حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نوجوان نے کسی بوڑھے شخص کی اس کے بڑھاپے کی وجہ سے تعظیم وتکریم کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت ایسے شخص کو مقرر کرے گا، جواس کی تعظیم کرے گا۔ (جامع ترمذی)
زمانہ جوانی میں انسانی قوتیں بھی اپنے عروج پر ہوتی ہیں، سوچنے کی طاقت عمل کی قوت،غصے کی طاقت اور ہر قسم کی قوت پراسے ناز بھی ہوتا ہے، اس لیے جوانی میں انسان سرکشی کی طرف بھی زیادہ مائل ہوتا ہے، لیکن اگر انسان زمانہء جوانی میں سنبھل جائے تو یہ واقعی ایک مثالی جوان ہوتا ہے،غالباً اسی لیے شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:
درجوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
جوانی میں پرہیزگاری کی زندگی گزارنا پیغمبروں کا طریقہ ہے اور واقعی بہت بڑا کمال ہے۔ رسولﷺ کو بہت سے کمالات میں سے ایک کمال اللہ تعالیٰ نے یہ بھی عطا فرمایا تھا کہ جوانی ہی میں آپ ﷺنے اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کا لوگوں سے اعتراف کروالیا۔ نبوت ملنے سے پہلے آپ ﷺچالیس سال تک کی جوانی کی زندگی اپنی قوم میں گزارچکے تھے، اس زندگی کی پوری تصویر اور اس کا ہر رخ آج تک محفوظ ہے۔ یہ چالیس سالہ زندگی سچائی، دیانت اور خدمتِ خلق جیسے اعلیٰ اوصاف سے پھر پور ہے،جس کی بنا پر آپ ﷺ کو دشمنوں نے بھی صادق اور امین کے لقب سے پکارا،جب آپ کو نبوت ملی تو آپﷺ اپنی سچائی کے ثبوت میں اپنی اسی چالیس سالہ زندگی کو پیش فرمایا۔ آپ ﷺ کی جان کے دشمن ،آپکے دین اور دعوت کے دشمنوں کو بھی ا س بات کی ہمت نہ ہوسکی کہ آپ ﷺ کی سابقہ زندگی پر انگلی اٹھا سکیں ۔
رحمۃاللعالمین ﷺ کا بہت بڑا معجزہ آپ ﷺ کی جوانی کی حالت یں پاکیزہ زندگی ہے،ایسی صاف ستھری اور اخلاق سے آراستہ زندگی ،جس کے دوست و دشمن سب ہی معترف ہیں ۔ آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کے الفاظ ہیں کہ میں نے اپنے بھتیجے کو جھوٹ بولتے نہیں سنا اور اسے کبھی گلیوں میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا۔
آج ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کے سب سے زیادہ عیب اس کے رشتے داروں کو معلوم ہوتے ہیں۔ اس لیے معاشرے کے بزرگ آج کے نوجوانوں پر کوئی ذمہ داری ڈالنے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ نبی کریم ﷺ نے اپنی جوانی کے زمانے میں حجراسود کی تنصیب جیسے اہم کارنامے انجام دیے۔
جب بارشوں کی وجہ سے سیلاب آیا،کعبہ کا کچھ حصہ گر گیا تو مختلف قبیلوں نے مل کر اسے دوبارہ تعمیرکیا ، حجرِ اسود لگانے کا سوال اٹھا تو فساد کا خطرہ ہوا، طے ہو اکہ جوسب سے پہلے کل صبح بیت اللہ میں داخل ہوگا وہ رکھے گا، سب نے پہلے پہنچے کی کوشش کی، لیکن نبی کریمﷺ پہلے سے موجود تھے، آپ ﷺ نے بڑی عمدہ تدبیرکے ساتھ حجرِ اسودرکھوایا اور ایک بہت بڑا مسئلہ آپﷺنے نوجوانی میں حل فرمایا۔ جوانی میں آپﷺمحبت اور رحمت کی مثال تھے، کسی کی تکلیف کو دیکھ کر مدد کے لیے تیار ہوجاتے، ایک بڑھیا کو دیکھا،بوجھ اٹھائے جاری تھی، کمر بوجھ تلے جھکی جارہی تھی، پتھردل لوگ ہنس رہے تھے۔ آپﷺ نے آگے بڑھ کر بوجھ اپنے کندھے پر رکھا اور لوگوں سے کہا : ایک کمزور بڑھیا کا مذاق اڑانا جوانوں کا شیوہ نہیں ،مردانگی یہ ہے کہ اس کا بوجھ اٹھا دو۔ جوانی میں بھی آپ ﷺ اپنے وقت کا کافی حصہ بوڑھوں،بیماروں اور معذوروں کی دیکھ بھال پر صرف فرماتے تھے۔ ان کے چھوٹے بڑے کام کرتے۔ ایک روز ایک قریشی سردار نے کہا کہ کتنی شرم کی بات ہے ، تم اپنے خاندان کو بٹہ لگاتے ہو، تم اونچے گھرانے کے چشم وچراغ ہو اور اس طرح غریبو ں کے کام کرتے ہو۔ رحمت دوعالم ﷺ نے فرمایا : بے شک میرا پر دادا ہاشم قریش کا سردارتھا ۔ مگر وہ بھی سب کی خدمت کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺکو یتیموں سے بھی بڑی محبت تھی ،ایک بچے کو کمزور لباس میں دیکھا ، اس سے وجہ پوچھی، وہ رو پڑا اور بھوک کی شکایت کی ، آپ ﷺکی آنکھوں میں بھی آنسوآگئے، آپ ﷺ لڑکے کو گھر لے گئے۔ کھانا کھلایا اور کپڑے پہنائے۔
جوانی میں معاشرتی ذمے داریاں پیش آئیں تو تجارت کو ذریعہ معاش بنایا، تجارت کی کامیابی کا علم مکے کی مالدارخاتون بی بی خدیجہ کو ہوا تو کارندوں کے ذریعے شام کے سفر تجارت پر بھیجا، اپنے معتبر غلام میسرہ کو بھی ساتھ کردیا ۔آپﷺنے ایسی دیانت اور محنت سے کام کیا کہ حضرت خدیجہ ؓ کو توقع سے زیادہ منافع ہوا۔ میسرہ کے ذریعے نیکی اور دیانت کا معیارسنا تو آپﷺسے شادی کا پیغام بھیجا ۔ اس وقت آپ ﷺکی عمر 25سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر 40سال تھی۔ حضرت خدیجہؓ کی صورت میں ایک نیک خدمت گزار بیوی ملی ، ان کے ہمراہ بڑی پرسکون اور خوشگوار جوانی میں خانگی زندگی گزاری، ان سے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں ، بیٹے چھوٹی عمر میں وفات پاگئے۔ باقی چاروں بیٹیوں کی شادیاں ہوئیں،کامیاب جوانی کی زندگی میں ایک کامیاب انسان ،ایک کامیاب باپ،خاوند اور پھر کامیاب تاجر کی زندگی گزاری، یہاں تک کہ چالیس سال کی عمر میں بنوت عطا ہوئی۔
آپﷺ کی اس جوانی کی زندگی میں آج کے جوان کو جو نقوش ملتے ہیں ان میں بنیادی اور بہت گہرانقش تو یہ ہے کہ آج کا جوان اپنی جوانی میں سچائی اور دیانت اور شرافت کا پیکر بن جائے اور اس کی خوبیوں کے معترف سب سے پہلے اس کے گھر والے ہوں ،جن کے ہمراہ وہ دن رات گزارتاہے، پھر اس کے رشتے داراس کی خوبیوں کے معترف ہوں اور آج کے نوجوان پر جب معاشی ذمیداریاں آجائیں تویہ کامیابی سے ان ذمیداریوں کو نبھائے اور یہی خوبیاں اس قدر کمال کی ہوں وہی اس کی شادی کا سبب بن جائیں اور اس کے بعد خاوند اور باپ بننے کے بعد اپنی پوری زندگی میں ہر مرحلے میں رسول ﷺ کی حیات طیبہ سے رہنمائی حاصل کرتا رہے۔