April 19th, 2024 (1445شوال10)

جماعت اسلامی کا یوم تاسیس

 

نئے عزم و یقیں اور تجدید عہد کا دن!

امیر جماعت اسلامی سراج الحق

جماعت اسلامی منصئہ ظہور پر تو 26 اگست 1941 میں آئی، مگر یہ اس تحریک کا آغاز نہیں تھا، جماعت اسلامی اسی تحریک کا تسلسل ہے، جو مکہ کے غاروں، طائف کے بازاروں، مدینہ کی گلیوں، ہجرت کی سختیوں اور بدر و حنین کے معرکوں سے نبرد آزما ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے۔ یہ تحریک انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہی ہے اور قیامت تک اپنی یہ ذمّے داری نبھاتی رہے گی۔ اسی تحریک کا آغاز خاتم الانبیاء حضرت محمد نے ساڑھے 14 سو برس قبل کیا، پھر یہی تحریک خلافت راشدہ، صحابہ کرامؓ، تبع تابعین، آئمہ کرام اور مشائخ عظام کی محنتوں سے ہم تک پہنچی ہے، اس تحریک کی قیادت امام ابو حنیفیہؒ ،امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام مالک ؒ نے کی، یہی تحریک لے کر امام ابن تیمیہؒ آگے بڑھے، پھر یہ تحریک سید عبدالقادر جیلانیؒ، سید مجدد الف ثانیؒ سے ہوتی ہوئی سیدعلی ہجویریؒ، بابا بلھے شاہؒ، سید حسن البنا شہیدؒ اور سید مودودیؒ تک پہنچی اور آج یہ تحریک دنیا بھر میں جماعت اسلامی کے نام سے آگے بڑھ رہی ہے۔

بقول علامہ محمد اقبال:

بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ۔۔۔۔

جماعت اسلامی وطن عزیز کی واحد دینی جماعت ہے، جو ہر قسم کے مسلکی، علاقائی اور قومیت کے تعصّبات سے پاک ہے۔ اس کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں۔ جماعت اسلامی میں شورائی نظام ہے، جس میں کارکنان کی مشاورت کو ہمیشہ بڑی اہمیت دی جاتی ہے، کیوں کہ یہ جماعت اسی منہج پر کار بند ہے جس کی تعلیم حضور نے اپنی سنت مبارک سے دی تھی۔ حضور خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب اور فرستادہ ہونے اور براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے امین ہونے کے باوجود صحابہ کرامؓ سے ہر معاملے میں مشاورت کرتے، حالاں کہ ان پر وحی الٰہی نازل ہوتی تھی اور وہ انسانی مشوروں سے بے نیاز تھے، مگر انہوں نے کبھی کبھی صحابہ کرامؓ کی آراء کو نظر انداز نہیں کیا اور ان کا پورا پورا احترام کیا کہ آپ اللہ کے حکم کو جانتے تھے۔ پیغمبر کو اللہ کا پیغام یاد تھا، جیسا کہ باری تعالیٰ کا حکم ہے:

اپنے معاملات میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کرو۔

ملک کو اس کے بنیادی مقصد سے ہم آہنگ کرنے اور عام آدمی کے حقوق کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد کا اعتراف اس کے مخالفین بھی کرتے تھے۔ قرارداد مقاصد، تحریک نظام مصطفیٰ، تحریک ختم نبوت، بنگلادیش نامنظور اور دیگر قومی تحریکوں میں جماعت اسلامی نے ہمیشہ صف اول میں رہتے ہوئے اپنا شاندار کردار نبھایا ہے۔جماعت اسلامی واحد جماعت ہے، جس میں موروثیت کا کوئی شائبہ تک نہیں، یہاں ہر کارکن قائد اور ہر قائد کارکن ہے، کوئی کارکن بھی قیادت کے منصب تک پہنچ سکتا ہے، جب کہ دیگر جماعتوں میں خواہ، وہ سیاسی ہوں یا دینی، جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں، مورثیت نے پارٹیوں پر قبضہ جما کر انہیں خاندانی پراپرٹی بنا رکھا ہے۔ باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا پارٹی قیادت پر قابض ہوجاتا ہے اور اگر بیٹا یا پوتا اس قابل نہ ہو تو بیٹی نواسی یا پوتی اس منصب جلیلہ پر فائز ہوجاتی ہے اور کسی کو اختلاف کی جرات نہیں ہوتی۔ ایک طبقہ اشرافیہ نے ان پارٹیوں کو یرغمال بنا رکھا ہے، کہیں جاگیردار ہیں، کہیں وڈیرے اور سرمایہ دار اور کہیں قومیت و مسلک کے علمبردار۔ ۔ ۔ جب کہ جماعت اسلامی نے ان موروثی خرابیوں اور خاندانی تسلط سے پاک ایک آئینی و جمہوری راستے پر چلتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ بانی جماعت اسلامی سید مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ اور سید منور حسن کے کسی بیٹے، بیٹی، پوتے یا نواسے نے کبھی خواب میں بھی جماعت اسلامی کا امیر بننے کے متعلق نہیں سوچا۔ جماعت اسلامی کی دعوت کا مرکز و محور ہی اللہ اور رسول اللہ کی ذات گرامی ہے۔ اس کی دعوت کا مرکزی نقطہ ہی یہ ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسری بندگیاں جمع نہ کرو۔ ۔ ۔

ہم کسی کو اپنے امیر کی طرف نہیں بلاتے اور نہ کسی خاص شخصیت کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے کارکن اپنے امیر کی اطاعت بھی معروف میں کرتے ہیں، مجہول اور منکر کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔(سید مودودیؒ )

