معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہر معاشرے میں نسل نو کی تعمیر اسی کے ہاتھوں ہوئی ہے اور ہو سکتی ہے۔ ’ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ‘ کے تصور نے عورت کی حیثیت اور کردار کو مزید مستند بنایا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کسی عورت کی معاشرے میں صرف بحیثیت ماں اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے معاشرے اور تہذیب میں خاندانوں اور نسلوں کے بننے اور بگڑنے میں ایک عورت بحیثیت بہن، بیٹی، ساس، بہو اور دیگر تمام رشتوں میں بہت اہم کردار کی حامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کردار کے ساتھ اس معاشرے نے کیا کیا؟ اور اس کردار کی تشنگی کو دُور کرنے کا راستہ کیا ہے؟
عورت کا یہ استحقاق دنیا بھر میں متاثر رہا ہے اور آج بھی ہے۔ بیداری کی تمام تحریکوں کے باوجود بھی عورت زیر عتاب ہی چلی آئی ہے اور اس کے حالات تبدیل نہیں ہوسکے۔
پاکستان کے دیہی علاقوں پر اگر نظر دوڑائیں تو جنوبی پنجاب کے بعض دیہات میں ’ونی‘ کی رسم اب بھی جاری ہے۔ اس رسم میں کسی بھی جرم چوری، ڈاکا، اغوا، رہزنی، قتل اور پسند کی شادی سمیت ہر قسم کے تنازعات، دشمنی اور رنجشوں میں راضی نامہ کرتے ہوئے پنچایت یا جرگہ کے تحت ملزم فریق کی لڑکیوں کو مدعی فریق کے مردوں کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے۔ ایسی خواتین مدعی فریق کی غلام بن کر رہتی ہیں،جب کہ ان میں سے کچھ کو پھرسے صلح بدل رشتہ، یعنی ’ونی‘ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ بسا اوقات ’ونی‘ کی صورت میں ملنے والی خواتین کو قتل اور فروخت بھی کر دیا جاتا ہے۔
ان جاہلانہ رسم و رواج پر مبنی واقعات کی چند بڑی وجوہ ہیں، مثلاً یہ کہ: جہاں پورے کا پورا نظام ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہو تو وہاں کسی کو انصاف کیوں کر مل سکتاہے؟ جہاں عورت ہی کیا سب کے سب ظلم کی چکّی میں پس رہے ہوں، وڈیروں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا سکہ چلتا ہو، جہاں عمر رسیدہ لوگ پنشن کی تھوڑی سی رقم کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہوں، جہاں بچے تعلیم، صحت اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہوں، جہاں میرٹ پر ہوتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے راستہ نہ ملتا ہو، جہاں تعلیم و روزگار کے مواقع دولت، رشوت اور سفارش کی بنیاد پر حاصل کرنا آسان ہو، تو وہاں کسی ایک طبقے (عورت) کو انصاف کیسے مل سکتا ہے؟
۱- سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاںایک بڑی تعداد میں این جی اوز، افراد، اداروں اور تنظیموں نے عورت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہو،تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہاںبہتری نہ آئے۔ دراصل اسلامی جمہوریہ پاکستان میںکام کرتے ہوئے جو غلطی کی جارہی ہے، وہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ریاضی یا فزکس کا کوئی سوال حل کرتے ہوئے شروع میں کلیہ غلط استعمال کرلیں تو لاکھ کوشش کے باوجود ہم سوال ٹھیک نہیں حل کر سکتے، جب تک کہ ہم درست کلیہ نہیں لگائیں گے اور اس کے مطابق حل نہیں نکالیں گے۔ جو لوگ اس وقت میدانِ عمل میں اس جدوجہد میں کوشاں ہیںاور حقوق نسواں کے حوالے سے کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں،ان سے دردمندانہ درخواست ہے کہ وہ رک کر اس بات پر ضرور غور کریں کہ جس معاشرے میں ہم کام کررہے ہیں، وہاں یہ ’کلیہ‘ چلنے والا نہیں ہے جو ان میںسے اکثرنے لگایا ہوا ہے۔
