April 18th, 2024 (1445شوال9)

کارکنانِ تحریک اسلامی اور چند بنیادی اُمور

پروفیسر خورشید احمد

عالمِ اسلام میں ایک شدید کش مکش برپا ہے۔ مغربی تہذیب کے تین سو سالہ اثرات کے نتیجے میں دُنیا کے ہرخطّے میں ایک ایسا طبقہ رُونما ہوگیا ہے، جو ذہنی طور پر مغرب سے شکست کھاچکا ہے اور عملی طور پر اپنا اور اپنے گروہ کا مفاد مغربی طرزِ زندگی کی تقلید میں محفوظ سمجھتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ طبقہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اثرواقتدار کا مقام رکھتا ہے اور اپنے باطل تصورات کو پوری سوسائٹی پر مسلط کرنے کی جارحانہ کوشش میں مصروف ہے۔

دوسری طرف، آج اسلامی دنیا کے بعض اہم مراکز میں تحریک ِ اسلامی، ایک منظم طریقے پر دعوتِ دین اور تعمیر کردار سے منسوب خدمت انجام دے رہی ہے۔ وہ ممالک جہاں ریاستی جبروزیادتی اور پابندیاں اسے باقاعدہ نظم کے ساتھ کام کا موقع نہیں دیتیں، وہاں بھی فکری اور ثقافتی میدانوں میں اسلام کے یہ داعی: آزادی، مال، مستقبل، آبرو اور جان کی قربانی دے کر سرگرمِ عمل ہیں۔

خوش قسمتی سے پاکستان میں تحریک اسلامی، ایک تنظیم کی صورت میں کھلے بندوں کام کر رہی ہے اور زندگی کے ہر شعبے کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعمیرنو کرنے میں مصروف ہے۔یہ ایک ایسی سعادت ہے، جس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا، اور جس کا حق ادا کرنا پوری ملّت پر فرض ہے۔

تحریک اسلامی کا وجود، جہاں بہت بڑی سعادت ہے، وہیں ایک عظیم آزمایش بھی ہے۔ جن لوگوں نے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کا فیصلہ کرلیا ہے، ان سے ہمیں کچھ نہیں کہنا۔ لیکن جو اس تحریک کو حق اور خیر کا داعی سمجھتے ہیں، ان سے ہم ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ آج کے حالات میں، جب کہ زندگی کے ہر میدان میں معرکۂ حق و باطل برپا ہے، اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں؟ کیا وہ عملاً صرف خاموش تماشائی بن کر تو نہیں رہ گئے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ محض دُور ہی سے ’داد‘ دینے اور ’اتفاق‘ کا اظہار کرنے پر قانع ہوگئے ہیں، اور عالم یہ ہے کہ:

ع  دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیروشر!

آج جو کش مکش بپا ہے، اس کے نتائج بڑے دُور رس ہوں گے۔ ہمارے اپنے ملک میں، عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیت کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسانی اجتماعی زندگی  اسلام کے اصولوںاور احکامات کی روشنی میں مرتب و منظم ہو۔ آج تک جو تجربات بھی انسان نے اجتماعی زندگی کو چلانے کے لیے کیے ہیں، وہ بڑے تلخ رہے ہیں۔ ان تلخیوں کے نتیجے میں اب انسان اس مقام پر آگیا ہے کہ اگر کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوتا تو خود انسانیت کا وجود خطرے میں ہے۔

ہم تاریخ کے گہرے مطالعے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل صرف اسلام کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر آج ہم اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو کل ہماری نسلیں اور پوری انسانیت سُکھ اور چین کی زندگی گزاریں گی، اور اگر ہم کوتاہی کرتے ہیں تو خدا اور خلق دونوں کے مجرم ہوں گے۔

خود احتسابی کے احساس کے تحت، تحریک اسلامی کے ذمہ داران اور کارکنوں سے، ارکان اور حامیان سے، اور پھر ان سے بڑھ کر خود اپنی ذات سے ہم یہ سوال کرتے ہیں:

