April 19th, 2024 (1445شوال10)

اصحاب کہف ۔ ۔ ۔ حصہ اول

حافظ ولید

ہزاروں سال پہلے کا ذکر ہے کہ روم میں دقیانوس نامی بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا وہ بہت ہی ظالم اور درندہ صفت آدمی تھا۔ اللہ پر یقین نہیں رکھتا تھا اور بتوں کی پوجا کرتا تھا ، اس کی پوری قوم اللہ کی عبادت سے ناواقف تھی بلکہ سب کے سب بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ وہ آپس میں اکثر یہ تذکرہ کرتے تھے کہ یہ مٹی کے بت ہیں جنہیں قوم والے خدا سمجھتے ہیں۔ بھلا انسان کو کیا فائدہ یا نقصان دیں گی ، کم عقل لوگ ہیں ، اتنی سی بات نہیں سمجھتے پھر بادشاہ بھی عجیب آدمی ہے لوگوں کو سختی کے ساتھ ان کی پوجا کرنے پر زبردستی مجبور کرتا ہے ۔ بچوں ! جو لوگ بتوں کی عبادت سے انکار کرتے تھے ، بادشاہ ان کو آگ میں ڈال دیتا تھا ، ان کے ناخن کھینچ لیتا تھا۔
اس قوم میں ہر سال ایک میلہ لگتا تھا جس میں تمام لوگ شرکت کے لیے جاتے تھے ، یہاں کشتیاں ہوتی تھیں ، دوڑ کے مقابلے ہوتے اور طرح طرح کے کھیل تماشے ہوتے تھے ، سارے انعام تقسیم ہونے کے بعد بتوں کی پوجا ہوتی اور مٹھائی تقسیم کی جاتی تھی ، ان تمام فضول تماشوں سے تنگ آکر چند لوگ ایک درخت کے سائے میں آکر بیٹھ گئے ، ان میں سے کوئی کسی کو نہیں جانتا تھا ، آخر ایک نے دوسرے سے تعارف کرایا اور پوچھا بھائی تم سب یہاں کیوں بیٹھ گئے ، پہلے نے کہا مجھے بت پرستی سے نفرت ہے ، دوسرا بولا ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی عبادت کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ،تیسرے نے کہا، پوری قوم جاہل ہوچکی ہے ، کوئی بھی خدا کو نہیں جانتا۔ 
ان سب نے مل کر عہد کیا کہ وہ ہرگز بتوں کی پوجا نہیں کریں گے بلکہ صرف اس خدا کی پرستش کریں گے جو سب کا مالک ہے۔ جس نے چاند تارے ، زمین ،آسمان پانی اور انسان سب کو پیدا کیا ہے ، وہی سب کو کھلاتا ہے ، پیدا کرتا ہے اور موت دیتاہے ، ان چند ساتھیوں نے مل کر اپنے خدا کی عبادت شروع کردی۔ اڑتے اڑتے یہ خبر ان کی قوم میں پھیل گئی کہ چند نوجوان بتوں سے باغی ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ، چند چغل خوروں نے یہ خبر بادشاہ کو بھی پہنچادی ۔ بادشاہ نے یہ سنا تو غصے سے لال پیلا ہوگیا اور کہنے لگا میں اس ملک میں بتوں کے خلاف بولنے کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتا ، اس نے حکم دیاکہ نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جائے اور اس کے سامنے پیش کیاجائے ، جب یہ نوجوان گرفتار ہو کر محل میں گئے تو کیا دیکھا کہ بہت ہی خوب صورت محل ہے ،اونچے اونچے کمرے ، وسیع دلان ، خوبصورت باغیچے ، جگہ جگہ قیمتی قالین بچھے ہیں ، دیواروں پر خوبصورت اور ریشمی پردے لٹک رہے ہیں ،درنجوں نوجوان ہاتھوں میں تلواریں لیے محل کی حفاظت کررہے تھے لیکن اللہ پر ایمان رکھنے والے یہ نوجوان کسی چیز سے متاثر نہیں ہوئے کیونکہ وہ صرف اللہ کو بڑا طاقت والا مانتے تھے اور جو اللہ کو بڑا سمجھتے ہیں وہ کسی سے قطعی نہیں ڈرتے اور نہ کسی کے سامنے جھکتے ہیں ۔ یہ نوجوان بھی بے خوف بادشاہ کے سامنے گئے بادشاہ نے ان سے کہا، میرے ہم وطنو ! میں نے سنا ہے کہ تم قوم کے خداؤں کو برا بھلا کہتے ہو اور ایک ایسے خدا کو مانتے ہو جسے کسی آنکھ نے دیکھا بھی نہیں شاید تم جو ان ہو اسی لیے اپنے مذہب سے بھٹک گئے ہو ، دیکھو تم ان باتوں سے باز آجاؤ میں تمہیں اچھے اچھے عہدے اور انعام دوں گا۔
بادشاہ نے جب اپنی بات ختم کی تو ایک قیدی نوجوان نے کہا بادشاہ سلامت ہم اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت ہرگز نہیں کرسکتے ۔ ہمارا خدا بڑی طاقت والا ہے ، ہم آپ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ آپ بھی جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر سب سے بڑے اور سچے خدا کی بندگی کریں جو مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتاہے ، سب کو وہی رزق دیتاہے ،پانی برساتا ہے ، فصل اگاتا ہے اور اولاد دیتاہے۔........Read more