آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہو گا کہ کسی قوم کی تعمیر میں اس کے نوجوانوں کا بڑا کردار ہوتا ہے - نوجوان کس کو کہتے ہیں؟ نوجوانی آپکی عمر کا وہ حصّہ ہوتا ہے کہ جب آپ بچپن کے دور سے نکل چکے ہوتے ہیں لیکن ابھی پختہ عمر یا سن شعور کی حدود میں داخل نہیں ہوئے ہوتے ہیں - یہاں پرشاید لفظ سن شعور پڑھ کر آپ ٹھٹھک گئے ہوں گے- شاید آپ میں سے اکثر کو اپنے والدین سے بھی کبھی نہ کبھی یہ سننا پڑا ہو گا کہ " تم کو تو کسی چیز کا شعور ہی نہیں ہے" - اگرچہ ہم عام بول چال میں عقل و شعور ملا کر بولتے ہیں لیکن درحقیقت ان دونوں الفاظ کے معنی الگ الگ ہیں- عقل تو وہ صلاحیت ہے جو آپ کے اندرالله تعالیٰ نے آپکی پیدائش کے ساتھ پیدا کی ہے لیکن شعور، یعنی صحیح اور غلط اور فائدے اور نقصان کے درمیان تفریق کا ادراک اوراس ادراک کی روشنی میں کسی بھی عمل کو سرانجام دینا ، یہ وہ صلاحیت ہے جو علم ، مشاہدے اور تجربے کے ساتھ حاصل ہوتی ہے - آپکے بزرگ اپنی عمر کے جس حصّے میں داخل ہو چکے ہیں وہاں انھیں اپنے مشاہدوں اور تجربوں ، اور شاید اپنی غلطیوں سے بھی ، بہت سی ان باتوں کا ادرک ہو چکا ہے جو ابھی شاید آپکو نہیں ہے - لہٰذا انکے مشورے ، نصیحتیں اور کبھی کبھی جنجھلا کے کہا گیا یہ جملہ کہ " تم کو کسی چیز کا شعور نہیں ہے " دراصل انکی وہ خیر خواہی ہے کہ وہ آپ کو ان غلطیوں سے بچانا چاہتے ہیں جنھیں وہ یا تو خود کر چکے ہیں یا دوسروں کو کرتے دیکھ چکے ہیں - ورنہ یہ یقین رکھیں کہ آپ کے بزرگوں کو آپ کی عقل اور آپ کی صلاحیتوں پہ کوئی شبہ نہیں- تبھی تو وہ آپ سے یہ کہتے ہیں کہ قوم کی تعمیر و ترقی میں نوجوانوں کا سب سے بڑا کردار ہے-
درحقیقت نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے ، جذبے اور توانائی اپنے عروج پہ ہوتے ہیں - اگران جذبوں اور توانائی سے قوم و ملک فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ انتہائی بڑا نقصان ہے - اگر ہم اعداد و شمار کا جایزہ لیں تو پاکستان کی آبادی کا تقریباً ٦٠% حصّہ نوجوانوں پر مشتمل ہے - یہ نوجوان وہ ہیں جو صلاحیتوں سے بھرپور ہیں- جنکے عزائم بلند ہیں- جو مایوس نہیں ہیں اور جنکو اپنے ملک سے محبّت ہے اوراپنے مسلمان ہونے پر فخر-
ضرورت اب صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہو کہ ہمارے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوے کیسے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے- یہ کام حکومت ، والدین ، اساتذہ اور خود نوجوانوں، سب کو مل کر کرنا ہے-اس وقت چونکہ ہمارے مخاطب نوجوان ہیں اس لئے جو کام انھیں کرنا ہے اسی پر ہم زیادہ بات کریں گے -