  • کیا ہم شہادتِ حق اور دعوتِ اسلامی کا حق پوری ذمہ داری سے ادا کر رہے ہیں؟
  • اس قافلۂ حق نے جو کارنمایاں ادا کیا ہے، اُس میں خود انفرادی طور پر ہمارا حصہ کتنا ہے؟
  • کیا ہم نے اپنے گھر، خاندان، برادری، گلی محلّے، گائوں اور شہر میں اس دعوتِ حق کو پھیلانے اور منظم کرنے کے لیے واقعی جان گھلائی ہے؟
  • کیا ہمیں اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ آج کا کفر، سیکولرزم کے نام پر ماضی میں کفر کی مختلف شکلوں کے برعکس کہیں زیادہ خوش نما رُوپ میں اور بے چہرہ بن کر ہماری دینی، فکری، انفرادی، اخلاقی اور عملی زندگی کے ہرموڑ پر جاہلیت کا پیغام اور پھندا لیے کھڑا ہے؟
  • کیا اس کش مکش کی وسعت، گرفت، گہرائی اور اثرپذیری کا واقعی ہمیں احساس ہے؟
  • کیا ہم نے اپنی ہمت اور صلاحیت کے مطابق پیش نظر چیلنج کا جواب دینے کے لیے علمی و فکری سطح پر، پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ تیاری کی ہے اور تیاری کر رہے ہیں؟
  • کیا ہم معاشرے کے معاشی، معاشرتی، تہذیبی اور عملی مسائل و معاملات میں اسلام اور کفر و جاہلیت کے تضادات کو سمجھنے کا شعور پروان چڑھانے کے لیے کوشاں ہیں؟
  • کیا ہم دینِ اسلام کے بنیادی احکامات پر عمل کرنے میں، معاشرے میں کردار کی بلندی کی جانب گامزن، ظلم و زیادتی کے بالمقابل برملا اور ثابت قدمی سے کھڑے ہونے کے تاثر کو حقیقی اور منفرد شان دینے میں کامیاب ہیں؟
  • کیا ہماری معاشی زندگی اور منصبی ذمہ داریاں، واقعی اللہ اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احساسِ بندگی اور اجتماعی فلاح کے لیے عطا کردہ رہنمائی اور ہدایت کے تحت استوار ہیں؟
  • کیا ہمارا دل، مسلم اُمت کی تکلیفوں پر تڑپتا اور حق کے داعیوں کی تکالیف پر لرزتا ہے، یا  ہم ان اُمور سے لاتعلق ہیں؟
  • کیا تحریک کے نمایاں افراد اور متحرک کارکنان، روز مرہ زندگی میں درپیش سوالوں کا  شافی اور متوازن جواب دینے کے لیے دلیل اور علم کی قوت و صلاحیت پیدا کررہے ہیں؟
  • کیا تحریک کی صفوں میں نئی نسل کی قابلِ لحاظ تعداد شانہ بشانہ شامل ہو رہی ہے؟ اور انھیں تربیت اور ترقی کے مراحل سے منظم انداز میں گزارنے کے مواقع حاصل ہورہےہیں؟ کامیاب قیادت وہ ہے جو اپنی ذمہ داریاں مؤثر انداز میں ادا کرکے، ساتھ ہی ساتھ اپنی جگہ لینے والے تیار کرسکے، اورجو بارِ امانت ان کے ہاتھوں میں ہے، اسے نئی نسلوں کی طرف منتقل کرسکے۔ دیکھنا اور جائزہ لینا ہے کہ ہم اس ذمہ داری کا کتنا اہتمام کررہے ہیں؟

اگرواقعی ہمارا دل مطمئن ہے کہ شہادتِ حق کی ادائیگی، غلبۂ حق کی جدوجہد اور خدمت ِ انسانی کے کاموں میں اپنی قوت کی ہررمق جھونک دی ہے، تو اس کے لیے ربِّ کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر شکر بجا لانا چاہیے۔ اور اگر ہمارا ضمیر یہ چبھن محسوس کر رہا ہے کہ ہم اپنا حق ادا نہیں کر رہے ہیں تو ابھی وقت ہے۔ آیئے اور حق کے لیے اپنی جان، مال، قوت، صلاحیت اور وقت کی بازی لگا دیجیے۔ موقع سے فائدہ اُٹھایئے، قبل اس کے کہ موقعے سے محروم کر دیے جائیں:

 ع   کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرفِ بہاراں ہوتے ہیں