جماعت اسلامی عالمی اسلامی تحریکوں کی سرخیل کا کردار ادا کررہی ہے۔ اندرون ملک جماعت اسلامی کے شاندار ماضی نے اس کے تاب ناک مستقبل کی راہ متعّین کردی ہے۔ آج ایک زمانہ جماعت اسلامی کی خدمات، خواہ وہ خدمت خلق کے حوالے سے ہوں، دفاع وطن کے حوالے سے ہوں، جمہوریت کی بحالی اور اسلامی نظام حکومت کے قیام اور آئین پاکستان کی تدوین کے لیے ہوں یا ملک میں سیکولرزم اور فاشزم کا راستہ روکنے کے حوالے سے ہوں، کا معترف ہے۔جماعت اسلامی کی تنظیمی طریقہ کار، اپنے کاز سے کمٹمنٹ، خدمت و اخلاص اور صلاحیتوں کا دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں۔ جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں جماعت اسلامی نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہ جماعت اسلامی کی عوامی مقبولیت اور جدوجہد کا بین ثبوت ہے کہ آج بھی مسئلہ کشمیر کو ایک قومی مسئلہ کی حیثیت حاصل ہے اور حکمران تمام تر عالمی دباؤ کے باوجود اس سے انحراف کی جرات نہیں کرسکتے۔

جماعت اسلامی کی تنظیم ہمیشہ قابل رشک رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان کے نظم و ضبط کی مثالیں دی جاتی ہیں، جس پر ہم اللہ کے لاکھ لاکھ شکر گزار ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنان کے سامنے ایک واضح نصب العین ہے، جس کو وہ کسی بھی صورت نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ جماعت اسلامی کے سیکڑوں ارکان و کارکنان سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے ممبر رہے، مگر کسی کے دامن پر کرپشن، کمیشن، اقربا پروری کا کوئی داغ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔یہ محض اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس ہے، ورنہ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں، جس میں سیاست دان دونوں ہاتھوں سے قومی دولت لوٹ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی مظلوم طبقے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ہم اقتدار کے ایوانوں کے دروازے عام آدمی پر کھولنے کی جدوجہد کررہے ہیں تا کہ غریب مزدور، ہاری اور کسان کے بیٹے کو بھی زندگی گزارنے کی وہی سہولتیں مل سکیں، جن سے وزیروں، مشیروں اور حکمرانوں کے بیٹے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی سیاست کا بنیادی مقصد ملک میں شریعت کا نفاذ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ وہ عظیم مقصد جس کے لیے ہمارے بڑوں نے بے انتہا قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا،اس وقت تک پورا نہیں ہوگا، جب تک کہ یہاں مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی و فلاحی حکومت قائم نہیں ہوجاتی، ایک ایسی حکومت، جس کے پیش نظر معاشرے کے پِسے ہوئے طبقہ کی فلاح و بہبود ہو، جس میں یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور غریبوں کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑیں اور ریاست ان کی کفالت کی ذمّے داری پوری کرے۔ یہ خواب اس وقت تک شرمندہٓ تعبیر نہیں ہوسکتا، جب تک کہ عوام اس کے حصول کے لیے ایک بڑی جدوجہد کے لیے تیار نہ ہوں۔

مفہوم آیت:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

نومبر 2014 میں جماعت نے مینار پاکستان لاہور کے سبزہ زار میں کل پاکستان اجتماع منعقد کیا اور ملک بھر سے عوام کو اسی میدان میں اکٹھا کیا جس میں کھڑے ہو کر ہمارے آباؤ اجداد نے ایک اسلامی ریاست کے حصول کا عہد کیا تھا۔ ہم نے قوم کو اسلامی پاکستان،خوشحال پاکستان کا ایجنڈا دیا، جس میں یہ عہد کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے جماعت اسلامی کو اقتدار دیا اور عوام نے ہم پر اعتماد کیا تو ہم پاکستان کو مدینہ کی اسلامی و فلاحی ریاست کا نمونہ بنائیں گے، سودی معیشت کا خاتمہ کیا جائے گا، عورتوں اور طالب علموں کو غیر سودی قرضے مہیّا کیے جائیں گے، عام آدمی کے حقوق کا تحفظ کریں گے، مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کو ان کا جائز مقام دلائیں گے، مزدور کی کم از کم تنخواہ تیس ہزار مقرر کریں گے اور غریبوں کو پانچ بنیادی ضروریات زندگی چاول، چینی، آٹا، گھی اور دالیں ارزاں نرخوں پر مہیّا کریں گے، اسی طرح پانچ بڑی بیماریوں دل، گردہ، ہیپاٹائٹس، کینسر اور تھیلیسمیا کا تمام سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج ہوگا۔ غریب اور امیر کا بچہ ایک ہی سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرے گا، مدارس کو بھی وہی سہولتیں دیں گے، جو بڑے تعلیمی اداروں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو حاصل ہیں، اسی طرح تمام تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم ہوگا۔ آئمہ کرام اور خطبا کو سرکاری خزانے سے تنخواہ دی جائے گی تا کہ وہ ملک میں اتحاد و یکجہتی کی فضا قائم کریں اور مسلکی، علاقائی اور قومیتوں کے تعصّبات کو ختم کرکے ایک قوم کی حیثیت سے اسے آگے بڑھا سکیں۔ ہمیں امید ہے کہ قوم ’اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان‘ کے ایجنڈے پر ہمارا ساتھ دے گی اور پاکستان دنیا میں اپنا کھویا ہوا عزت و وقار دوبارہ حاصل کرسکے گا۔ انشاء اللہ