December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

بچوں کی تربیت …اور مائنڈ سیٹ

تحریر: شاہد شکیل

موجودہ دور میں بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کرنا کسی امتحان سے کم نہیں۔ ذرا سی بھول چوک یا بے دھیانی سے ان کے مستقبل اور زندگی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ اگر والدین محض یہ سوچ کر کہ ان کے والدین نے جیسے پرورش کی ہم بھی انہی طور طریقوں سے اپنے بچوں کی پرورش کریں گے تو شاید یہ ممکن نہیں کیونکہ آج کا بیتے کل سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری جانب کئی وجوہات کی بنا پر والدین جان بوجھ کر اپنے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگاتے ہیں اور یہ سوچ کر ہر اس عمل کو نظر انداز کرتے ہیں جو ان کی نظر میں قابلِ مذمت نہیں اور محض وقت کے ساتھ چلنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں یا دیگر کئی وجوہات کے سبب بچوں کا اعتماد تباہ کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دورانِ پرورش والدین کو کون سے طریقے استعمال کرنے چاہییں کہ بچوں کا اعتماد بحال اور بلند رہے اور مستقبل میں مشکلات کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے؟ بیشتر والدین جانتے ہیں کہ بچوں کو اپنی تعریف سننا اور حوصلہ افزائی پسند ہے لیکن کئی والدین جانتے ہوئے بھی ایسا نہیں کرتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ بے جا لاڈ پیار سے بچے سر پر سوار ہو جائیں گے، جو ایک غلط سوچ ہے کیونکہ تعریف اور حوصلہ افزائی سے بچوں میں جتنا زیادہ اعتماد بحال ہو گا اتنا زیادہ وہ مستقبل میں کامیاب ہوں گے اور پْر اعتمادرہیں گے ،جزوی طور پر یہ تمام باتیں درست قرار دی جا سکتی ہیں لیکن جھوٹی تعریف بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اکثر والدین جھوٹ کا سہارا لے کر بچوں پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں لیکن شاید وہ بچوں کی ذہنیت یا چھٹی حس سے واقف نہیں ہوتے ،بچے محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بہلایا جا رہا ہے یا جھوٹی تعریف کے پل باندھے جارہے ہیں۔

بچوں کی نفسیات پر طویل مطالعہ کرنے کے بعد ڈاکٹر کیرول کا کہنا ہے بچوں کے مستقبل کے لیے بنیادی طور پر 2 ماڈل تیار کیے جاتے ہیں جن میں پہلے نمبر پر گروتھ مائنڈ سیٹ اور دوسرا فکسڈ مائنڈ سیٹ۔ان دو مختلف ماڈلز سے بچوں کی پرورش کی جاتی ہے۔ڈاکٹر کیرول کا کہنا ہے والدین کو دوران پرورش یا نگرانی صرف ایک ہی بات پر توجہ دینا لازمی ہوتی ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ کس لہجے ،طریقے اور رویہ اختیار کرتے ہوئے بات کرتے ہیں ، کیونکہ جن بچوں کے ساتھ فکسڈ مائنڈ سیٹ کے پیش نظر بات کی جاتی ہے یعنی مقرر ہ ذہنیت کو مدنظر رکھ کر تو ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے مثلاً کئی باتیں یا عوامل وراثت میں ملے ہوں اور بدستور انہی پر عمل کیا جائے اور موجودہ دور کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بچوں میں تبدیلی نہیںلائی جاسکتی کیونکہ آج جو بچے دیکھ رہے ہیں وہ والدین کے ماضی یا بیتے برسوں کو جو انہوں نے نہیں دیکھا، عمل نہیں کر سکتے۔

اگر والدین دقیانوسی خیالات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے محض اس بات پر ہی انحصار کریں گے کہ ہم نے اپنے والدین سے یہی سیکھا ہے اور یہی اپنے بچوں کو سکھائیں گے یا ایسی تربیت دیں گے جو ہمیں ملی ہے تو ممکنہ طور پر وہ اپنے بچوں میں تبدیلی نہیں لا سکتے اور موجودہ دور کے ساتھ قدم ملا کر چلنے میں کئی روکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں یہ بات کسی حد تک درست سمجھی جاتی ہے کہ بچوں کی صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے کئی منفی عوامل پر پابندی لگانا ضروری ہے لیکن اگر بے جا مشکلات کھڑی کر دی جائیں تو وہ زندگی میں کسی چیلنج کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس لیے دوسرے ماڈل یعنی گروتھ مائنڈ سیٹ کے تحت ان کی صلاحیتوں کو قبول کرنے کے ساتھ تعریف اور حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہے نہ کہ ہر بات پر سوالیہ نشان لگایا جائے یا ایک ایسے امتحان میں ڈال دیا جائے جس کا جواب والدین کے پاس بھی نہ ہو اور محض اپنی خوشی کے لیے بچوں کو مقرر ذہنیت کا پابند بنایا جائے جن بچوں کی تربیت روشن خیالی ،گروتھ مائنڈ سیٹ یا موجودہ دور کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔

ان کے ذہن کبھی منجمد نہیں ہوتے کیونکہ ایسے بچے جانتے ہیں والدین ہم پر بےجا پابندی عائد نہیں کرتے انہیں ہم پر مکمل اعتماد ہے اور ہم نے ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی ایسے بچے اپنی صلاحیتوں سے باخبر ہوتے اور انہیں مزید ترقی دینے کی جد وجہد کرتے ہیں۔گروتھ مائنڈ سیٹ کے تحت پرورش یا تربیت پانے والے بچے کم ہی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرتے ہیں بلکہ کھیل سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے اندر کسی قسم کا خوف نہیں پایا جاتا۔ڈاکٹر کیرول کا کہنا ہے والدین کو چند غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ بچے خود اعتمادی سے زندگی اور مستقبل کا تعین کر سکیں۔مثلاً بچوں کی ذہانت پر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ایسا رویہ اختیار کیا جائے کہ وہ محسوس کریں جو کچھ بھی وہ کر رہے ہیں، غلط نہیں ہے اور والدین اس عمل سے خوش ہیں،بچوں پر زیادہ دباؤ نہ ڈالا جائے ، کسی بھی شے یا عمل کو سادہ طریقے سے نامزد کیا جائے اور آسان مثالیں دے کر انہیں حل کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا جائے نہ کہ مشکل ترین امتحان میں ڈالا جائے جنہیں بچے حل نہ کر سکیں اور اپنی ذہانت پر شکوک میں مبتلا ہو جائیں۔

بچوں کی ناقص کارکردگی پر کبھی تنقید نہ کی جائے مثلا ہوم ورک، اسکول یا کھیل میں بچے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکیں تو تنقید سے گریز کیا جائے اور مناسب تجاویز اور تسلی بخش طریقے اور مکمل طور پر ڈیٹیل سے آگاہ کیا جائے کیونکہ بچے منفی انداز سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ ان کی کسی حرکت یا عمل سے والدین اداس یا ناراض نہ ہو جائیں کیونکہ وہ والدین کو اپنی زندگی کی اہم ترین شخصیات تصور کرتے ہیں ، بچوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے ساتھ وضاحت اور مشقوں سے ان کی مہارت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اور انہیں سمجھایا جائے کہ انسان غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے۔انہیں آزادانہ طور پر مسائل حل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ خود مختاری اور خود اعتمادی سے در پیش مسائل اور مشکلات کا سامنا کر سکیں اور ان کے اندر اتنی ہمت اور طاقت ہو کہ ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو اپنی ذہانت سے حل کر سکیں۔