April 19th, 2024 (1445شوال10)

جماعت اسلامی کیوں قائم کی گئی؟

آباد شاہ پوریؒ

جماعت اسلامی کا قیام خلا میں نہیں ہوا۔ بہت سی دوسری جماعتیں بھی کام کررہی تھیں۔ ان میں مسلمانوں کی جماعتیں بھی تھیں اور غیر مسلموں کی بھی۔ مسلمانوں کی جماعتوں میں سیاسی جماعتیں بھی تھیں اور دینی جماعتیں اور گروہ بھی۔جماعت اسلامی جس مقصد اور نصب العین پر بنائی گئی اس کی دعوت سید مودودیؒ 1933 سے دیتے آرہے تھے۔ اگر یہ دعوت مسلمانوں کی کوئی بھی دوسری جماعت قبول کرلیتی اور اس کے مقصد اور نصب العین کو اپنا مقصد اور نصب العین بنا لیتی تو جماعت اسلامی قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اس لیے مقصد ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانا نہ تھا بلکہ ایک ایسی جماعتی ہیئت کو وجود میں لانا تھا، جو خالصتاََ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کا فریضہ انجام دے، لیکن جب کسی جماعت نے بھی اس دعوت پر کان نہ دھرے تو سید صاحبؒ نے خود جماعت اسلامی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے، جس اختصار، مگر جامعیت کے ساتھ سید صاحبؒ نے تشکیل جماعت کا سبب خود بیان کیا ہے، شاید اس سے مختصر اور جامع طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ سید مودودیؒ نے کہا:

جماعت سازی کا یہ قصور ہم نے مجبوراََ کیا ہے نہ کہ شوقیہ۔ سب کو معلوم ہے کہ اس جماعت کی تشکیل سے پہلے برسوں اکیلا پکارتا رہا ہوں کہ مسلمانو، یہ تم کن راہوں میں اپنی قوتیں اور کوششیں صرف کررہے ہو، تمہارے کرنے کا اصل کام تو یہ ہے، اس پر اپنی تمام مساعی مرکوز کرو۔ یہ دعوت اگر سب مسلمان قبول کرلیتے تو کہنا ہی کیا تھا۔ مسلمانوں میں ایک نئی جماعت بننے کے بجائے مسلمانوں کی ایک جماعت بنتی اور کم از کم ہندوستان کی حد تک وہ الجماعت ہوتی، جس کی موجودگی میں کوئی دوسری جماعت بنانا شرعاََ حرام ہوتا۔ یہ بھی نہیں تو مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں کوئی ایک ہی اسے مان لیتی، تب بھی ہم راضی تھے، اسی میں بخوشی شامل ہوجاتے مگر جب پکار جائے اور جب میں ایسے آدمی کو پاؤں گا تو سب سے پہلے اس کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ نیز، میں ہمیشہ ہر اجتماع عام کے موقع پر جماعت سے بھی درخواست کرتا رہوں گا کہ اگر اب اس نے کوئی مجھ سے بہتر آدمی پالیا ہے تو وہ اسے اپنا امیر منتخب کرلے، میں اس منصب سے بخوشی دستبردار ہوجاؤں گا۔ میں اپنی ذات کو کبھی خدا کے راستے میں سدراہ نہ بننے دوں گا اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دوں گا کہ ایک ناقص آدمی اس جماعت کی رہنمائی کررہا ہے، اس لیے ہم اس میں داخل نہیں ہوسکتے‘‘۔

پالیسی بیان کے سلسلے میں سیّد صاحب نے فرمایا:

میں حدِ وسع تک انتہائی کوشش کروں گا کہ اس کام کو پوری خدا ترسی اور پورے احساس ذمّے داری کے ساتھ چلاؤں اور قصداََ اپنے فرض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہ کروں، میں اپنے علم کی حد تک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور خلفائے راشدینؓ کے نقش قدم کی پیروی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھوں گا۔

مجھ سے کوئی لغزش ہو یا آپ میں سے کوئی محسوس کرے کہ میں راہ راست سے ہٹ گیا ہوں تو مجھ پر بدگمانی نہ کرے کہ میں عمداََ ایسا کررہا ہوں، بلکہ حسن ظن سے کام لے اور نصیحت سے مجھے سیدھا کرنے کی کوشش کرے۔

