مولانا شفیق احمد
اسلام میں شادی ایک عبادت ہے اور اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں، جن میں پانچ چیزیں مقصد کا درجہ رکھتی ہیں:
1۔ سکون قلب: ’’اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہارے میں سے تمہارے لیے جوڑے بنائے، تاکہ تم کو اس سے سکون حاصل ہو اور تمہارے درمیان محبت اور شفقت رکھ دی۔‘‘ (الروم:21)
2۔ زوجین کی عفت وپاک دامنی۔
3۔ نیک وصالح اولاد کا حصول۔
4۔ امت محمدیہ کا قوی ہونا۔
5۔ قیامت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کی کثرت پر خوش ہونا اور فخرکرنا۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نیک وصالح بیوی کا ہونا بنیادی عنصر ہے۔ اگر بیوی خود نیک نہیں ہوگی تو اولاد کی کیا تربیت کرے گی؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ چار چیزوں کو سامنے رکھ کر شادی کی جاتی ہے:
1۔ مال، 2۔ حسب ونسب، 3۔جمال، 4۔ دین داری
تم دینداری کو پیش نظر رکھ کر شادی کرو۔ اللہ تمہارا بھلا کرے۔ (بخاری)
شادی کے بعد جب زوجین میں ملاقات ہو تو شرم وحیا کا دامن نہ چھوڑیں، جو نہ صرف یہ کہ انسانیت کی زینت ہے، بلکہ اسلام میں مطلوب ومحبوب بھی ہے۔
پھر جب بحکم الہٰی حمل قرار پا جائے تو دونوں کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ طبی احتیاط کے ساتھ ساتھ، بلکہ اس سے پہلے اسلامی تعلیمات کو اپنانا چاہیے۔ خاص طور سے رزق حلال کا استعمال، نماز، دعا، ذکر وتلاوت قرآن کی پابندی اور پاکیزہ خیالات کو اختیار کریں اور درد و تکلیف کے وقت کلمہ طیبہ کا ورد رکھیں اور آسانی کی دعا کریں۔
بچے کی پیدائش کے وقت مسنون اعمال
بشارت، جب پیدائش ہو جائے تو سب سے پہلے بشارت اور خوش خبری دینا سنت خداوندی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بشارت دے کر ایک فرشتے کو حضرت زکریا علیہ السلام کے پاس بھیجا: ’’فرشتے نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک بیٹے یحییٰ کی خوش خبری دیتے ہیں۔ (آل عمران:39) دوسری جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے: ’’اے ابراہیم! ہم تم کو حلیم بیٹے کی بشارت دیتے ہیں۔ (الصافات: 101)
امام طبرانیؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ کسی کے یہاں جب لڑکی پیدا ہوتی ہے، ایک فرشتہ آکر بشارت دیتا ہے کہ ایک کمزور جان سے کمزور جان پیدا ہوگئی، جو اس کی پرورش کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے گا۔ اور اگر لڑکا پیدا ہوتا ہے تو فرشتہ اس نومولود کی پیشانی چومتا ہے اور کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے تجھ کو سلام بھیجا ہے، اب تو اپنی زندگی کی ابتدا کر رہا ہے۔ جس طرح ہم والدین کو مبارکباد دیں، اسی طرح انہیں شکر خداوندی کی تلقین کریں اور بچے کے نیک وصالح ہونے اور حیات مطمئنہ پانے کی دعا کریں۔ ایک حدیث میں ہے کہ پیدائش کے بعد اگر کوئی’’ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ‘‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ شیطان سے بچے کی حفاظت فرما دیتا ہے۔
بچے کے کان میں اذان واقامت
حضرت حسن رضی اللہ عنہ جب پیدا ہوئے تو حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ اور تحنیک کی، یعنی نرم کھجور چبا کر اس کا تھوڑا حصہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے منھ میں ڈال دیا۔ یہی عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر ان کے ساتھ بھی کیا۔ اذان واقامت سے مقصود عظمت الہٰی کا پیغام سب سے پہلے بچے کے کان میں پہنچانا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فرمایا کہ ایک حکمت یہ بھی ہے کہ شیطان اذان کی آواز سے بھاگ جاتا ہے اور اس طرح بچہ شیطان کے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
عقیقہ کرنا اور بال منڈوانا
ساتویں دن عقیقہ کرنا اور بال منڈوا کر بالوں کے ہم وزن چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا بھی سنت ہے۔ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی پیدائش پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چاندی صدقہ کی۔ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرے کا ذبح کرنا مسنون ہے۔ اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی ہر اولاد کی پیدائش پر ایک اونٹ ذبح کرکے دعوت کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بچہ یا بچی کے لیے عقیقہ ہے، اس کی جانب سے تم خون بہاؤ او راس سے گندگی (سرکے بال) کو دور کرو۔ (بخاری) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر بچہ یا بچی اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے۔اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سرمنڈوایا جائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عقیقہ ساتویں دن کیا، اسی دن ان کا نام رکھا اور حکم دیا کہ ان کے سروں کے بال مونڈھ دیے جائیں۔ (ابوداؤد)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے تحریر کیا ہے کہ یہ سنت ابراہیمی کو یاد کرنے اور رشتے داروں کو خوش خبری دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔
نام رکھنا
اس کے بعد بچے کا نام رکھا جائے، جس میں تین باتوں کا لحاظ رکھا جائے۔ زبان پر آسان ہو۔ اس کے معانی اچھے ہوں، غلط معانی والے نام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بدل دیا کرتے تھے۔ نام کی نسبت اچھی ہو، یعنی اللہ تعالیٰ یا انبیائے کرام کی طرف نسبت ہو۔ اللہ تعالیٰ کو عبداللہ اور عبدالرحمن نام بہت پسند ہیں۔ محمد یا احمد نام رکھنا بھی پسندیدہ ہے۔
ختنہ
ختنہ کروانا بھی عشر من الفطرہ یعنی دس فطرت میں سے ایک ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ چار چیزیں تمام انبیا علیہم السلام کی سنت ہیں: خوشبو لگانا۔ مسواک کرنا۔ ختنہ کرانا۔ نکاح کرنا۔
دودھ پلانا
دودھ پلانا بھی ماں کی اہم ذمے داری ہے اور یہ اتنا اہم عمل ہے کہ حد زنا کی سزا یافتہ صحابیہ کی سزا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سال کے لیے مؤخر کر دی۔ حالانکہ کسی دوسری عورت سے بھی دودھ پلوایا جاسکتا تھا۔ لیکن حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔ نیز ماں کے دودھ پلانے سے ماں اور بچے دونوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ ماں کا دودھ بچے کی ضرورت کے بالکل مطابق ہے۔ نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈا اور ہر دم تیار شدہ موجود۔ ماں کے لیے فائدہ یہ ہے کہ بچے کو دودھ پلانے سے سینے کا کینسر نہیں ہوتا اور پیدائش کے بعد عموماً عورت کا بدن موٹا ہوجاتا ہے، دودھ پلانے سے کافی حد تک موٹاپے کا یہ عمل بھی رک جاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس دودھ سے محبت کا انمول اور بیش قیمت رشتہ قائم ہو جاتا ہے، جس کا کوئی بدل نہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ کیسا عجیب ظلم وغضب ہے کہ جب جب بچہ ماں کی ممتا کے لیے تڑپ تڑپ کر روتا ہے تو خادمہ اس کے منھ میں فیڈر لگادیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بچوں کی پرورش اور ان کی دینی تربیت کی، جو ذمے داری ہمارے کاندھوں پر ہے، بحسن خوبی ہمیں انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!