لہٰذا، انھیں رُک کر سوچنا چاہیے کہ منزل کو پانے کے لیے جو راستہ چُنا گیا ہے، وہ منزل کو جاتا ہی نہیں۔ مسئلے کا حل عورت کو یہ باور کرانا نہیںکہ: ’’تمھارے ساتھ مردوں کی جانب سے زیادتی ہورہی ہے، اس لیے تمھیں مرد کے خلاف ڈٹ جاناچاہیے‘‘۔ نیز میڈیا کا دن رات یہ باور کراناکہ: ’’مردوںکے اس معا شرے میںعورت کو کس طرح مردوں کو مات دینی ہے اور اس کی بہتری کی راہ میں اگر کوئی حائل ہے تو وہ صرف مرد ہے‘‘۔یقین جانیں یہ مسئلے کا حل نہیں۔ صدیاں گزر جائیں گی مگر مسائل اس طرح نہیں حل ہو سکتے کہ مرد و عورت آپس میں ٹکراتے رہیںاور جو غالب آجائے وہ فاتح ہو۔
۲- جو لوگ عورت کے استحصال کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ان کی اکثریت، اسلام کے عورت کو عطا کردہ ضابطۂ کار کا حقیقی علم و ادراک ہی نہیں رکھتی، یا پھر اسلام کے خلاف اس ڈس انفارمیشن سے متاثر ہے جو جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ معاشرے میں ہے وہ چودہ سو سال پرانی تعلیمات ہیں جن پر علما نے کبھی اجتہادنہیں کیا، وغیرہ وغیرہ۔
۳ - جو اس کا علم اور ادراک رکھتے ہیں ان کی اکثریت نہ جانے کیوں اس موضوع کو اپنا موضوع نہیں بناتی؟ اور کام کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے؟ وہ دنیا کے سامنے یہ حقیقت نہیں لاپاتے کہ ہمارے پاس کتنی بڑی دولت غیرمترقبہ ہے جس کے بعد ہماری سوسائٹی کو اور بالخصوص طبقۂ نسواں کو کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ اس معاملے میں رہی سہی کسر ان پیشہ ور مذہبی چہروں نے پوری کر دی، جو اسلام کو صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں، اور اپنی زبان اور عمل سے دنیا کے سامنے اسلام کا کچھ ایسا نقشہ پیشہ کرتے ہیں کہ اسلام تو شائد عورت کو قید کر کے رکھنا چاہتا ہے اور اسے دوسرے اور تیسرے درجے کا انسان قرار دیتا ہے۔
٭ اسلام عورت کو جتنے اور جیسے حقوق دیتا ہے، اور آج سے نہیں بلکہ چودہ سو سال پہلے دے چکا ہے، اس کی ایک جھلک بھی حقوق نسواں کے علَم بردار ٹھیک سے دیکھ لیں تو حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس حوالے سے جو ہدایات اسلام دیتا ہے، اس کے برعکس دنیا کے سارے قانون دان، دانش وَر عورتوں کے محسن اور ہمدردان بھی مل کر کوئی قانون اور کوئی چارٹر بنانا چاہیں تو وہ اس سے بہتر نہیں ہو سکتا، جو آج سے چودہ سوسال پہلے اسلام اس کے بارے میں دے چکا ہے۔اسلام نے پستیوں میں گری اور کچلی ہوئی عورت کو اٹھا کر عملاً ایک اعلیٰ مقام پر فائز کیا ہے۔
٭ عورت کو بحیثیت بیٹی رحمت کہا گیا۔ اس کی پرورش میں برابری کا حکم دیا۔ بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے یکساں ہدایت اور اس پر عمل کرنے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ بالکل یہی احکامات بہنوں کے حوالے سے بھی ہیں۔ بحیثیت ماں عورت کو باپ کے ایک درجے کے مقابلے میں تین درجے دیے گئے ہیں اور ماں کے پیروں تلے جنت رکھی گئی ہے۔
٭ نکاح میں عورت کی رضامندی کو لازم قرار دیا گیا ہے اور خلع بھی عورت کی مرضی سے واقع ہوسکتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک لڑکی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میرے والد نے میری مرضی کے بغیراپنے بھتیجے سے میری شادی کردی ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تمھیںپورا اختیار ہے، چاہے اس نکاح کو باقی رکھو، چاہے ختم کردو۔ یہ سن کر لڑکی نے کہا: یارسولؐ اللہ! میرے ماں باپ نے جوکچھ کیا ہے وہ مجھے خوش دلی کے ساتھ منظور ہے ۔میں تو صرف لڑکیوں کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ ان کے ماں باپ اس معاملے میں آزادو خود مختار نہیں ہیں۔
