November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

نوجوان اور تعلیمی مسائل

عمارہ حسن

ایک عظیم انسان وہ ہوتا ہے کہ کسی بڑے مقام پر پہنچ جانے کے بعد بھی اس کے اندر عاجزی و انکسار ہو۔ آج ذرا معاشرے پر نظر دوڑائیں تو یہ انکسار و عاجزی ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان اپنے اندر فخر و غرور رکھتا ملے گا، تو دوسری طرف بہت سے افراد مایوسی کا شکار نظر آئیں گے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ آیئے دیکھتے ہیں۔
ذرا اپنے اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بچوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ آخر یہ غرور آتا کہا ں سے ہے؟ایک بچہ اپنی جماعت کا بہت ذہین طالب علم ہے، اس نے امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کیا، یونیورسٹی میں تھا تو سب مضامین میں گریڈ حاصل کیے۔ ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا۔ اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ ہاں میں کچھ کرسکتا ہوں، میں کوئی بڑی چیز ہوں۔ یہیں سے خرابی کا آغاز ہوا۔ کرتے کرتے وہ عملی زندگی میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہوا۔ اب اس کا وہ احساس مضبوط ہوتا چلا گیا کہ ہاں میں کوئی بڑی چیز ہوں۔ اس احساس کے پیدا ہونے کے پیچھے بہت زیادہ افراد کا ہاتھ ہوتا ہے جو اسے اس مقام تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی۔ پھر ایسا انسان اللہ کے دوسرے بندوں کو حقیر سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں لوگوں کو ایسے رویوں کی وجہ سے مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں، بالخصوص طالب علموں کو............ کتنے ہی زرخیز ذہن آج فارغ بیٹھے نظر آتے ہیں، یا اپنی زندگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔ کیو ں کہ ان کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ ناکارہ ہیں اور معا شرے میں ان کا کوئی مقام نہیں مل سکتا، کچھ تو پڑھ لکھ کر بھی مایوس نظر آتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم طالب علموں کی صلاحیتوں کو پرکھنا نہیں جانتے۔ ایک جوہری کی مثال لی جائے ........... جوہری جانتا ہے کہ اس کی دکان میں موجود کون سا ہیرا کتنی مالیت کا ہے۔ ایک طالب علم کسی گو ہرِ نایاب سے کم نہیں ،لیکن افسوس کے سا تھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کی مالیت کا اندازہ لگانے والا کوئی نہیں۔ ایک بچہ جو سب مضامین میں اچھے گریڈ لے رہا ہے، استاد کی نظر میں ہے اس کی اہمیت ہو گی ،اور ایک کم گریڈ لینے والے بچے کو کسی نہ کسی طرح یہ احساس دلائے گا کہ وہ کسی قابل نہیں ہے۔ کوئی باتوں سے یہ احساس دلاتا ہے، کوئی رویّے سے ، تو کہیں کوئی نظروں سے جتاتا نظرآتا ہے کہ تم کسی قابل نہیں۔ کتنے ہی نوجوان ایسے ہیں جو ان رویو ں کے سبب آج کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہے کہ بچے کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ اسے جانا کس فیلڈ میں ہے۔ مانا کہ تعلیمی نظام ٹھیک نہیں، مگر ہم خود کون سا ٹھیک ہیں ؟ اول تو بچے کو اس کی دلچسپی کے مطابق ہی کسی فیلڈ میں جانا چاہیے مگر چلیں تعلیمی نظام ہی ایسا ہے، بچہ غلط فیلڈ میں آگیا تو کیا اب اسے اس کی سزا ملے گی کہ سا ری زندگی اسے نفرت کا نشانہ بنایا جائے ..........؟
فرینک نیٹرنیو یارک میں پیدا ہوا۔ اس کو مصوری کا شوق تھا۔ لیکن اس کے والدین اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے اس نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی مگر ساتھ ساتھ مصوری لے کر چلتا رہا۔ ایک وقت آیا کہ وہ مصوری سے اتنا کمانے لگا کہ طب چھوڑ کر مصوری کرنے لگا۔ بل گیٹس کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا، بل گیٹس کہتے ہیں کہ میں فیل ہو گیا تھا اور میرا دو ست کامیاب ...........آج میں مائیکرو سافٹ کمپنی کا مالک ہوں۔اور میرا دوست اس میں کام کرنے والا انجینئر ہے۔ یہ باتیں صرف پڑھنے کے لیے نہیں ہو تیں، یہ ان لوگوں کے تجربات ہیں جو ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد کامیابی تک پہنچے۔ ہمارا ایک ایک بچہ ہمارے لیے قیمتی ہے۔ ایک بچے کا نقصان دراصل پورے معاشرے کا نقصان ہوتا ہے۔
