستان میں فیصلے فرد واحد کے اختیار میں نہیں ہوتے ہیں جو بھی فیصلہ ہوتا ہے اس سے پہلے شوراؤں اور بعض مخصوص حالات میں کمیٹیوں کی مشاورت سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں الیکشن کا معاملہ حساس اور خصوصی ہوتا ہے۔ کیونکہ جیسا کچھ بھی electorial system یہاں رائج ہے کسی سے مخفی نہیں ہے گزشتہ الیکشن میں جماعت اسلامی نے دونوں option رکھے تھے کہیں اتحاد اور کہیں صرف سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ۔ یہ ذہن میں رکھیئے ہمارے نزدیک سیٹیں جیتنا مقصد نہیں ہے ۔ مقصد پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام ہے۔ اور آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر ہی اس کا حصول کرنا ہے ۔ لہٰذا اس مقصد کی تکمیل کے لیے اگر ہمیں کوئی سہارا مل رہا ہو تو ہم اس کو حاصل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ KPK میں PTI سے ضرور ہم نے اتحاد کیا تھا۔ مگر باقی صوبوں نے سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کا فیصلہ کیا تھا اور یہ سیٹ ٹو سیٹ طے ہوا تھا۔ لہٰذا اگر ایک سیٹ پر PTI دو ست ہے تو دوسری سیٹ پر وہی PTI مخالفت میں کھڑی ہے۔ ہم نے ہمیشہ مشترکات پر جمع ہونے کی کوشش کی ہے۔one point agenda بھی ہوتا ہے۔ کبھی یہ سیٹ فلاں پارٹی کے پاس نہ جانے پائے لہٰذا وہ تمام پارٹیز اکٹھے ہو جائیں جو مشترکہ ہوں اس ایک نکتے پر ۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ جس سیٹ پر ہمارا ووٹ بینک یا دعوت کا کام اچھا ہو اس پر adjustment کرتے ہیں کہ یہاں سے ہم الیکشن لڑیں اور جہاں ہمارا ووٹ بینک یا دعوت کا کام کمزور ہو اور دوسری پارٹی کا اچھا ہو اسے دے دیں یہ نظریہ یا کردار spport پر نہیں ہے۔ یہ سب حکمت عملیاں ہیں جو اختیار کی جاتی ہیں اور ایک وسیع تناظر میں فیصلے ہوتے ہیں۔ کارکن کو قیادت پر یکسو رہنا چاہئے کیونکہ وہ اس وسیع تناظر میں چیزوں کو نہیں دیکھ رہا ہوتا۔ جزاک اللہ

یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ ہم اِس وقت جس مقام پر کھڑے ہیں اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ھو گا اور جس منزل تک ہم جانا چاہتے ہیں اس کو واضح طور پر نگاہ کے سامنے رکھنا ھو گا تاکہ ہمارا ہر قدم اُسی منزل کی طرف اُٹھے ۔ خواہ ہم پسند کریں یا نہ کریں ، نقطۂ آغاز تو لامحالہ یہی انتخابات ہوں گے کیونکہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظامِ حکومت تبدیل ہو سکتا ھے اور حکمران کو بھی بدلا جا سکتا ھے ۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ھے جس سے ہم پُرامن طریقے سے نظامِ حکومت بدل سکیں اور حکومت چلانے والوں کا انتخاب کر سکیں ۔ اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس ، دھوکے ، دھاندلی ، علاقائی یا مذہبی یا برادری کے تعصّبات ، جھوٹے پروپیگنڈے ، گندگی اُچھالنے ، ضمیر خریدنے ، جعلی ووٹ بُھگتانے اور بےایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ھو سکیں ۔ انتخابات دیانتدارانہ ہوں ۔ لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع دیا جائے ۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول ، مقاصد اور پروگرام پیش کریں اور یہ بات اُن کی اپنی رائے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے ۔ ہو سکتا ھے کہ پہلے انتخابات میں ہم عوام کے طرزِ فکر اور معیارِ انتخاب کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکیں ۔ لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظامِ حکومت پورے کا پورا ایماندار لوگوں کے ہاتھ میں آ جائے گا ۔ اِس کے بعد پھر ہم نظامِ انتخاب پر نظر ثانی کر سکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخاب کو از سرِ نو قائم کرنے میں کامیاب ھو سکتے ہیں جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو ۔ بہرحال آپ یک لخت جَست لگا کر اپنی انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے ۔ " ( تصریحات ۔ انٹرویو ریڈیو پاکستان ، 9 مارچ 1978 )