٭ بعض تہذیبوں میں بیوہ عورت کے بارے میں تحقیر آمیز تصورات رائج ہیں، بالخصوص ہندو معاشرت میں۔ اسلام بیوہ کے لیے نہ صرف اجر اور جنت کی بشارت دیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ حُسن سلوک کرنے والے کے لیے بیش بہا اجر ہے۔ وہ اس کے باپ بھائی اور قریبی رشتہ داروں کو قانوناً اس کی کفالت اور سرپرستی کا سختی سے پابند کرتا ہے، اور جس کا کوئی عزیز نہ ہو، اس کا ذمہ ریاست پر عائد کرتا ہے۔ بیوہ کا اس کی مرضی سے نہ صرف جلد نکاح کی ہدایت دیتا ہے بلکہ اس سے نکاح کو اجروثواب کا باعث کہا ہے۔ خود رسولؐ اللہ نے حضرت عائشہؓ کے علاوہ باقی تمام شادیاںبیوہ عورتوں سے ہی کی تھیں(ہمارے ہاں بیوگان کی شادی کے مسئلے کا ذمہ دار برہمنی کلچر ہے)۔
٭ معاشی طور پر بھی اسلام عورت کو بہت مستحکم بناتا ہے اور وراثت میں اس کو حصہ اپنے والدین کی طرف سے بھی ملتا ہے اور شوہر کی طرف سے بھی اور اس ترکے کی وہ بلاشرکت غیرے مالک ہوتی ہے۔ جو کچھ اس کے پاس ہے یا وہ اپنی کوشش سے حاصل کرتی ہے، دولت، جایداد، یا کوئی اور اثاثہ وہ سب کچھ بلا شرکت غیرے اس کی ملکیت ہوتا ہے۔ اس کا نان نفقہ، یعنی خوراک، لباس، علاج معالجہ، مکان اور اگر استطاعت ہو تو خادم کا انتظام کر کے دینا شوہر کی ذمہ داری اور عورت کا حق ٹھیرا۔عورت خواہ کتنی ہی مال دار ہو تب بھی مرد پر اس کا یہ حق ساقط نہیں ہوتا۔ عورت کو ملکیت کا حق اس حد تک دیا گیا ہے کہ وہ شوہر کے مال سے بوقت ضرورت اس کی اجازت کے بغیر لے سکتی ہے،جب کہ بیوی کے مال پر شوہر اس قسم کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ اگر وہ اپنے پیسے سے کوئی کاروبار کرنا چاہے تو وہ بھی کر سکتی ہے۔ اگر مرد اپنا پیسہ اپنی بیوی اور اپنے گھر والوں پہ خرچ کرتا ہے تو اس پر بہت سے اجر کی بشارت کے باوجود یہ اس کا فرض ہے۔اور اگر ایسا عورت کرے تو اجر کی بشارت کے باوجود وہ احسان شمار ہو گا اور اگر نہ کرنا چاہے تو نہ کرے ، جب کہ مرد کو یہ رعایت نہیں۔
٭ شادی کے وقت مہر کی ادایگی شوہر پر فرض کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی مرد نے کسی عورت سے تھوڑے یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں مہر ادا کرنے کا ارادہ نہیں ہے، تو اس نے اس عورت کو دھوکا دیا اور پھر وہ مہر ادا کیے بغیر مر گیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس حال میں حاضر ہو گا کہ وہ زنا کا مجرم ہو گا۔ (الترغیب والترہیب)
٭ حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں کسی حکمت عملی کے تحت مہر کی رقم کی حد مقرر کرنا چاہی تھی، لیکن ایک عورت نے جا کر سوال اٹھایا کہ جس چیز کی اجازت اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں دی ہے، آپ کیسے اس پر پابندی لگا سکتے ہیں؟ اس پر حضرت عمرؓ نے یہ راے واپس لے لی۔
٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ’’تم میں سے اچھا وہ ہے جو گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہو‘‘۔کوئی یہاںصرف تصور ہی کرے اُس معاشرے کا کہ جہاں نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع اور مرد کی اچھائی کا سرٹیفکیٹ اس کا اپنے گھر والوںکے ساتھ اچھا ہو نا ہو، تو اس سے بہتر ماڈل نہ صرف اس سوسائٹی کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے!