آپ کو مجھ پر یہ حق ہے کہ میں اپنے آرام و آسائش اور اپنے ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمّے داری کو ترجیح دوں، جماعت کے نظم کی حفاظت کروں، ارکان جماعت کے درمیان عدل اور دیانت کے ساتھ حکم کروں، جماعت کی طرف سے جو امانتیں میرے سپرد ہوں، ان کی حفاظت کروں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دل، دماغ اور جسم کی تمام طاقتوں کو اس مقصد کی خدمت میں صرف کردوں جس کے لیے آپ کی جماعت اٹھی ہے۔

میرا آپ پر یہ حق ہے کہ جب تک میں راہ راست پر چلوں، آپ اس پر میرا ساتھ دیں، میرے حکم کی اطاعت کریں، نیک مشوروں سے اور امکانی امداد و اعانت سے میری تائید کریں اور جماعت کے نظم کو بگاڑنے والے طریقوں سے پرہیز کریں ۔

اس پالیسی بیان کا اہم ترین حصہ وہ ہے جس میں سّید صاحب نے جماعت اسلامی کو فقہی مکتب فکر میں تبدیل ہوجانے سے روکنے کی ہدایت فرمائی۔ ماضی میں بھی آئمہ عظام کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ وہ اپنی فقہی آراء کو امت کے لیے لازمی نہ گردانتے تھے۔ امام مالکؒ نے تو اپنی کتاب مؤطا کو عباسی سلطنت کا قانون بنانے کی اجازت دینے سے معذرت کردی تھی۔ دراصل وہ جانتے تھے کہ کسی بھی صاحب علم کی فقہی آراء سے منسلک ہوجانے کے نتائج جمود، اندھی تقلید، فرقہ بندی اور فقہی مجادلے کی صورت میں نکلتے ہیں، جو بال آخر امت سے تحریک اور جدوجہد کی زندگی چھین لیتے ہیں۔ اصول ترک ہوجاتے ہیں اور فروعات اصول کی جگہ لے لیتے ہیں۔ ان کے اہل علم کا کام اپنے امام اور فقیہ کے کلام و اقوال کو بطور حجت پیش کرنے اور اس کے آگے سر تسلیم خم کروانے کے سوا اور کچھ نہیں رہتا اور ان کے عوام انہی فقہی آراء کو اوّل و آخر اسلام سمجھ بیٹھتے ہیں، کتاب و سنت کے احکام و تعلیمات ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں اور فقہی آراء اتنی اہمیت کا مقام حاصل کرلیتی ہیں کہ ایک فقہی مسلک کے حامل لوگ دوسرے مکتب فقہ سے تعلق رکھنے والوں کو کافر قرار دینے لگتے ہیں، امت اپنے مقصد وجود کو تج کر ٹکڑیوں میں بٹ جاتی ہے اور سر پھٹول میں مصروف ہوجاتی ہے۔ سّید صاحب، جن کا تاریخی شعور بڑا توانا تھا، ان کی اس پوری صورت حال پر نظر تھی، چنانچہ انہوں نے اعلان فرمایا: فقہ و کلام کے مسائل میں میرا ایک خاص مسلک ہے، جس کو میں نے ذاتی تحقیق کی بنا پر اختیار کیا ہے، اب میری حیثیت اس جماعت کے امیر کی ہوگئی ہے، فقہ و کلام کے مسائل میں، میں جو کچھ آئندہ لکھوں گا یا کہوں گا، اس کی حیثیت امیر جماعت اسلامی کے فیصلے کی نہ ہوگی بلکہ میری ذاتی رائے کی ہوگی۔ ارکان جماعت کو میں خداوند برتر کا واسطہ دے کر ہدایت کرتا ہوں کہ کوئی شخص فقہی و کلامی مسائل میں میرے اقوال کو دوسروں کے سامنے کے طور پر پیش نہ کرے۔ اسی طرح میرے ذاتی عمل کو بھی جسے میں نے اپنی تحقیق کی بنا پر جائز سمجھ کر اختیار کیا ہے، نہ دوسرے لوگ حجت بنائیں اور نہ بلا تحقیق محض میرا عمل ہونے کی حیثیت سے اس کا اتباع کریں۔ ان معاملات میں ہر شخص کے لیے آزادی ہے، جو لوگ عمل رکھتے ہوں، وہ اپنی تحقیق پر اور جو علم نہ رکھتے ہوں، وہ جس کے علم پر اعتماد رکھتے ہوں، اس کی تحقیق پر عمل کریں۔ نیز، ان معاملات میں مجھ سے اختلاف رائے رکھنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے میں بھی سب آزاد ہیں۔