آپ بھی اپنے بچوں کے اندر چھپی قابلیت تلاش کریں۔ بچہ تو بچہ ہی ہے آخر .............وہ شاید نہیں سمجھ سکتا لیکن آپ تو سمجھ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی بچہ انجینئرنگ میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے لیکن وہ ایک بہترین لکھائی یا بہترین مصور بن جا ئے۔ غرض ہر انسان کو اللہ نے کوئی نہ کوئی صلاحیت عطا فرمائی ہے، بس ان کو نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر بچے کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ تمہیں اپنی فیلڈ میں جدّت لے کر آنی ہے، کچھ ایسا ایجاد کر دو کہ دنیا دنگ رہ جائے، کوئی ایسی چیز دنیا کے سامنے پیش کر دو کہ تم سے پہلے کسی نے ایجاد نہ کی ہو۔ بل گیٹس کو اس مقابلے میں پیچھے چھوڑ جاؤ .............بس تم ہو، وہ نیا شاہکار ہو، اور واہ واہ ہو۔
کمال ہے یہ سب سکھانے والے یہ نہیں بتا پاتے ایک بچے کو کہ اگر تم ایسا شاہکار پیدا نہ کر سکے تو پھر کیا کرو گے ؟اپنی ناکامی کا ماتم کرو گے؟ یا مایوس بیٹھے رہو گے ؟اللہ نے ہر انسا ن میں مختلف صلاحیتیں پیدا کی ہیں، کوئی کہیں کامیاب ہوجاتا ہے تو کوئی کہیں اور ..........لیکن بات آجاتی ہے وہیں جہاں سے میں نے شروع کی تھی کہ ایک بچہ زندگی کے کسی شعبے میں نہیں چل پاتا تو معاشرہ اُس کے ساتھ وہ کرتا ہے جو اس کو ساری زندگی یاد رہتا ہے۔ بچے کو یہی لگتا ہے کہ اب وہ ساری زندگی ناکام ہی رہے گا۔
ایک دفعہ ایک جاننے والی سے اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ آخر ایسا کیا ایجاد کیا جائے کہ دنیا حیران رہ جائے ، (اکثر طالب علموں کی گفتگو کا مرکز یہی ہوتا ہے، کیوں کہ سالہا سال ان کے دماغوں میں یہی ڈالا جاتا ہے) تو جو بات انہوں نے کہی وہ دل کو بہت بھائی۔ کہنے لگیں ’’ضروری نہیں کہ آپ کچھ نیا ہی ایجاد کریں، آپ پہلے سے بنے سافٹ ویئرز کا مثبت استعمال کر کے دنیا کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اللہ نے آپ کو صحت دی، صلاحیتیں دی ہیں، ان کا فائدہ اٹھائیں ، اور خلقِ خدا کو آرام پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس دنیا کی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، مادیت پرستی کو اپنا کر خوش ہوتے ہیں، ظاہری چیزوں پر نظر ہے، بچوں کے اندر قابلیت پیدا کرنے کی طرف کوئی دھیان نہیں ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طالب علموں کو، مقابلہ بازی میں لگا دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک علم، علم ہے چاہے آپ یہ کہیں سے بھی حاصل کریں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ جس نے مجھے ایک لفظ پڑھایا، وہ میرا آقا قرار پایا۔ آج طالب علم مختلف علمی مدارس کو برا بھلا بولتے ہیں کہ فلاں تعلیمی ادارہ اچھا ہے فلاں برا ہے۔ آخر یہ سب کیا ہے ؟ تعلیمی اداروں کو برا بھلا کہتے ہوئے لگتا ہے کہ علم کو برا بولا جارہا ہے آ پ کہیں سے بھی علم حاصل کریں، آپ کے اپنے اندر قابلیت ہے تو آپ اپنا آپ منوالیں گے۔ خدارا یہ مقابلہ بازی بند کریں۔
یاد رکھیں دنیا میں نہ کوئی چیز بیکار ہے اور نہ ہی کوئی انسان حقیر ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان جب اپنے علم پر غرور کرنے لگتا ہے تو وہ پڑھ کر بھی ان پڑھ کا ثبوت دیتا ہے۔ ایک بچہ جس کو یہ تو سکھایا جاتا ہے کہ تمہیں ہر مضمون میں اے گریڈ لینا ہے، لیکن یہ نہیں سکھایا جاتا کہ تمہیں اپنی قابلیت کی وجہ سے تضحیک نہیں کرنی۔ دنیاوی ڈگریاں ایک بچہ کو یہ نہ سکھا سکیں کہ ایک انسانیت کا رشتہ بھی ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسان کے اندر عجز و انکسار پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہونا چائیے۔ جو افراد تعلیم حاصل نہیں کر سکے ان کا مذاق اڑانا یا اپنے رویّے سے ان کو دکھ پہنچانا نہایت غلط بات ہے۔ اگر کوئی شخص علم حاصل نہیں کر سکا تو اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔ حقیقتاََ بھی ایسا ہی ہے۔ آپ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، اگر آپ کسی کی ذات کو مذاق کا نشانہ بناتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے اندر غرور ہے، اور غرور اللہ کو سخت نا پسند ہے، اللہ تکبر کرنے والو ں کو عرش سے فرش پر لا پٹختا ہے۔
آئیے عہد کریں کہ اللہ نے ہمیں علم کی دولت سے نوازہ ہے تو ہم بھی ایک بہترین طالب علم ہونے کا ثبوت دیں گے۔ اور ایک بہترین طالب علم وہی ہوتا ہے جو زندگی کے ہر میدان میں عملاََ اچھا ہو۔ کیوں کہ علم تو بہت سوں کے پاس ہے مگر عمل کوئی کوئی کر پاتا ہے ..........!!