اسلام اتنی اَن گنت مراعات دے کر عورت کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی شکرگزار اور فرماںبردار ہو اور اس کے پیچھے اس کے گھرکی نگران ـہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’نیک بیویاںشوہر کی اطاعت کرنے والی ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت ونگرانی میںان کے حقوق اور امانتوں کی حفاظت کرتی ہیں‘‘(النساء۴:۴۳) ۔اور صرف ایک بنیادی کام اس کو سونپا ہے کہ وہ انسانیت سازی، یعنی انسانی تخلیق اور تعمیر اور نسلِ نو کی آبیاری کا کام کرے اور اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے، نیز اسلام کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے وہ ترقی کی ہر سیڑھی پر قدم رکھ سکتی ہے۔ اسلام اس کو کسی طرح کے حصول تعلیم و تربیت (بلکہ حصول علم کو تو عین فرض کہا ہے)، ملازمت، کاروبار،سفر، مہم جوئی، حتیٰ کہ بنائو سنگھارتک کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جانا چاہیے :
٭ اصولاً تو سب سے بڑی ذمہ داری بھی انھی کے کندھوں پر آتی ہے، جو اسلام کا ٹھیک اور تفصیلی علم رکھتے ہیں۔ان کو ہی یہ سوچنا ہو گا کہ آج کی عورت اور آج کے معاشرے کو اس نعمت غیرمترقبہ سے کیسے روشناس کرایا جائے۔ یہ ہمارے معاشرے کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے پاس اتنی بڑی نعمت موجودہے اور ہم للچائی ہوئی نظروں سے دوسروں کی طر ف دیکھ رہے ہیں۔
٭کوئی بھی اصلاح جو ہم کرنا چاہتے ہیں وہ کسی ایک جز کو لے کر نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مجموعی اصلاح کی بات ہو۔ کیونکہ تمام اجزا ایک دوسرے پر اپنے اثرات رکھتے ہیں۔ اس لیے صرف عورت کی تعلیم اور اس کے استحکام کی بات کر کے ہم کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ دراصل مرد و عورت دونوں کی تعلیم و تربیت اور معاشرتی شعور کی بات ہونی چاہیے۔ معاشرے، گھر اور خاندان کا یونٹ تو دراصل مرد و عورت دونوں سے بنتا ہے۔ اگر مرد تعلیم یافتہ اور باشعور نہیں ہو گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ عورت کے حقوق اور اس کو احترام دے سکے۔مردوں کی جہالت کے باعث ہی تو عورت پہ ظلم ہوتا ہے۔
٭اکثر دیہات میں جہالت اور غربت اور اس کے نتیجے میں جو اخلاقی گراوٹ پیدا ہو رہی ہے، اس کا کوئی عام سی تعلیم اور شعور رکھنے والا فرد تصور بھی کر لے تو جھرجھری آنے لگتی ہے۔ ہمارے ہاں این جی اوز کی بڑی تعداد تعلیم، طب، معاش، قانون اور استحکام خاندان جیسے میدانوں میں کام کر رہی ہے۔ کرپشن کی بیماری جس طرح ہمارے خون میں سرایت کر گئی ہے، اس کے زیراثر بہت سی این جی اوز کا مطمح نظر بھی فلاحی کاموں کے نام پر فنڈز بٹورنا ہو گا۔ لیکن انھی میں سے کچھ ایسی این جی اوز ،تنظیمیں اور ادارے بھی ہیں جو حقیقی معنوں میں خیر خواہی کے جذبے سے کام کر رہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔
٭ خاص طور سے وہ این جی اوز، جو CEDAW،بیجنگ ایجنڈا اور UNOچارٹر جیسے عنوانات کو لے کر میدان میں اتر ی ہیں، اور عورت کی آزادی اور ترقی کی بات کر رہی ہیں۔ ان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہاں اس انداز سے یہ کام نہ صرف ممکن نہیں بلکہ نتیجہ خیزبھی نہیں ہے۔ خود ان کے ذمہ داران کو اپنی آنکھوں سے تعصب کی پٹی اُتار کر یہ بات جاننے کی کوشش کرنی ہو گی کہ اسلام کا عورت کو دیا ہوا مقام اور حقوق ان کے پاس موجود چارٹر سے بہتر ہیں کہ نہیں؟ اگر وہ یہ جانے بغیر اپنے کام کا تسلسل اسی طرح جاری رکھیں گے تو اس طرح ان کو شاید چند رول ماڈل تو مل جائیں، جن کو پیش کر کے وہ دنیا کے سامنے اپنے کام کا غلغلہ دکھا سکیں اور ان چند کرداروں کو میڈیا اور بین الاقوامی فورمز پر پیش کر کے یہ ثابت کر سکیں کہ یہ پاکستان کی بیٹی ہے اور اس طرح وہ کوئی خاص ایجنڈا یا خاص مقصد پورا کر سکیں، لیکن اس طرح کوئی حقیقی تبدیلی اور نچلی سطح سے تبدیلی نہیں آنے والی۔
