October 9th, 2024 (1446ربيع الثاني5)

ذریعہ تعلیم اردو اور نظام تعلیم یکساں ہونا چاہیے

تحریر: غزالہ عزیز

کوئی ملک مادی وسائل سے نہیں بلکہ تعلیم سے ترقی کرتا ہے۔ علم ہمیشہ مہذب قوموں کی اولین ترجیح رہی ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی میں وہاں کے تعلیم یافتہ طبقے کا سب سے زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ آج مسلمانوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ علم سے دوری ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا معاملہ بڑا عجیب و غریب ہے۔ یہاں تعلیمی بجٹ سے زیادہ اہم سڑکیں اور ریلوے ٹریک ہیں جن پر تعلیم کے مقابلے میں بے انتہا زیادہ بجٹ رکھا جاتا ہے۔ معیار تعلیم اور نظام تعلیم دونوں کا معاملہ انتہائی مخدوش ہے۔ نظام تعلیم کیا ہونا چاہیے، ہر حکومت اس سلسلے میں ایک دوسرے سے متصادم پالیسی رکھتی ہے۔ سیاست دان حکومت میں آتے ہیں تو عوام کو ہر طرح کے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ اتنے سال میں ہم یہ کرلیں گے، یہ سال جو آئندہ پانچ یا دس سال ہوتے ہیں۔ جب تک وہ پورے ہوتے ہیں حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں، تعلیم کے معاملے میں تو خاص طور پر ہمارے سیاست دانوں کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔ پچھلے برسوں میں خادم اعلیٰ پنجاب نے سو فی صد خواندگی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے مہم کا اعلان کیا لیکن پالیسی وہ اختیار کی جس سے خواندگی میں کمی آنا لازم ہے۔ یعنی لڑکے اور لڑکیوں کے علیحدہ پرائمری اسکول ختم کردیے، نتیجتاً والدین نے اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنا ہی بند کردیا۔ اب ہمارے سندھ کے وزیراعلیٰ سندھ میں نظام تعلیم کے نئے ٹرینڈ کو متعارف کروارہے ہیں۔ جس کے تحت صوبے میں کیمبرج نظام کے تحت پچاس نئے اسکول قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پھر خود ہی اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعلیم میں خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود ہم کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
مسئلہ وہی معیار تعلیم اور نظام تعلیم کا ہے۔ سب سے پہلے جو چیز قومی سطح پر طے کرنے کی چیز ہے وہ نظام تعلیم ہے یکساں نظام تعلیم کے تحت ہی معاشرہ ہم آہنگی کے ساتھ ترقی کرسکتا ہے۔ ورنہ طبقاتی نظام تعلیم معاشرے کی وحدت کو پارہ پارہ کردیتا ہے۔ جس سے تعمیر و ترقی نہیں بلکہ نفرت و حقارت کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ اعلیٰ طبقے کے لوگ نچلے طبقے کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں سب سے بڑی خامی نظام تعلیم میں ہے، جہاں شہری، دیہاتی، میٹرک، کیمبرج، مدرسہ کتنے ہی طرز کی تعلیم رائج ہے پھر دیہات میں اردو ذریعہ تعلیم ہے۔ شہروں میں اور مہنگے نجی تعلیمی ادارے انگریزی میں تعلیم دیتے ہیں۔ دیہات سے بچے تعلیم پا کر شہر میں مزید تعلیم کے لیے آتے ہیں تو نصاب میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر ان کے اتنے سال کی تعلیم پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، طالب علم دلبرداشتہ ہو کر کامیابی کی منازل طے کرنے کے بجائے ناکامی کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں، اکثر اوقات تعلیمی سفر کو یکسر خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ معیار تعلیم کا یہ حال ہے کہ ملک کے بعض علاقوں کے سرکاری اور نجی اسکول کے پانچویں جماعت کے طلبہ میں سے 48 فی صد لکھی ہوئی اردو تک نہیں پڑھ سکتے۔
دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت پاکستان شعبہ تعلیم میں اہداف کے حصول میں کئی دہائیاں پیچھے ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان بنیادی تعلیم کے میدان میں اہداف کے حصول میں پچاس سال، جب کہ ثانوی تعلیم کے میدان میں ساٹھ سال پیچھے ہے۔ ہماری آبادی میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے یعنی کل آبادی میں گیارہ کروڑ 30 لاکھ نوجوان ہیں جو کل آبادی کا 65 فی صد بنتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے انسانی سرمائے یعنی (ہیومن کیپٹل) سے متعلق 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 130 ممالک میں 125 نمبر پر ہے۔ حالاں کہ کسی بھی ملک کی نوجوان آبادی اس کے لیے سرمایہ ہوتی ہے۔ جس کو تعلیم و تربیت فراہم کرکے ملکی ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اتنی بڑی نوجوانوں کی آبادی ہونے کے باوجود ان سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ اس کی وجوہات میں اسکولوں میں بچوں کا داخلہ نہ ہونا، ناقص بنیادی تعلیم اور نظام تعلیم اور فنی تربیت کا فقدان ہے، اس وقت ملک میں اسکول جانے والے بچوں کی عمر کے دو کروڑ بیس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جب یہ دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہوں گے تو بڑے ہو کر یہ صرف محنت اور مزدوری کرنے والے کام ہی کرسکیں گے۔ اس طرح آبادی کے ایک بڑے حصے کی صلاحیت قومی سطح پر ضائع ہوجائے گی۔ پچھلے دنوں جاپان کے قونصل جنرل نے کراچی میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ پاکستان میں تعلیم خصوصاً تکنیکی یعنی فنی تعلیم عام ہوجائے تو پاکستان کی غیر معمولی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جاپان کا تعلیمی نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں شمار ہوتا ہے، جاپان کی ترقی کی بنیادی وجہ اس کا جاپانی زبان میں تعلیمی نظام کا ہونا ہے۔ جاپان کے پاس کسی قسم کے قدرتی وسائل نہیں ہیں اس کے باوجود جاپانی قوم ترقی کی بلندیوں پر ہے، تعلیم ہی کے ذریعے ہم ایٹمی حملوں اور زلزلوں سے کامیابی سے نمٹتے رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں دقیانوسی تعلیمی نصاب اور انگریزوں کے زمانے کا نظام تعلیم ہے۔ فنی تعلیم پر توجہ نہیں ہے، جب کہ ضروری ہے کہ اس قدر بڑی نوجوانوں کی آبادی کو قوم کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے بھرپور فنی تعلیم ضروری دی ہے۔ خواہ اس کی ڈگری انجینئرنگ سے کم ہو لیکن وہ ایک اچھا روزگار ضرور فراہم کرنے والی ہو۔ اس طرح یہ نوجوان ہمارے صنعتی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی بن سکیں گے۔ ان شاء اللہ۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں ذریعہ تعلیم اردو اور نظام تعلیم یکساں ہونا چاہیے، انگریزی ایک زبان کی حیثیت سے پڑھائی جانی چاہیے، نہ کہ ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام کا ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہم آج تک قومی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر اختیار نہیں کرسکے ہیں۔ حالاں کہ قومی زبان قومی یک جہتی کا بھی باعث بنتی ہے۔