کسی بھی معاشرے کی تعمیرمیں نوجوانوں کردارسب سے اہم ہوتا ہے- ایک اسلامی معاشرے میں بھی ایک نیک اور بلند ارادہ نوجوان کلیدی کردار ادا کرتا ہے- لیکن یہ دنیا طرح طرح کی ترغیبات اور رنگینیوں سے بھری ہوئی ہے- ایک مسلمان اور خاص طور پہ ایک نوجوان مسلمان کے لئے اپنے آپ کو ان سب سے بچا کر رکھنا کسی جہاد سے کم نہیں- ایک مسلمان نوجوان یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا محض کھیل کود اور مزے کرنے کی جگہ نہیں لیکن کبھی کبھی وہ بھی ان ترغیبات میں بھی کشش محسوس کرنے لگتا ہے- ایسے میں ضروری ہے کہ اس کے سامنے کچھ حفاظتی تدابیر ہوں جو اس کے لئے ڈھال کا کام انجام دیں-
نوجوانی کا دور زندگی کا سب سے اہم دور ہوتا ہے- یہ وہ دور ہوتا ہے جب عادتیں ،رجحانات اور خیالات تشکیل پا رہے ہوتے ہیں- اور پھر کم و بیش یہی عادتیں اور رجحانات انسان کے ساتھ پوری زندگی چلتے ہیں- اس لئے یہ بہت اہم ہے کہ اس دور میں اچھی عادتیں پروان چڑھیں- نماز کی پابندگی، قرآن کے ساتھ تعلق، صفائی و طہارت کا شعور،نظم وضبط ، درگزر کی عادت، مخالف جنس کے ساتھ غیر ضروری اور بے تکلف میل جول سے اجتناب وغیرہ جیسی عادتیں اگرابتدا ہی میں ایک نوجوان کی زندگی کا حصّہ بن جائیں گی تو وہ ساری زندگی برائی اور ترغیبات کے مقابلے میں اسکی مددگار ثابت ہوں گی -
نوجوانی میں قائم ہوئی دوستیاں اکثر پوری عمر ہمارے ساتھ چلتی ہیں- یہ ایک اچھی بات ہے- لیکن یہ اور بھی اچھی بات ہو گی اگر وہ دوست ہمیں الله کے نزدیک لے جانے والے ہوں - نبی محترم صلی الله علیہ و سلّم کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا دیکھو کہ تم کس کو دوست بنا رہے ہو؟ اس لئے دوستیاں بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے - دوستوں کے ساتھ صرف ہنسی مذاق کا رشتہ نہ ہو بلکہ انکے لئے دل میں محبّت، خلوص اورغم خواری کا جذبہ بھی موجود ہونا چاہیے -
خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے- اور شیطان کن باتوں کی ترغیب دیتا ہے یہ بھی سب جانتے ہیں لہٰذا اپنے دماغ کو شیطان کے لئے خالی چھوڑنے کے بجاۓ اسکو علم کی جستجو میں مصروف کردینا چاہیے - ہمارا دین تو علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیتا ہے اس لئے زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں- یہ علم دینی اور دنیاوی دونوں طرح کا ہو- کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالیں - نوجوانی میں دماغ زیادہ توانا ہوتا ہے یاد کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے پھر والدین اور اردگرد کا ماحول بھی حصول علم میں معاون ثابت ہورہا ہوتا ہے لہٰذا اس وقت کوکسی بھی حالت میں بیکار کے کاموں میں ضایع نہیں ہونے دیں-
اگرچہ اس کا ذکر سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا لیکن اس کو آخر میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سب باتوں کے بعد اصل بات جو دماغ میں راسخ کرلینی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر عمل کی بنیاد الله تعالیٰ کی کبریائ اور اس سے محبّت کے اظہارپر مبنی ہو- ہمارا اچھی عادتوں کو اپنانا محض اس لئے نہ ہو کہ لوگ تعریف کریں گے بلکہ اس لئے ہو کہ یہ میرے الله کو پسند ہیں- اچھی صحبت کی تلاش، حصول علم کے لئے بھگ دوڑ سب اس نیت سے ہو کہ یہ سب مجھے اپنے رب کے دین کی دعوت دینے میں مددگار ثابت ہونگے - اور پھر اس نیت اور احساس کے ساتھ کے گئے عمل سے آپکو فائدہ بھی دہرا حاصل ہوگا- صرف الله کی خاطر اگرآپ کسی کی غیبت سے رکیں گے، کسی کو معاف کریں گے یا کسی کی مدد کریں گے تو الله کی رضا تو حاصل ہو گی ہی آپکے عمل میں بھی اخلاص پیدا ہوگا اورآپکا یہی اخلاص لوگوں کے دلوں میں آپکے لئے محبّت اور شکرگزاری کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنے گا- اور یہی جذبات لوگوں کو آپکی بات سننے پر آمادہ کریں گے- لوگوں تک الله کا پیغام پہچانا ہی آپکی اصل ذمہ داری ہے اور یہی آپکی اصل کامیابی ہے-