٭ وہ لوگ جو بلا تعصب اس معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ان کو ایک میز پر بیٹھ کر حل سوچنا ہو گااور یہ دیکھنا ہو گا کہ مشترکہ جدوجہد کے ذریعے کیا کیا جا سکتا ہے۔
٭یہاں علما کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف زبانی طور پر عوام کے سامنے عورت کے کردار کی اہمیت اور اس کے مقام و حقوق کو واضح کریں، بلکہ عورت اور اسلام کے حوالے سے جو غلط فہمی پائی جاتی ہے، اس کو دُور کریں۔
٭ دین کی دعوت کا کام کرنے اور دین کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا داعیہ رکھنے والے افراد، گروہوں، تنظیموں اور اداروں کو چاہیے کہ عورت کے حوالے سے دیے گئے اسلام کے احکامات کا معاشرے میں ادراک کرائیںکجا یہ کہ معذرت خواہانہ رویہ رکھیں یا صرف رد عمل تک محدود رہیں، بلکہ اپنے کاموں کے عنوانات میں ایک بنیادی عنوان اس کو بنائیں۔
٭ اصلاحی اور اسلامی تنظیمیں،ادارے اور گروہ سب سے پہلے خود کو بحیثیت رول ماڈل پیش کریں۔ دینی احکامات پر عمل کی کوشش کا داعیہ رکھنے والے اس بات کو اپنے گھروں، خاندانوں اور اپنے ممبران اورملازمین کے لیے بھی اس معیارکو لازم کریں کہ ان کی نجی زندگیوں میں مہر، وراثت اور کفالت وغیرہ جیسے حقوق نہ تلف کیے جائیں۔ بالخصو ص وہ اسلامی تنظیمیںاور ادارے جو اپنے ممبران کو حلال ذریعۂ معاش وغیرہ کا پابندکرتے ہیں تو وہ اس بات کا پابند بھی کرسکتے ہیںتاکہ دنیا کو رول ماڈل پیش کیے جاسکیں۔
٭ دیکھا گیا ہے کہ اصلاحی اور سیاسی تنظیمیں، رفاحی اور خدمتی ادارے وغیرہ جو بھی اس معاشرے میں بہتری وبھلائی کا کوئی کام کرنے نکلتے ہیں تو وہ سر دھڑ کی بازی لگا ڈالتے ہیں۔ معیار کے بجاے مقدار کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور اپنے تئیںاس بڑھوتری کو ہی کامیابی کا معیار سمجھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ حکومت کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔اس لیے انھیں حکومت کی تبدیلی یا حکومت چلانے والوںکو قائل کرنے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور تنظیمی سطح پر آپس میں تعاون کرنا چاہیے۔
٭ کسی دینی اور دنیاوی تعلیمی اداروں میں مطالعہ صنفیات (جنڈر اسٹڈیز) کی نوعیت کا کوئی نصاب شامل ہونا چاہیے، تاکہ کوئی ٹریننگ اور کوئی تعلیم ایسی دی جا سکے جو ایک مرد کو اچھا مرد اور ایک عورت کو اچھی عورت بنا سکے۔
٭ہمارے نظامِ تعلیم سے تربیت کے فقدان کو دو طرح ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے:
۱- ایک قلیل مدتی کورس میں طلبہ و طالبات کو موجودہ نصاب کے ساتھ مختصر دورانیے کے کورسزکروائے جائیں، جو تربیت کی اس ضرورت کو پوراکریںاور ان کورسز کوڈگری کے حصول سے مشروط کیا جائے۔ اور فی الوقت جو ادارے کسی بھی طرح کاتعلیم کا کام کر رہے ہیں، مثلاً اسکول، کالج یونی ورسٹیاں اور مدارس و غیرہ کے لیے یہ کورس ان کے طلبہ و طالبات کے لیے لازمی کیے جائیں۔
۲- دوم: طویل مدتی کورس جس میں نظام تعلیم کا جائزہ لے کر اس میں تربیت، اخلاقیات اور اقدار کو شامل کیا جائے۔ معاشرے کے مؤثر افراد اور اداروں کو طے کرنا ہوگا کہ یہ کام آیا حکومت خود کرے گی، یا اس پہ دبائو کے ذریعے کروایا جائے گا، یا سول سوسائٹی اور پبلک سیکٹر خود کریں گے، یا دونوں مل کے کریں گے۔
پاکستانی عورت کو بالخصوص یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ ملک جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جس کا دستور کہتا ہے کہ ’’چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے، اور پاکستان کی جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔وہاں عورت کو اپنے حقوق، اپنے مقام، اپنی آزادی اور معاشی مضبوطی کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ دراصل اس جدوجہد کی ضرورت ہے کہ جو طاقت اور بلند مقام ایک عورت کو خالق کائنات نے اور کائنات کے سب سے بڑے بادشاہ نے عطا کر دیا ہے اس کو غصب کرنے کا حق دنیا کے چھوٹے چھوٹے خداؤںسے واپس لیا جائے۔