اس حوالے سے سب سے بنیادی چیز بہترین تعلیم کا حصول ہے- بہترین تعلیم کا مطلب مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق آپ جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہوں آپکا ایک ایک لمحہ سیکھنے کے عمل میں استعمال ہو- اس وقت آپکے والدین اور آپکے ارد گرد کا تقریناً سارا ماحول آپکے تعلیم حاصل کرنے میں آپکا معاون ثابت ہو رہا ہے اس لئے اس وقت کو ضایع نہ ہونے دیں- زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں - ایسا علم جو آپکو بہترین مسلمان اور اچھا انسان بناۓ اور آپکی صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہو- اگر آپ میں لکھنے، پڑھنے،بولنے اور سمجھنےکی بہترین استعداد ہو گی تب ہی آپ ملکی معملات میں اپنا کردار بہتر طور پہ ادا کر سکیں گے-
تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی نا کوئی ہنر سیکھنے کی کوشش بھی ضرور کریں- یہ ہنر ایک تو آپکے اپنے لئے بھی کارآمد ہوگا کہ آپکے لئے عملی زندگی میں ایک سے زیادہ راستے کھل جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ آپکے لئے انسانوں کو انسان سمجھنا زیادہ آسان ہوجائے گا- ہم معاشرے کے کچھ لوگوں کو ان کے پیشوں سے ہٹ کر اپنے جیسا انسان سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے - کوئی لوہارہوتا ہے تو کوئی کمہار کوئی مستری تو کوئی پلمبر- جب ہم خود ان میں سے کوئی ہنر سیکھیں گے تو ہمیں احساس ہوگا کہ یہ کوئی ذاتیں نہیں ہیں بلکہ یہ تو بس کچھ ہنر ہیں جنھیں سیکھ کر لوگ اپنی روزی کما رہے ہیں-
ایک اور اہم کام جو آپکو کرنا ہے وہ یہ ہے کہ آپکو ایک باخبر انسان بننا ہے - اپنی تاریخ سے بھی باخبر اور مستقبل میں کیا ہوتا نظر آرہا ہے اس سے بھی باخبر - آپ ہی وہ نسل ہیں جنھیں آگے جا کر ملک کی باگ ڈورسنبھالنی ہے- اس لئے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ماضی کی غلطیاں کیا تھیں جنھیں اب نہیں دھرانا اور بہترمستقبل کے لئے زمانے کے موجودہ وسائل اور ایجادات کا کیسے صحیح استعمال کرنا ہے - کتابیں پڑنے کی عادت ڈالیے - اچھی اور علمی صحبت تلاش کیجئے - انٹر نیٹ کی سہولت سے مثبت طور پے استفادہ حاصل کیجئے - فیس بک ، youtube ،whatspp یہ سب چیزیں وقت ضا یع کرنے کا باعث بھی بن سکتی ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے لہٰذا آپ ان سے فائدہ اٹھانے والے بنیے -
آپکو اپنے اردگرد رہنے والے انسانوں اوران کے مسائل سے بھی باخبر رہنا ہو گا تاکہ ایک دن جب آپ ایک ڈاکٹر، جج ، وکیل ، صحافی ، استاد یا کسی بھی پیشے کی حثیت میں عملی طور پر مصروف عمل ہوں تو معاشرے میں موجود نسلی، لسانی اور طبقاتی اونچ نیچ سے بلا تر ہو کر معاشرے کی ان ناانصافیوں کو دور کرنے کا باعث بننے والے ہوں - جس معاشرے میں انصاف ہوتا ہے وہی معاشرہ ترقی کرتا ہے اور پھر اجتمای طور پہ وہ پوری قوم ہی ترقی کی رہ پہ گامزن ہو جاتی ہے-
آپکو اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اپنے کام میں حسن اور ترتیب بھی ضرور پیدا کرنی ہوگی- آپ کتنی ہی محنت سے کوئی کام کریں لیکن اگر اس میں بےترتیبی ہوگی تو نتیجہ وہ نہیں حاصل ہوگا جو اتنی محنت کے بعد حاصل ہونا چاہیے- اگر آپ اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو محنت کرتا ہوا تو تقریباً ہر شخص نظر آتا ہے بلکہ محنت کر کرکے ہلکان ہوا نظر آتا ہے
لیکن اس محنت کا کوئی قبل ذکر نتیجہ دکھائی نہیں دیتا - اس کی وجہ یہی ہے کہ اس محنت اور توانائی زیادہ بڑا حصّہ بےترتیبی اور ناقص منصوبہ بندی کی نظر ہو جاتا ہے اور آخر میں جو چیز سامنے آتی ہے وہ حسن اور کمال سے عاری ایک چیز ہوتی ہے جس کو بس مارے بندھے قبول کرنا پڑتا ہے-
آپکو اپنی ذات کو بھی ایک اچھے نمونے میں ڈھالنے کی کوشش کرنی ہو گی - گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی اپکا اخلاق ایسا ہو کہ لوگ آپ سے خوش ہوں اور آپ کی صحبت میں رہنا پسند کریں- قوم کی تعمیر اور آپکے ذاتی اخلاق، اور خاص طور پہ گھر کے اندر آپ کے اخلاق، میں کیا نسبت ہے اس کو اس طرح سمجھیے کہ ایک گھر میں رہنے والے افراد ہی سے تو معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے کے افراد مل کرہی ایک قوم تشکیل دیتے ہیں- آج گھروں کے اندر رشتوں میں چپقلش اور نااتفاقی بڑھتی جا رہی ہے- جب اس ماحول سے نکل کر ایک فرد باہر کے افراد سے معاملہ کرتا ہے تو مزاج کی وہ برہمی ان معاملات پہ بھی اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہے- دوکاندار گاہک سے الجھ رہا ہوتا ہے پڑوسی دوسرے پڑوسی کی شکل سے بیزار نظرآرہا ہوتا ہے اور آفس میں ہر شخص دوسرے کو اپنا دشمن سمجھ رہا ہوتا ہے- جب اس بیزار اور الجھی کیفیت میں ذاتی اور ملکی مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اسکا بھی کوئی کارآمد نتیجہ برامد نہیں ہوتا - لہٰذا اس ماحول کو بدلنے کی کوشش کرنی ہے- ایک بیٹا یا بیٹی یا بہن یا بھائی کی حثیت سے اپنے گھر میں، طالب علم اور دوست کی حثیت سے اپنے تعلیمی ادارے میں اور اپنے محلّے کے افراد کے ساتھ معاملات میں آپکی ذات لوگوں کے لئے سکون اور خوشی کا باعث ہو- آپ تلخیوں اور غلط فہمیوں کو دور کرنے والے ہوں نہ کہ انکو بڑھاوا دینے والے- اگر ہم میں سے ہر شخص اور خاص طور پہ آپ نوجوان اگر اپنی ذات سے اس چیز کی ابتدا کردیں توکچھ وقت تو ضرور لگے گا لیکن یہ بےسکونی اور جھنجھلاہٹ کی فضا ضرور بدلے گی -
اور آخر میں ایک اہم بات جو آپ کو اپنے ذہنوں میں راسخ کر لینی ہے کہ اس مملکت خدادا کے حصول کی جدجہد میں آپ ہی کے جیسے نوجوان تھے جو قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کے دست و بازو بنے تھے - آج اس ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی آپ ہی کو سب سے اہم کردار ادا کرنا ہے - آپ ہی دنیا کے سامنے اپنے ملک و قوم کی شناخت ہیں اور آپ ہی کو اپنی قوم میں دوبارہ اس کی عظمت اور حثیت کے احساس کو اجاگر کرنا ہے- آپ اپنے بزرگوں کی امید ہیں اور اپنے بعد آنے والی نسل کے لئے ایک مثالی نمونہ - اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اس احساس کے ساتھ گزاریے - کوئی وجہہ نہیں کہ آپکے بزرگوں کی رہنمائی اور آپکی محنت کے نتیجے میں الله تعالیٰ ہمیں دوبارہ اس مقام پے پہنچا دے جو ہم کھو بیٹھے ہیں-